ہم سب اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا بیٹی اپنی جماعت میں اوّل آیا ہے کہ نہیں۔ ہم بچوں کو مہنگے سکولوں میں داخل کرواتے ہیں، بارہ پندرہ کلوگرام کا بستہ اسکے کندھوں پر لاد کر اسے سکول بھیجتے ہیں، سہ پہر کو جب بچہ واپس آتا ہے تو اسے ٹیوشن پر بھیج دیتے ہیں، شام کو جب وہ گھر آتا ہے تو اسے سکول اور ٹیوشن دونوں کا ہوم ورک بھی کرواتے ہیں، غرض ہر کوشش کرتے ہیں تاکہ بچہ پہلے نمبر پر آئے اور معاشرے میں کامیاب انسان بنے۔ ہماری نظر میں کامیابی صرف بہت زیادہ پڑھنے لکھنے میں ہوتی ہے۔ ایسی تربیت میں جب بچہ جوان ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے اردگرد سوچنے والا خودغرض بن جاتا ہے۔
ہم کبھی اپنے بچوں سے یہ نہیں پوچھتے بیٹا آج آپ نے کتنے دوسرے بچوں کی مدد کی ہے؟ کتنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لائی ہے؟ بیٹا ایمانداری کیا ہوتی ہے؟ برداشت کیا ہوتی ہے؟ کیا آپ نے کسی سے لڑائی کر کے خود صلح کیلئے ہاتھ بڑھایا ہے؟ جھوٹ بولنا بُری بات ہے، حقوق العباد کیا ہوتے ہیں؟ ہمارے نبی صلی اللہ وسلم کا لوگوں کیساتھ حسن سلوک کیسا تھا؟ اخلاقیات کیا ہوتی ہے؟
ذرا سوچیں! جب ہمارے بچے ایسی باتیں سیکھ کر جوان ہونگے تو وہ اپنی زندگی میں ان تمام باتوں پر عمل کرنا شروع کردیں گے۔ معاشرے میں صلہ رحمی پروان چڑھے گی، ایمانداری کا بول بالا ہوگا، جھوٹ کا خاتمہ ہوگا، لوگ اعلی اخلاق کے مالک بن جائیں گے، غرض ایسی نسل پروان چڑھے گی ہمارا معاشرہ تبدیل ہوجائے گا، دنیا ہم پر اعتبار کرے گی ہمیں عزت سے دیکھے گی، ہم ترقی کی راہوں پر گامزن ہوجائیں گے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}