اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیگر تہذیبوں اور مذاہب کی طرح مشرقی تہذیب ، ہندو ، دھرم اور مسلم سماج میں بے شمار خوبیاں موجود ہیں ، جن میں بزرگوں کی عزت ، بڑوں کا احترام ، کسی بڑے کو آپ کہنا اور تو کہنے سے گریز کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن بعض چیزیں اس حد تک پر تکلف اور مصنوعی ہیں کہ ہمارے بڑے ، خصوصا ہمارے بزرگ حضرات و خواتین نہ چاہتے بھی اس کا بھگتان کرتے ہیں ، مثلا جب ہمارے ہاں کوئی سفید ریش و سفید بالوں والا اور دادا دادی ، نانا نانی بن جانا ہے تو ان کے بچے ان کو ان کی منشا کے خلاف ہی بزرگی کی اس مسند پر بٹھا دیتے ہیں ، جس پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے آگے بے بسی کی وجہ سے بیٹھتے ہیں۔
اگر وہ کسی محفل ، کسی سرگرمی کا حصہ بننا بھی چاہیں تو انہیں یہ کہہ کر گھر کے کونے میں مصلے پر بٹھا دیا جاتا ہے کہ آپ کس پنگے میں پڑ گئے ہیں بزرگو یہ آپ کی عمر اللہ اللہ کرنے کی ہے ، تسبیح کریں ، نماز ادا کریں مسجد آباد کریں اور اگر بریلوی نہیں ہیں تو چلہ لگائیں ، اور اگر بریلوی ہیں تو میلاد کی محفل اور اگر شیعہ ہیں تو ذکر حسینؓ میں لگ جائیں۔
متذکرہ بالا عبادات و سرگرمیاں اپنی ذات میں بے شمار خوبیوں سے مزین سہی ، لیکن بزرگوں کو عملی زندگی سے ہی آؤٹ کر دینا ، جنہوں نے ساری عمر ہمارے لئیے بیتائی ہوتی ہے ، انہیں اس طرح راہبانہ زندگی پر مجبور کر دینا ان کے ساتھ یقینا زیادتی اور ہماری غفلت ، خود غرضی اور بزرگوں کے مسائل سے عدم شناسی کی علامت ہے۔
بزرگوں کی کو انکی زندگی سے لطف اندوز ہونے دیجئے۔ ۔ ۔ ۔
ان کے سینے میں بھی دل ہے ، ان کی بھی نفسانی و شہوانی خواہشات و ضروریات ہیں ۔ ۔ ۔
میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے اسی رویہ کی وجہ سے ہمارے بے شمار بزرگ محض آؤٹنگ کیلۓ سہ روزہ، چلہ اور چار ماہ محافل میلاد و عرسوں کی زینت بنتے ہیں ، انسان بنیادی طور پر مہم جو ومہم پسند ہے ، وہ محض راہب بن کر زندگی نہیں گزار سکتا اور اگر اسے اس پر مجبور کیا جائے تو وہ ابنارمل ہو جاتا ہے۔
ہمیں اپنے بزرگوں کیلۓ صحت مندانہ سرگرمیوں کے مواقع پیدا کرنے ہونگے۔
جسمیں ہمارے بزرگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی گزار سکیں۔
انہیں تسبیح پکڑا کر کسی کونے بٹھانے سے بہتر ہے کہ انہیں بھرپور بڑھاپا گزارنے دیا جائے۔