یہ کوئی احسان نہیں بلکہ آپکا فرض ہے۔۔ لیکن خدارا احسان سمجھ کر ہی کر لیں،،
اس سے پہلے کہ پاک سر زمین بنجر ہو جائے،
اس سے پہلے کہ خشک سالی میرے ہرے کھیتوں کو مرجھا دے،
اس سے پہلے کہ سوہنی دھرتی پہ قحط کے خطرناک سائے منڈلانے لگیں۔۔
کیونکہ
انڈیا نے ایٹمی دھماکے کیے۔ جواب میں ہم نے بھی معیشت خسارے میں ڈال کر بجٹ سے کھربوں خرچ کر کے ملکی سلامتی ناقابل تسخیر بنالی۔
انڈیا پچھلے کئی سالوں سے ڈیم پہ ڈیم بنا رہا ہے۔ جسکے ہم ڈائریکٹ متاثرین ہیں، لیکن
مجال ہے کہ ڈیم بنانے کے متعلق سوچا بھی جا سکے۔۔
انڈین ڈیموں کیوجہ سے ہماری زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے حصے کا پانی غیر قانونی طور پہ انڈیا اپنے ڈیموں میں محفوظ کر لیتا ہے۔۔
ہم سفارتی یا خارجی امور میں اتنے بےبس یا نالائق ہیں کہ اپنے حق کیلئے بھی کسی دوسرے ملک یا عالمی ادارے کی حمایت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ حالانکہ خارجہ امور پہ بجٹ کا جو اہم حصہ ہر سال خرچ کیا جاتا ہے۔اسکا بھی کوئی حساب نہیں۔۔
دوسری طرف
ہم داخلی امور میں اس سے بھی زیادہ نالائق ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے کسی کو حکومت یا سیاست کرتے ہوئے 20 سال ہوگئے یا 60 سال۔لیکن قومی امور پہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں پیدا کر سکے۔ ایک ڈیم(کالا باغ) گزشتہ کئی دھائیوں سے صرف اسلئے التواء کا شکار ہے کہ ہمارا اس پہ اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا۔ یعنی بےتکے اختلافات کی بنا پہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جتنے بھی اعتراضات اس پر بقیہ تین صوبوں کے مخصوص متعصب سیاسی لوگوں کیطرف سے اٹھائے گے۔ ماہرین کیطرف سے انکے تسلی بخش جوابات ہم بڑی دیر سے مختلف جرائد و اخبارات میں پڑھ چکے۔ لیکن چونکہ ہم نے تعصب اور تنگ نظری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اسلئے ہم اس ڈیم کی بےجا مخالفت میں ملک سیاست چمکاتے رہیں گے۔ چاہے یہاں کی زمینیں بنجر ہو جائیں، چاہے خشک سالی یہاں ڈیرے جما لے، چاھے قحط سے جانی و مالی نقصان ہوتا رہے۔
جس طرح ایٹم ناگزیر تھا۔ اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ضرورت اب ڈیموں کی ہے۔
ادہر عالمی ماہرین خبردار بھی کر چکے کہ، آئندہ جنگیں زمین یا ذخائر کیلئے نہیں لڑی جائیں گی، بلکہ صرف پانی کے حصول کی خاطر لڑیں گی۔۔
لیکن
ہمارے ارباب اختیار خواب خرگوش میں مگن ملکی دولت لوٹنے میں مصروف ہیں، صرف ایک پارٹی یا حکومت کی بات نہیں۔ اس جرم میں سب برابر کے شریک ہیں، کیا ان پارٹیوں میں پڑھے لکھے لوگ نہیں؟؟ کیا وہ ان چیلینجز سے بے خبر ہیں؟؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی پارٹی سربراہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے اس قوم کے سب سے بڑے مجرم ییں۔ کیا انکا ضمیر انکو ملامت نہیں کرتا کہ عوامی اصل مسائل کیلئے اپنے آقاؤں کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے ہیں، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی عوامی بجٹ کو سڑکوں اور بسوں پہ بےدریغ خرچے کر نے والے پانی کے مسئلہ پہ کچھ سوچیں گے؟؟
آج پاکستان کے حقیقی مسائل کی فہرست بنائی جائے تو سر فہرست پانی کا مسئلہ ہوگا۔
جتنا بجٹ نئی ٹرینوں یا بسوں پہ خرچ کیا جا رہا ہے،
اس سے بہت کم میں ڈیم بن سکتے ہیں، لیکن کیوں۔۔ کیونکہ ڈیم بنانے میں شاید کمیشن نہ ملے، ڈیم کونسا عوام کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں۔ جس سے خوش ہو کر ووٹ بنک میں اضافہ ہو ۔
خیر۔۔۔
الیکشن قریب ہے۔ تمام سیاسی ڈرامے باز دعوں اور وعدوں کے ساتھ گلی گلی خاک چھانتے نظر آئیں گے۔ پسماندہ ترین علاقوں میں بیٹھے کتے کو بھی سیلوٹ کریں گے، جونہی الیکشن ختم، پھر
ڈھونڈ انہیں چراغِ جہالت لے کر۔۔
اس الیکشن میں جو پارٹی اپنے منشور میں دیگر حقیقی عوامی مسائل کیساتھ پانی کے مسئلہ کو شامل کرے گی۔ میرا ووٹ اسی کو۔۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}