Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
281

آفرین ہے اس تجربہ کاری پر

خبر ہے کہ عابد شیر علی نے فیصل آباد میں ایک پولیس اہلکار کو تھپڑ جڑ دیا ۔ سوا ل یہ ہے کہ یہاں پولیس اہلکار کی جگہ رینجرز یا فوج کا کوئی جوان کھڑا ہوتا تو عابد شیر علی تو کیا ، ان کے والد بزرگوار جناب چودھری شیر علی صاحب کو بھی جرات ہوتی کہ اسے تھپڑ مارتے؟ تھپڑ تو رہا ایک طرف کیا ان میں اتنی ہمت بھی ہوتی کہ اسے گھور کر بھی دیکھ سکتے؟

چند منظور نظر بیوروکریٹس پر نیب نے ہاتھ ڈالا تو تخت لاہور سے قصابوں کی بارات جیسا شور اٹھا کہ یہ تو افسران کی توہین ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کیا پولیس اہلکار کی توہین نہیں ہوئی؟ احد چیمے کے لیے دہائی دینے والے حکمران اب کیوں خاموش ہو گئے ہیں ؟ ڈیوٹی پر کھڑے پولیس اہلکار پر ایک وزیر نے ہاتھ اٹھایا ہے کیا وزیر اعلی سے لے کر وزیر اعظم تک کوئی بتا سکتا ہے انہوں نے اپنے وزیر کے خلاف کیا کارروائی کی؟ یہی تھپڑ اگر پولیس اہلکار نے عابد شیر علی کے منہ پر مارا ہوتا تو ذرا تصور کیجیے اب تک کیسا طوفان اٹھ چکا ہوتا ۔ جمہوریت کو نزلہ اوور کالی کھانسی ہی نہیں کینسر اور ایڈز بھی لاحق ہو چکی ہوتی ۔ پولیس اہلکار جیل میں پڑا جسم سہلا رہا ہوتا۔اور عصر حاضر کے تمام ابن خلدون جملہ ریاستی اداروں کو باجماعت یہ وعظ فرما رہے ہوتے کہ ’’ ووٹ کو عزت‘‘ دیجیے اور منتخب اکابرین کا احترام کرنا سیکھیے۔ لیکن اب چونکہ تھپڑ ایک غریب اہلکار کو پڑا ہے اس لیے سب گونگے بہرے اور اندھے بن گئے ہیں۔

10 مئی کو ڈپٹی چیئر مین سینیٹ سے تحریک انصاف کی سینیٹر ثمینہ سعید نے شکایت کی کہ پارلیمانی لاجز سے گزروں تو چرس کی بو سے طبیعت خراب ہو جاتی ہے ۔ اس پر ڈپٹی چیئر مین نے اقوال زریں سنانا شروع کر دیے ۔ پولیس پر رعب جھاڑنے کی روایتی کوشش کی گئی کہ وہ کیوں نہیں اس معاملے کو دیکھتی ۔ اس پر پولیس کی جانب سے ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کو بتایا گیا کہ ہم کیا کریں جس کی گاڑی روکیں اس کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی شاہ جہاں منگریو نے ایک لیڈی پولیس اہلکار پر اس جرم میں تشدد کیا کہ اسے کمرے میں حاضر ہونے کا کہا گیا مگر وہ نہیں ۔ بس یہاں ساری ڈپٹی چیئر مینی دھری کی دھری رہ گئی اور موصوف اقوال زریں سنا کر چلتے بنے۔ اتنی جرات نہ ہوئی کہ اس کی گرفتاری کا کوئی مطالبہ ہی کر دیتے ۔ ہمارے ادارے یونہی تباہ نہیں ہوئے ۔ مبینہ طور پر صادق اور امین اراکین پارلیمان نے برسوں محنت کی ہے تب جا کر سوا ستیا ناس ہو ا ہے۔

پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں جتنا قرض لیا اتنا ہی قرض نون لیگ کی حکومت میں اس دور حکومت میں لے لیا ۔ جو بجٹ یہ قوم پر مسلط کر کے جا رہے ہیں اس کے لیے 13 ارب ڈالر کے مزید قرض کی ضرورت ہے۔ معاشی حالت دیکھ کر خوف آتا ہے۔ لیکن حکمرانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وزیر اعظم نے وفاقی ملازمین کے لیے تین تنخواہوں کے بونس کا اعلان فرما دیا ہے۔ عوام کیا اس لیے ٹیکس دیتے ہیں کہ وزیر اعظم سیاسی رشوت کے طور پر اسے لٹاتے پھریں ۔ قومی خزانہ امانت ہے یا سلطنت عباسیہ کے خلیفہ المسلمین کو کسی جنگ میں ملنے والا مال غنیمت ہے؟ کیا قومی خزانے کے ساتھ اس طرح کی واردات کا مہذب دنیا میں کوئی تصور بھی کر سکتا ہے؟

کیا یہ پری پول رگنگ نہیں ہے؟ آفرین ہے ہمارے الیکشن کمیشن پر جو ہنی مون پر گئی دوشیزہ کی طرح دن چڑھے تک بے فکری سے سو رہا ہے۔ اسے خبر ہی نہیں تجربہ کاروں نے کیا کچھ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کا پہلے دن سے یہ طریقہ واردات رہا ہے کہ خریدو ، کرپٹ کرو اور ساتھ ملا لو ۔ احباب گرہ لگاتے ہیں کہ بیانیہ صرف نواز شریف کے پاس ہے ۔ نواز شریف کی جانے بلا بیانیہ کیا ہوتا ہے اور اس میں کہاں کاما آتا ہے اور کس جگہ فل سٹاپ ۔ وہ صرف ’ بیعانیہ‘ سے واقف ہیں ۔ ان کی طرز سیاست کو اگر ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ’’ کریانہ سٹور‘‘ ہے اور فارن کوالیفائڈ وزیر اعظم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک نہیں بنیادی طور وہ بھی ایک کریانہ سٹور ہی چلا نے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

کریانہ سٹور کی ایک برانچ لاہور میں بھی کھل چکی ہے۔ ایوان وزیر اعلی کے ملازمین کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔ سرکاری وکلاء کے معاوضوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اراکین پارلیمان کی مراعات حیران کن طور پر بڑھا دی گئی ہیں ۔ ممنون حسین صاحب کو بھی ممنون کر دیا گیا ہے۔ کون سا ایئر بلیو یا اتفاق فاؤنڈری کا مال ہے۔ یہ تو قومی خزانہ ہے۔ خاندان شریفاں کو ملنے والا مال غنیمت ۔ ہر شعبہ زندگی میں بانٹ کر ذاتی وفادار پیدا کیے گئے۔ اب جاتے جاتے ووٹرز کو کہا جا رہا ہے یہ لیجیے مال پانی اور الیکشن میں ووٹ کو عزت دیجیے۔ تجربے کا وقعی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ۔ تجربہ کاروں نے اس دفعہ انتخابی مہم بھی خالص قومی خزانے سے چلا کر سیاست کو شرافت کا نیا رنگ دے دیا ہے۔

آپ تجربہ کاروں کی واردات دیکھیے۔ جب شور مچا کہ یہ کیا بندر بانٹ ہو رہی ہے تو کہا گیا یہ اضافہ تمام وفاقی ملازمین کے لیے نہیں ہے۔ یعنی خوفناک کرپشن یا بد ترین نااہلی چھپانے کے لیے نیا جھوٹ بو ل دیا گیا ۔ میرے پاس اتفاق سے وہ سمری بھی پڑی ہے جو فنانس ڈویژن نے وزیر اعظم کو بھجوائی اور اس سمری کے جواب میں فواد حسن فواد نے جو نوٹی فیکیشن جاری فرمایا وہ بھی موجود ہے۔ سمری میں اضافی بونس فنڈامنٹل رولز کے ضابطہ نمبر 9 کے تحت مانگا گیا ۔ اس کے تحت یہ بونس صرف ان افراد کو دیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے معمول کے طے شدہ فرائض سے بہت بڑھ کر کام کیا ہو۔ اس سمری کے جواب میں فواد حسن فواد کیا حکم جاری فرما رہے ہیں ؟ خود پڑھ لیجیے :’’ وزیر اعظم یہ حکم جاری کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کو تین بنیادی تنخواہوں کے برابر بونس دیا جائے‘‘۔ اب اگر حکومت ایک مسئلے پر ڈھنگ کا ایک نوٹیفیکیشن تک جاری نہیں کر سکتی تو ذرا تصور کیجیے اس نے باقی شعبوں میں کیا کیا کمالات نہیں دکھائے ہوں گے۔

ابھی سوموار کی صبح جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، میں نے وزارت خزانہ کے ایک افسر سے پوچھا کہ تازہ ترین پالیسی کیا ہے۔ یہ مال غنیمت تمام ملازمین کے لیے ہے یا صرف چند ایک کے لیے۔ جواب ملا ابھی تک ہمیں بھی کچھ علم نہیں ۔ رات کو ایک اجلاس ہے جس کی صدارت وزیر اعظم کر رہے ہیں ۔ اسی میں معلوم ہو گا کہ حقیقت کیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومتیں اس طرح چلتی ہیں ؟ مال غنیمت لوٹنے میں اتنی بد حواسی؟

مال غنیمت کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم نے حکومت کے خاتمے سے صرف چھ دن پہلے اپنے حلقے میں یونیورسٹی آف مری کے قیام کا اعلان فرما دیا ۔ کیا یہ پری پول رگنگ نہیں ؟ مال غنیمت ہی میں سے پاور سیکٹر کو نوازا گیا ۔اور مت بھولیے کہ خواجہ آصف کے بھی پاور کمپنیوں میں شیئر تھے۔ اس بے رحمی سے لوٹ مار ہوئی کہ اسی حکومت کے آڈیٹر جنرل نے پاور سیکٹر کو 480 ارب کی ادائیگیوں کو غیر قانونی قرار دے دیاہے۔ پنجاب حکومت نے نجی کمپنیوں پر جس بے رحمی سے مال غنیمت لٹایا وہ ایک الگ داستان ہے۔ بغیر کسی معاہدہ کے انہیں اربوں روپے کا قرض دے دیا گیا ، نہ واپسی کا کوئی شیڈول رکھا گیا ، نہ قرض کی شرائط کسی کو بتائی گئیں اور اب محکمہ خزانہ پنجاب پریشان ہے کہ قرض واپس کیسے لیا جائے۔ ادھر عقل مند اور معاملہ فہم آگ نے ہر سو کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد اب کی بار ریلوے کے ریکارڈ روم میں پہنچ کر نعرہ مستانہ لگایا ہے: ووٹ کو عزت دو ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ریلوے کی زمینوں پر قبضے کا سارا ریکارڈ جلا دیا۔
آفرین ہے اس تجربہ کاری پر۔

اپنا تبصرہ بھیجیں