”لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑا‘میں سولہ برس کی مسافت پر ان لمحوں کو دیکھ رہا ہوں جب اخوت کا آغاز ہوا‘ ایک خستہ حال کچی بستی‘ ٹوٹے پھوٹے درودیوار‘ ٹیڑھی میڑھی گلیاں اور گندگی سے اٹی نالیاں‘ اسی بستی میں ایک چھوٹا سا گھر جس کے صحن میں بیری کا ایک درخت اور اس درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی چند عورتیں‘ان عورتوں نے کہا‘ہم غریب ہیں لیکن غربت کے ہاتھوں شکست ماننے کے لیے تیار نہیں‘ ہم بھکاری نہیں‘ ہم بھیک ما نگنا نہیں چاہتیں‘ بھیک ہماری عزتِ نفس پر بوجھ ہے‘ ہم کام کرنا چاہتی ہیں‘ ہم آگے بڑھنا چاہتی ہیں‘ کوئی ہے جو ہمارا ہاتھ تھامے؟ ہمیں کچھ نہیں چاہیے‘ بس دس بیس ہزار روپے قرض پر مل جائیں تو ہم یا ہمارے بچے اپنا روزگار شروع کرسکتے ہیں‘ میرا خاوند سبزی بیچ سکتا ہے‘ پھل کی ریڑھی لگا سکتا ہے‘ دہی بھلے کا ٹھیلہ لگاسکتا ہے‘ موٹر سائیکل کی مرمت اور پنکچرکا کام جانتا ہے‘ الیکٹریشن‘ پلمبر‘ ترکھان‘ جوتوں کی مرمت‘ لنڈے کے کپڑے‘ پلاسٹک کے کھلونے اور سلائی کی مشین!وہاں بیٹھے بیٹھے ان عورتوں نے ہمیں بیسیوں ایسے کاروبار گنوا دیئے جو بیس یا تیس ہزار روپے سے شروع ہوسکتے ہیں اور ان سے ہر ماہ اتنی ہی رقم کمائی جاسکتی ہے۔ سلگتی ہوئی دوپہر اور لُو!میں ان کے پاس بیٹھا حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا‘ میرا ایک دوست بھی میرے ساتھ تھا‘ نہ جانے کیوں اس کا سر جھک گیا‘ ہمارے ذہن میں یہ سوال سر اٹھا رہا تھا کیا ہم اتنی معمولی رقم بھی انہیں فراہم نہیں کرسکتے؟ زندگی بھر کی خوشیوں کی قیمت صرف چند ہزار روپے‘ ہم بستی سے واپس لوٹے لیکن ہمارے ساتھ غم کا بوجھ بھی تھا‘ ہم نے یہ کہانی کچھ دوستوں کو سنائی اور پھر کچھ دیر میں ہی دو لاکھ روپے جمع ہوگئے‘ ان تمام عورتوں کو قرضِ حسنہ پیش کیا گیا اور دردمندی کا ایک نیا باب لکھا جانے لگا‘ان سب کے بچوں‘ بھائیوں اور شوہروں نے کاروبار شروع کیے اور ان کی زندگی بدلنے لگی‘ غربت اتنی بھی لادوا ء نہیں‘دکھ اتنے بھی بھاری نہیں“۔
یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کے الفاظ ہیں‘ پاکستان کے ڈاکٹر یونس کے الفاظ‘ اخوت جیسے ادارے کے بانی کے الفاظ‘ مجھے چند دن پہلے ڈاکٹر امجد ثاقب نے خط لکھا اور خط میں کہا ”یہ اخوت کا آغاز تھا‘ مواخات ِ مدینہ کی درخشاں روایت کا اگلاقدم‘ کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کو اپنا بنایا اور کہا تمہارے دکھ اب ہمارے ہیں اور ہماری خوشیوں میں اب تم بھی شریک ہو‘ پہلا قرضہ‘ ہزاروں قرضے‘ لاکھوں قرضے‘ایک بستی‘ بیسیوں بستیاں‘چند خاندان‘ ہزاروں خاندان‘ لاکھوں خاندان‘ ٹوٹے پھوٹے گھر کے صحن میں بیری کا وہ درخت جس کے نیچے چند عورتیں جمع ہوئیں‘ اس واقعہ کوسترہ برس گزر گئے‘ آج 2018 کا سن ہے‘شاہی مسجد میں ایک دو یا دس بیس نہیں بیس ہزار لوگ جمع ہیں‘ ان میں سے دس ہزار خاندانوں کو ایک ہی وقت میں بلاسود قرضے پیش کیے جائیں گے‘ وہ سفر جو سترہ برس قبل شروع ہوا آج 26 لاکھ خاندانوں تک پہنچ چکا ہے‘دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا ادارہ آج بارہ ارب روپے کا مالک بن چکا ہے‘
قراقرم کی بلندیوں سے بحیرۂ عرب کے ساحل تک‘ 61 ارب روپے کے بلاسود قرضے دیئے جا چکے ہیں‘ساڑھے سات لاکھ گھرانے پچاس ارب سے زیادہ کی دولت کما چکے ہیں‘ اخوت کی اڑھائی سو شہروں میں ساڑھے تین سو برانچیں ہیں‘ یہ تنظیم غریبوں کو دس سے 25 ہزار روپے قرضہ دیتی ہے اور لوگ اس معمولی رقم کی برکت سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اخوت نے قرض حسنہ کے ساتھ ساتھ کلاتھ بینک بھی بنا لیاہے‘ یہ لوگ عام لوگوں سے ان کی ضرورت سے زائد کپڑے جمع کرتے ہیں
اور یہ کپڑے بعد ازاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے جاتے ہیں‘ یہ مواخات کا عملی اظہار ہے‘اس رقم کی فراہمی میں سینکڑوں مخیرحضرات کے علاوہ حکومت وقت کا بھی اہم کردار ہے‘ پنجاب‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر‘ فاٹا اور وفاقی حکومت‘ ہر حکومت نے کہا یہ غیر سیاسی کام ہے‘ مواخات میں سیاست نہیں‘ یہ تو اس ہستی کی روایت ہے جس کی خاکِ پا ہمارے سرکا تاج ہے‘مواخات کی اسی روایت کا معجزہ ہے اخوت دنیا میں قرضِ حسنہ کا سب سے بڑا پروگرام بن چکا ہے‘
آکسفورڈ‘ کیمبرج‘ ہارورڈ میں اس پروگرام کی دھوم ہے‘ لوگ محو حیرت ہیں یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟اتنا بڑا قرضِ حسنہ فنڈ‘ 99فیصد سے زائد ریکوری اور دردمندی کا ایسا خوبصورت مظاہرہ‘ میرا سر اظہارِ تشکر میں جھکنے لگا‘ آنسوؤں کی جھڑی سی لگ گئی ”اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا شکر ادا کرو گے“دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تواخوت کا اگلا قدم یاد آیا‘ اگر قرض بغیر سود کے ہے تو تعلیم بھی بلافیس ہونی چاہیے‘ملک میں ایک ایسی درسگاہ قائم کی جائے جہاں علم کو کاروبار نہ سمجھا جائے‘
جس میں وہ بچے بھی پڑھیں جن کی ماؤں کے پاس بیچنے کے لیے زیور تک نہیں ہیں‘ جن کے خواب مایوسی کی فضاؤں میں تحلیل ہو جاتے ہیں‘ اس یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے ایک ایک اینٹ بیچنے کا عمل شروع ہوا‘ ایک اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی‘ملک میں اگر 5 لاکھ اینٹیں بک جائیں تو پچاس کروڑ روپے جمع ہوجائیں گے اوریوں عمارت کا پہلا حصہ مکمل ہو جائے گا“۔ لوگ کہتے ہیں ہم نیکی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں‘ ہم ایثار میں ایک مثال ہیں‘لوگوں نے کمال کردیا‘
چار لاکھ اینٹیں خرید لیں‘ پاکستان کے ضلع قصور میں تعمیر ہونے والی اس درس گاہ کی چار لاکھ سے زائد اینٹیں بک چکی ہیں‘ ایک لاکھ اینٹیں باقی رہتی ہیں لہٰذا ایک ایسی درسگا ہ کا قیام دور نہیں جہاں چاروں صوبوں کے علاوہ فاٹا‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے آنے والے بچے علم کی روشنی سے منور ہوں گے‘یہ اپنے خوابوں کی تکمیل کریں گے‘کیا یہ پیغام آپ کے دل پہ دستک دیتا ہے‘ اس رمضان المبارک میں آپ نے خدا کی راہ میں بہت کچھ دینا ہے‘ چند اینٹیں اخوت یونیورسٹی کی بھی خریدلیں‘
ایک‘ دو‘ پانچ‘ دس‘ سواینٹیں‘نیکی اور تقویٰ کا یہی راستہ ہے۔ مولانا رومؒ نے کہا تھا‘ میں ساری زندگی ایسے شخص کو ڈھونڈتا رہا جو اللہ کی راہ میں دینے کے بعد غریب ہو گیا ہو لیکن مجھے وہ نہیں ملا‘ کہیں نہیں ملا‘مل ہی نہیں سکتا‘ یہ اینٹیں ان بچوں کے لیے ہیں جو ہمارے قومی وجود کا حصہ ہیں لیکن کاغذ‘ قلم اور کتاب سے محروم اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ڈاکٹرامجد ثاقب کا خیال ہے ”نیکی کے چشمے ابھی خشک نہیں ہوئے‘ مواخات کا دریا ابھی بہہ رہا ہے‘
میں آج پھر مسجد کی سیڑھیوں پہ کھڑا ہو کر بلند میناروں کو دیکھ رہا ہوں‘رفعت‘ بلندی اور شان و شوکت اور پھر نظر اقبال کے مزار کی طرف جاتی ہے اور کانوں میں یہ صدا گونجنے لگتی ہے۔ نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی میری جھولی میں چند اینٹیں ہیں‘ کوئی ہے جو آپ کے توسط سے ان کا خریدار بنے۔ اخوت منتظر ہے“۔ میں نے ڈاکٹر امجدثاقب کا یہ خط پڑھا تومیری آنکھوں میں نمی آ گئی‘مجھے اس خط کے افق سے ایک نیا پاکستان طلوع ہوتا ہوا نظر آیا‘ گہرے اندھیروں میں بہت سے چراغ‘ میں یہ خط آپ کے نام کرتا ہوں صرف اس اضافے کے ساتھ زکوٰۃ دینا ہو تو اس اکاؤنٹ میں دی جاسکتی ہے: اکاؤنٹ کا ٹائٹل: ”Akhuwat“ اکاؤنٹ نمبر: 201100116060201 بنک کا نام: ”Bank Islami“ اور عطیات دینا ہوں تو اس اکاؤنٹ میں دیئے جاسکتے ہیں۔: اکاؤنٹ کا ٹائٹل: ”Akhuwat Donation Collection“ اکاؤنٹ نمبر: 500979002949-55 بنک کا نام: ”Habib Bank Limited“ میری ملک کے مخیر حضرات سے درخواست ہے آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کروڑوں‘ اربوں روپے سے نواز رکھا ہے‘ یہ دولت آپ کی آنکھ بند ہوتے ہی آپ کی نہیں رہے گی‘ آپ کی قبر کی مٹی ابھی خشک نہیں ہو گی کہ لوگ آپ کی گاڑیاں‘ آپ کے گھر‘ آپ کی فیکٹریاں اور آپ کے بینک بیلنس آپس میں تقسیم کر لیں گے‘ لوگ آپ کی قبر تک کو فراموش کر دیں گے‘ آپ اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی دولت کے ایک حصے کی قربانی دے کر ”اخوت یونیورسٹی“ کی یہ اینٹیں خرید لیں‘
آپ کا نام آپ کے بعد بھی زندہ رہے گا‘ آپ بھی یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل ہو جائیں گے‘ مجھے یقین ہے آپ میں ایسے سینکڑوں لوگ موجود ہیں جو تن تنہا یہ اینٹیں خرید سکتے ہیں‘ کاش ایسے لوگوں میں سے کوئی ایک آگے آ جائے۔مجھے خوشی ہے کہ میں بھی آج ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں جن کا نام اخوت ہے‘ جو سترہ برس سے دلوں پہ دستک دے رہے ہیں‘ نیکی کے چشمے خشک نہیں ہوئے‘ مواخات کا دریا بہہ رہا ہے‘ کوئی ہے جو ان کی آواز پر لبیک کہے‘ خدا کیلئے ایک لاکھ اینٹیں خرید لیں‘ ملک کے ہزاروں غریب بچوں کا مقدر بدل جائے گا‘ یہ غربت اور جہالت دونوں سے نکل جائیں گے۔