پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو NA 246 لیاری سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ حلقہ 1988 سے لے کر 2013 تک پیپلزپارٹی کا محفوظ حلقہ رہا ہے اور اب تک کوئی دوسرا امیدوار اُسے فتح نہیں کر سکا ہے۔یہاں سے شہید بے نظیر بھٹو۔ رحیم بلوچ۔ نبیل گبول۔ شاہجہاں بلوچ تیر کے انتخابی نشان پر انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
مگر شاید پہلی بار پیپلز پارٹی کو مقابلے کا سامنا ہے ۔گزشتہ دنوں بلاول بھٹو کی انتخابی ریلی کو لے کر لیاری میں ہنگامہ آرائی اور پتھراؤ ہوا اور بلاول زرداری کو رستے سے ہی واپس آنا پڑا۔پانی اور بجلی کے مسائل کا حل اس علاقے کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے۔گزشتہ دس سال سے صوبہ سندھ میں اقتدار رکھنے کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں مکمّل طور پر ناکام رہی ہے۔
موجودہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے لیاری کی نشستوں کو لے کر شدید اختلافات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ جہاں ایک طرف سابق ممبر قومی اسمبلی شاہجہان بلوچ ٹکٹ نہ ملنے پر گھنٹی کے نشان پر آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں اور بلوچ آبادیوں میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں دوسری طرف پیپلزپارٹی کے جیالے معروف سماجی کارکن جنہیں علاقے میں سر حبیب حسن کے نام سے جانا جاتا ہے اور تعلیمی میدان میں انکی بہت خدمات ہیں وہ بھی گھنٹی کے نشان پر ہی الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئیے گئے ہیں وہ مختلف حوالوں سے پہلے ہی متنازع چلے آرہے ہیں۔ یہ تو پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات کی داستان ہے ۔دوسری طرف بلاول بھٹو کے مقابلے پر قومی اسمبلی کے الیکشن میں تحریکِ انصاف کی طرف سے پیپلزپارٹی کے سابق جیالے اور لیاری کی مشہور سماجی شخصیت شکور شاد موجود ہیں جنہیں لیاری کا بچہ بچہ جانتا ہے انکے ساتھ پینل میں صوبائی اسمبلی پر لیاری میں کھیلوں کے سرپرست مشہور سماجی شخصیت ناصر کریم بلوچ لڑ رہے ہیں ۔
لیاری کی سیاست کے شناوروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے مضبوط پینل میدان میں اتارا ہے جو کہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو ٹف ٹائم دے گا۔لیاری کے عوام کی پیپلزپارٹی سے انتہائی جذباتی وابستگی رہی ہے اور بھٹو نام پر مر مٹنے کی داستانیں لیاری کے گلی کوچوں میں بکھری پڑی ہیں۔مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے لیاری کو یکسر نظر انداز کر دیا اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مخلص کارکنان کے ہوتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کا انچارج نبیل گبول کو بنایا گا ہے جو شروع سے ہی متنازعہ شہرت کے حامل ہیں ۔ وہ ایک بار متحدہ قومی مومنٹ جوائن کر چکے اور کچھ عرصہ پہلے ہی معافی تلافی کر کے پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے ہیں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جہاں پیپلزپارٹی نے اپنے نظریاتی کارکنان کو نظرانداز کر کے سفارشی لوگوں کو نوازا ہے پیپلزپارٹی کا یہ عمل حقیقی کارکنان میں بد دلی کا سبب بنا اور وہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ باغی گروپ کا لیاری پینل کے نام سے الیکشن لڑنا پیپلزپارٹی کے جیالوں کا تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکش لڑنا کہیں اس بات کا اشارہ تو نہیں کہ لیاری بھی تبدیلی کی زد میں ہے۔
جہاں ایک طرف پیپلزپارٹی لیاری کے عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے وہیں دوسری طرف عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت بھی انتخابی نتیجہ یر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔لیاری مختلف قومیتوں پر مشتمل ایک منی پاکستان ہے, اور لیاری کے عوام کا حق ہے کہ ووٹ کی طاقت سے اپنی تقدیر کو بدلی, 26 جولائی کی صبح لیاری کے عوام اپنا مقدر کیسے بدلتے ہیں اسکے لئیے بس تھوڑا انتظار اور۔