سویڈن میں جب کوئی جرم ہوتا ہے تو پولیس ملزم کو گرفتار کرتی ہے اور تحقیقات شروع کردیتی ہے۔ پولیس کو مارنے یا سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پولیس والے نے ایک تھپڑ بھی مارا ہے تو نہ صرف اسکی نوکری جائے گی بلکہ اسے اس جرم کی سزا بھی ملے گی۔ پولیس نفسیاتی اور سائنسی طریقے سے اپنی تحقیقات شروع کرتی ہے اور اگر ملزم سے دوسروں کو خطرہ نہ ہو تو اسے مکمل گرفتار نہیں بھی کیا جاتا بلکہ وقتاً فوقتاً تحقیقات کے لئے تھانے بلایا جاتا رہتا ہے۔ سویڈن میں رشوت نہ ہونے کے برابر ہے اور کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رشوت دے کر اپنا کوئی بھی کام کروا لے گا۔
پولیس اپنی تحقیقات مکمل کر کے ضلعی عدالت میں اپنی فائنڈنگز پیش کرتی ہے، جہاں چار یا پانچ ججز کی جیوری کے سامنے ملزم اور متاثرہ فریق بیٹھے ہوتے ہیں۔ عام طور پر وکیلوں کی فیس زیادہ ہوتی ہے لیکن ہر شہری کو انصاف مہیا کرنا چونکہ ریاست کی ذمہ داری ہے اسلئے ملزم کی ذاتی اِنکم کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ملزم کو مفت وکیل دیا جائے یا اس سے پیسے چارج کئے جائیں۔ عام طور پر ایک ہی سماعت میں کیس کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اور اگر فریقین اس فیصلے پر مطمئین نہ ہوں تو وہ کیس اپیلٹ کورٹ میں لے کر جاسکتے ہیں، لیکن اس بات کے لئے مضبوط وجہ کی ضرورت ہوتی ہے، کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ضلعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا جارہا ہے، اگر مناسب وجہ ہو تو اپیلٹ کورٹ میں بھی ایک ہی سماعت میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور عموماً نوے فیصد تک ضلعی عدالت کے فیصلے کو ہی فالو کیا جاتا ہے۔
اپیلٹ کورٹ کے بعد ملزم کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرے، لیکن اسکے لئے بھی اسے کوئی مضبوط وجہ دینی پڑتی کہ ایسا کیوں کیا جائے، اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو ایک ہی سماعت میں کیس کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور یہاں بھی زیادہ تر نچلی عدالتوں کے فیصلے کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
سویڈن میں اڑتالیس ضلعی عدالتیں چھ اپیلٹس کورٹس اور ان سب سے اوپر سپریم کورٹ موجود ہیں۔ عدالتوں کے اندر جیوری میں ایک جج ایسا ہوتا ہے جس نے باقاعدہ قانون کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے جبکہ باقی تمام عام لوگ ہوتے ہیں جنہیں عموماً قانون کی الف ب بھی نہیں آتی۔ یہ عام لوگ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں اور لوکل کمیونٹی سے سیلیکٹ کئے جاتے ہیں۔ ہر چار سال بعد الیکشن کے نتیجے کو سامنے رکھتے ہوئے پہلی تین یا چار سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو جیوری میں بھرتی کر لیا جاتا ہے، اور سیاسی جماعتیں خود اپنے اندرونی انتخابات سے ایسے لوگوں کا چناؤ کرتی ہیں۔
تمام جیوری ممبران کے ووٹ برابر ہوتے ہیں۔ کسی بھی مقدمے میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ملزم مجرم ہے کہ نہیں اور اس کام کیلئے کسی قانون کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کامن سینس سے ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ بہت آسانی سے کر لیا جاتا ہے، بعد میں جس جج نے قانون پڑھا ہوتا ہے وہ قانون کے مطابق سزا تجویز کر دیتا ہے۔ ہر مقدمے کی سماعت عام طور پر ایک ہی نشست میں دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے، جب ثبوت وغیرہ پیش کردئیے جاتے ہیں تو دونوں طرف کے بیانات سننے کے بعد لوگ کمرۂ عدالت سے باہر چلے جاتے ہیں جبکہ جیوری ممبران بحث میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ کسی فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں تو سب لوگ دوبارہ کورٹ روم میں آ جاتے ہیں اور مرکزی جج جیوری کا مشترکہ فیصلہ سنا دیتا ہے اور یوں ایک ہی نشست میں لوگوں کو انصاف مل جاتا ہے۔ یہی جیوری قتل، اقدام قتل، چوری، ڈاکے اور ریپ جیسے خطرناک جرائم پر بھی فیصلے صادر کرتی ہے۔
ایک قریبی جاننے والے اور اچھے دوست ایسی ہی ایک ضلعی عدالت میں سیاسی جماعت کی طرف سے جج کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چند دن پہلے انکی دعوت پر دو مختلف نوعیت کے مقدمات کی سماعت کو دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔ کمرۂ عدالت مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ اور آڈیو ویڈیو، پروجیکٹر کی سہولیات سے لیس تھا۔ وکیل نے ثبوت دکھانے کے لئے اپنی یو ایس بی لیپ ٹاپ کے ساتھ لگائی اور ساتھ ہی ایک بٹن دبا کر دونوں سائیڈوں میں موجود کھڑکیوں کے الیکٹرک کنٹرول پردے نیچے کردئیے اور دوسرا بٹن دبایا تو دونوں سائیڈوں پر موجود پروجیکٹرز سکرینیں نیچے آگئیں اور جرم ہونے کے ویڈیو ثبوت کمرے میں موجود ہر شخص کے سامنے پروجیکٹر سکرین پر نظر آنے شروع ہو گئے۔
آج سے ڈیرھ سو سال پہلے انگریز نے برصغیر پاک وہند میں ایسا ہی ایک نظام پنچائیت کی شکل میں رائج کیا تھا جس میں گاؤں، محلہ اور تحصیل کی سطح پر علاقے میں موجود ایماندار لوگ منتخب کئیے جاتے تھے، جو جرم ہونے کی صورت میں فوراً اپنا اجلاس بلا کر فیصلہ دے دیتے تھے اور انکے دئیے ہوئے فیصلے کو اعلی عدالتوں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ ہندؤوں اور مسلمانوں کے ایسے پنچائیتی نظام والی عدالتوں میں الگ الگ قاضی مقرر کئیے جاتے تھے۔ اس طرح مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگوں کو بغیر پیسے خرچ کئیے گھر کی دہلیز پر انصاف مل جاتا تھا اور جرائم کی تعداد آجکل کے زمانے کی نسبت بہت ہی کم تھی۔ لوگ اتنے معصوم ہوتے تھے کہ اگر کبھی کبھار سرخ آندھی آتی تو لوگ فوراً کہتے کہ ضرور کہیں نہ کہیں ناحق قتل ہوا ہے جو آسمان سے اللہ کا قہر و غضب نازل ہو رہا ہے۔
آج پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر قتل، ڈکیتیاں، ریپ اور جائیدادوں پر قبضے ہورہے ہیں، اور ہمارا عدالتی نظام رشوت، سفارش کی بیماریوں سے کینسر زدہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، غریب اور بغیر سفارش والے کا انصاف لینا ناممکن ہے۔ جب مقدمے کا فیصلہ چار پانچ سال یا بعض اوقات دس بیس سالوں میں ہو تو اسے انصاف نہیں بلکہ سرکار کی سرپرستی میں ظلم کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ وسلم کی حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ تم سے پہلے امتیں اسلئیے تباہ و برباد ہو گئیں کیونکہ وہاں امیر کیلئے قانون اور غریب کیلئے قانون اور ہوتا تھا۔
ہمیں اس بیمار اور کرپٹ عدالتی نظام کی تبدیلی کیلئے کوششیں شروع کر دینی چاہئیں اور حکمرانوں کو مجبور کر دینا چاہئیے کہ وہ اس نظام کو تبدیل کردیں، نہیں تو ظلم کے اس نظام کی وجہ سے تباہی ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر ہوگی۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}