چاہے وہ سوشل میڈیا کی دنیا ہو یا اصل دنیا۔ زندگی میں ہمیں ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی شخصیت دوسرے سے مختلف بنائی ہے اور یہی اس دنیا کی خوبصورتی بھی ہے۔ میں نے اپنے سے مختلف کسی انسان سے نفرت کرنا نہیں سیکھا۔ چاہے اس کا مذہب مختلف ہو ، رنگ ، نسل ، فرقہ یا عادات مختلف ہوں۔ ہمیشہ یہی دعا کرتی ہوں کے اللہ پاک ایسی عبادت گزاری ، پاک بازی اور مرتبے سے بچاۓ کہ دوسرے ناپاک اور کمتر لگنے لگیں۔ حقوق اللہ اور عبادات اللہ اور بندے کے بیچ کا تعلق ہوتا ہے۔ اس پر کسی کو کبھی judge نہیں کیا مگر دوسرے کی حق تلفی ، چوری اور دغابازی کو ہمیشہ بُرا جانا اور ہمیشہ اس کی مذمت کی۔
مجھے حیرت ہوئی جب میں نے لوگوں کو بہت جذبے اور شدت سے نفرت کرتے دیکھا۔ نفرت کرنا کچھ لوگوں میں عین فطرت بن جاتا ہے اور وہ اپنے سے مختلف ہر شے سے نفرت کرتے ہیں۔ نفرت کرنے والا جہاں بھی ہو گا اپنی باتوں اور عمل سے نفرت پھیلاۓ گا۔ لوگوں کو تقسیم کرے گا۔ نفرت پھیلانے والوں میں بدترین قسم شاید اُن لوگوں کی ہے جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں۔
مذہب کی آڑ میں لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔
اکثر دیہاتوں میں جب لوگ کسی شخص میں کوئی خامی نہیں ڈھونڈ پاتے تو جھوٹ مشہور کر دیتے ہیں کے اسے نماز ٹھیک نہیں آتی یا قرآن پڑھنے کا عربی تلفظ درست نہیں۔
کیا ایسا کرنا بھی مذہب کی آڑ میں دوسرے سے نفرت اور دشمنی کرنا نہیں ؟
مذہب کا نام استعمال کرنے والا یہ جانتا ہے کے مذہب کے نام پر لوگوں کو اشتعال دلانا کس قدر آسان ہے۔
گزشتہ عید الفطر کی چاند رات پر میں ایک تقریب میں گئی جہاں چاند رات میلے کا انعقاد تھا۔ مختلف بچوں اور ٹین ایجرز نے ملی نغمے ، گانے اور ڈانس وغیرہ تیار کیے گئے تھے۔
میں جب اُس میلے میں پہنچی تو ایک بائیس تئیس سال کا لڑکا سٹیج پر موجود گانا گا رہا تھا۔ فرمائشی پروگرام کوئی آدھا گھنٹے چلتا رہا۔ اب وہ لڑکا چونکہ تھک چکا تھا اس کی جگہ ایک چودہ پندرہ برس کی لڑکی نے لے لی ۔ زرق برق کپڑے پہن کر سٹیج پر آئی۔ سرخ و سفید رنگت اور معصوم چہرے والی کوئی پری معلوم ہو رہی تھی۔
اس نے سٹیج پر آتے ہی سب کو بتایا کے وہ اپنی والدہ کا پسندیدہ گانا گائیں گی۔ اور پھر “جب کوئی بات بگڑ جاۓ جب کوئی مشکل پڑ جاۓ “گانا شروع کیا۔ لڑکی کی آواز اور انداز دونوں ہی معصوم اور دلکش تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کے لڑکی اس گانے کو گانے کے لیے خوب تیاری کر کے آئی تھی۔
میرے ساتھ بیٹھی ایک خاتون فرمائش کرنے کو کھڑی ہوئی۔ مائیک اُن کے ہاتھ میں آیا تو کہنے لگی کے کوئی نعت سناؤ۔ لڑکی نے بہت کہا کے آنٹی میں نے اس فنکشن کے لیے کوئی نعت تیار نہیں کی ہوئی۔ بس یہی ایک گانا تیار کیا تھا۔ وہ خاتون بضد تھیں۔ اور مائیک چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ لڑکی شرمندگی سے بار بار منع کر رہی تھی۔
کوئی روزہ بھی رکھا کے نہیں؟ آنٹی نے سوال داغ دیا۔
جی آنٹی۔ وہ لڑکی بولی۔
مان لیتے ہیں۔ اس خاتون نے باقاعدہ تمسخر اُڑا کر ہنستے ہوۓ جواب دیا اور مائیک اپنی ساتھ آئی تین سالہ بچی جو غالباً اُن کی بھانجی تھی۔ کو پکڑایا اور اس کو نعت سنانے کو کہا۔ بچی نے رٹو طوطے کی طرح نعت کی تین لائنیں چیخ چیخ کر پڑھیں۔
خصروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی۔
بچی کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا کے وہ کیا پڑھ رہی ہے۔
سٹیج پر موجود بچی اب سٹیج سے اُتر رہی تھی۔
اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کے ابھی رو دے گی۔
وہ خاتون کرخت لہجے میں بولیں “زیادہ ہی خوشی چڑھی ہوئی تھی عید کی اچھا شرمندہ کیا میں نے۔ آئندہ کبھی سٹیج پر نہیں آۓ گی۔ “
فاتحانہ انداز میں اپنی بھانجی کو پیار کیا اور اپنے سر پر اسکارف درست کر کے سر فخر سے مزید بلند کر کے بیٹھ گئیں۔
ایسے ہی بہت سے لوگ دوسروں کو تکلیف دینے ، رعب جمانے ،طنز کرنے اور خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔
ایک بات جو اپنی زندگی کے تجربے سےسیکھی ہے وہ یہ کے مذہب کی آڑ میں اپنا اُلو سیدھا کرنے اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں سے بچ کر ہی چلنا بھلا۔
کیونکہ ایک تو یہ بات کے جو انسان مذہب جیسی خوبصورت چیز کو بدصورت مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے وہ کس قدر ظالم ہو گا! اور دوسری بات یہ کے جس میں اپنے مذہبی ہونے کا غرور آ جاۓ اور وہ اپنی جنت پکی سمجھ بیٹھے تو اس کے دل میں دنیا اور انسانوں کی محبت اور ہمدردی دونوں ختم ہو جاتی ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی نفرت کی آگ اور شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}