275

قاتل روبوٹ کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟

روبوٹ، ڈرون اور خودکار آبدوزیں:  ’مصنوعی ذہانت‘ کی وجہ سے اب اسلحے سے لیس مشینوں کو انسانوں کی ضرورت نہیں رہی، یہ مشینیں خود کار طریقے سے میدان جنگ میں سپاہیوں کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کے استعمال کے حوالے سے عالمی قوانین اور قواعد و ضوابط کو تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔

مستقبل کی جنگوں میں موت یا زندگی کا فیصلہ مشینیں کریں گی اور وہ بھی کسی انسانی کنٹرول کے بغیر۔ خودکار ہتھیاروں کی تیاری کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے لیکن اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ ان پر پابندی عائد کی جائے۔

ہلکا ہلکا شور کرنے والے چھوٹے چھوٹے ڈرونز ایک لیکچر ہال میں داخل ہوتے ہیں، کچھ طلبہ کو ہدف پر لیتے ہیں اور ان کے سر میں گولی مار دیتے ہیں۔ یہ ایک فرضی فلم کا منظر ہے جو خودکار ہتھیاروں کے مخالفین کی جانب سے یوٹیوب پر جاری کی گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک ڈرون ایک چھوٹی پلیٹ کے برابر ہے اور یہ ڈرونز اپنے ہدف کی شناخت مخصوص پروگرام کے ذریعے کرتے ہیں۔ جب یہ ایک بار اپنے ہدف کو نشانے پر لے لیں تو پھر وہ بچ کر جا نہیں سکتا۔ شہد کی مکھیوں کے جُھنڈ کی صورت اڑنے والے یہ چھوٹے چھوٹے ڈرونز سوشل میڈیا اور دیگر نیٹ ورکس سے ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں۔ اس فرضی کہانی میں یہ صرف ان افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ویڈیو شیئر کی ہے۔

کیا یہ صرف سائنس فکشن ہے؟

’’سلاٹر بوٹس‘‘ ٹائٹل کے ساتھ اس ویڈیو کو نومبر 2017ء میں پوسٹ کیا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک اسے 25 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ کیا یہ صرف سائنس فکشن ہے یا صرف انتباہی مالیخولیا؟ ہرگز نہیں، یہ کہنا ہے تھامس کُوشن مائیسٹر کا جو خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے حامیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ محض ایک قدم کی دوری پر ہے۔‘‘

کُوشن مائیسٹر ایک جرمن تنظیم ’فیسنگ فنانس‘ کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم اُس بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے جو ’قاتل روبوٹس‘ پر پابندی کی حامی ہے۔ وہ اکثر ہتھیاروں کی نمائشوں کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں متعارف کرائے جانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جانتے ہیں اور انہیں بنانے والی کمپنیوں سے بات کرتے ہیں۔ کسی حد تک خودکار طریقے سے کام کرنے والے ہتھیار پہلے ہی سے موجود ہیں، مثال کے طور پر ایسے راکٹ جو ممکنہ اہداف کا خود ہی تعین کرتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ خود ہی کرتے ہیں کہ کس ہدف کو تباہ کریں اور کسے نہیں۔ اصولی طور پر تو انہیں انسان ہی چلاتے ہیں مگر اصل میں کوئی فوجی اس راکٹ کو فائر کرنے کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی وہ انہیں روک سکتا ہے۔

کوشن مائیسٹر کے بقول اس طرح کے ہتھیار ایک بڑا مسئلہ ہیں کیونکہ وہ ایک فوجی اور ایک سویلین گاڑی کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق ایسا کیا جانا ضروری ہے۔

مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیز رفتار ترقی کے سبب خودکار تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں تیزی آ رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی تیاری پر بین الاقوامی قوانین کا اطلاق کیسے کیا جائے؟

جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں عالمی برادری اس مسئلے پر 2014ء سے بات چیت کرتی چلی آ رہی ہے۔ 27 اگست سے 31 اگست 2018ء تک جنیوا میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں اسی معاملے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اس طرح کے خودکار قاتل ہتھیاروں پر پابندی کے معاملے پر عدم اتفاق کا شکار ہے۔ بعض ممالک اس طرح کے ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں تو بعض ان کی تیاری پر کسی قسم کی پابندی کے مخالف ہیں۔ تاہم جرمنی اور فرانس اس بارے میں معتدل نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

ہاں لیکن ابھی نہیں، جرمن موقف

اپنی اتحادی حکومت میں جرمن حکومت ’دنیا بھر میں ایسے ہتھیاروں کی ممانعت‘ پر اتفاق کر چکی ہے تاہم جرمن حکومت کا یہ بھی موقف ہے کہ جنیوا مذ‌اکرات میں ان پر براہ راست پابندی کی بات حکمت عملی کے حوالے سے ایک غلطی ہو گی کیونکہ اس حوالے سے آراء انتہائی متفرق ہیں۔

جرمنی فرانس کے ساتھ مل کر ایک درمیانے راستے کا انتخاب کر رہا ہے۔ جرمن حکومت کی تجویز ہے کہ سیاسی اتفاق رائے پہلا قدم ہونا چاہیے، جس کے بعد فوجی کوڈ آف کنڈکٹ کی تیاری جبکہ ان ہتھیاروں پر مکمل پاپندی آخری مرحلہ ہونا چاہیے۔ جرمن سفارت کاروں کا خیال ہے کہ یہ مرحلہ وار حکمت عملی ہی تقسیم میں کمی لانے میں معاون ہو گی۔ امید کی جا رہی ہے مختلف آراء رکھنے والے ارکان ایک ایسی سیاسی علامیے پر دستخط کرنے پر تیار ہو جائیں گے، جس پر عمل درآمد لازمی نہیں ہوگا۔ جرمن سفارت کاروں کے مطابق ایک بار جب معیارات طے ہو گئے تو پھر یہ آسان ہو جائے گا کہ ایسے ہتھیاروں پر مکمل پابندی عائد کی جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں