322

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا میچ؟

( شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان)

پاکستانی میڈیا میں یہ تاثر تیزی سے زور پکڑ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شمولیت کے مسئلے پر شدید اختلافات کا شکار ہے۔ یہ بھی اب کافی حد تک واضح ہو گیا ہے کہ میاں نواز شریف جلد ہی بیرون ملک علاج کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں جاری دھرنے نے ایک گھٹے ہوئے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے اور اسی جوش میں مسلم لیگ کی سیاست کو دھرنے کے تناظر میں دیکھنے کی اور اس سے زبردستی جوڑنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اصل میں نواز شریف کی صحت کا تیزی سے بگڑنا اور فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا ایک ساتھ واقع ہونا محض اتفاق ہے۔ زیادہ گمان اس بات کا ہے کہ اگر نواز شریف صحت مند ہوتے تو بھی نون لیگ کی دھرنے میں شمولیت اس سے زیادہ نہ ہوتی۔

سیاسی تجزیے کے طور پر یہ بات یقیناً زیر بحث ہے کہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کی قیادت کون کرے گا۔ تجزیہ نگار 2017 سے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’دی پارٹی از اوور‘ لیکن ابھی تک تو نون لیگ بطور ایک سیاسی جماعت کے متحد ہے اور 2018 کے الیکشن میں واضح شکست کے بعد بھی مرکز اور پنجاب میں ایک اکائی کے طور پر اپوزیشن کا رول ادا کر رہی ہے۔

ہمارے یہاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے متضاد بیانیے کو بھی مسلم لیگ کے اندر اختلاف کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف پارٹی میں مصالحتی بیانیے کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ مصالحت ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہے نہ کہ عمران خان سے۔ جبکہ نواز شریف بہت عرصے سے سِول اداروں کی بالا دستی کی بات کررہے ہیں۔ بطور وزیر اعظم ان کے عسکری قیادت سے ہمیشہ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں جن کا مظاہرہ آرمی چیف راحیل شریف کی ایکسٹنشن نہ ہونے اور ’ڈان لیکس‘ کی شکل میں ہوا۔

2017میں سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ اور’ اداروں’ کو اپنی سمت درست کرنے کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اگر شہباز شریف کا مشورہ مان لیتے تو شاید یہی سفر خاموشی سے موٹر وے کے ذریعے طے کرتے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نون لیگ اصل میں ان دونوں سوچوں کے امتزاج کا نام ہے۔ یہ کوئی انقلابی نہیں بلکہ ’پریگمیٹک‘ یعنی پارٹی ہے جو مصلحت اور موقع کی مناسبت سے اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیتی ہے۔

جب نون لیگ پر الیکشن ایکٹ میں ناموس رسالت کے حوالے سے تبدیلی کا الزام لگا تو نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر احمدیوں کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریر کی کہ اس کے بعد اس الزام کی شدت میں صرف کمی کی توقع کی جا سکتی تھی اور یہی ہوا۔ چند سوال بہرحال اہم ہیں۔ اوّل یہ کہ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں نون لیگ کا کیا کردار ہو گا۔ اگرچہ اس پارٹی کی پیدائش اور پرورش اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہوئی لیکن اب اس کا اپنا ایک سیاسی تشخص ہے اور یہ معاشرے کے کچھ طبقات کے مفادات کے تحفظ کی ضامن ہے جن میں کاروباری اور تاجر طبقات نمایاں ہیں۔

یہ طبقات خاص طور پر پنجاب کی سول اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نون لیگ کی گورننس جس کو بہت موثر گردانہ جاتا ہے انھی مفادات سے جڑی ہے جیساکہ میگا پراجیکٹس، ذرائع آمد و رفت، ٹیکسوں کا کم یا نہ ہونا اور کاروبار کو آسان ترین بنانے کی کوشش۔ ان تمام معاملات پر نواز شریف اور شہباز شریف کی سوچ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ شہباز شریف کو مؤثر ایڈمنسٹریٹر ماننے والے بھی ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اتنے پر اعتماد نہیں ہیں

پنجاب کی یہ بڑی جماعت روایتی اور قدامت پسند سو چ کی حامل ہے اور بہرحال ایک مضبوط ووٹ بنک رکھتی ہے اور اپنا تعلق نظریہ پاکستان سے بھی جوڑتی ہے، لہذا اس کو ابھی ملکی سیاست میں ایک فعال پارٹی کے طور پر کردار ادا کرنا ہے۔ اس امتیازی حیثیت کے باوجود زمینی حقائق کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پارٹی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہو۔

اس تناظر میں نواز شریف کی صحت کا معاملہ بہت اہم ہے جس کے بارے میں جان بوجھ کر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ ابھی تک خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اتنی بڑی پارٹی کا اتنا بڑا لیڈر جب سروسز ہسپتال لاہور میں بستر علالت پر پڑا تھا تو ہسپتال کے باہر پارٹی کے چند سو دعا گو افراد بھی موجود نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پارٹی میں صرف ووٹر ہیں ورکر نہیں۔

بہرحال شریف خاندان کے لیے تو یقیناً اس وقت میاں نواز شریف کی صحت ہی سب سے زیادہ مقدم ہے۔ سیاسی تجزیے کے طور پر یہ بات یقیناً زیر بحث ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی قیادت کون کرے گا۔ سر دست سب نظریں شہباز شریف کی طرف لگی ہوئی ہیں لیکن ان کو موثر ایڈمنسٹریٹر ماننے والے بھی ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اتنے پر اعتماد نہیں ہیں۔

مریم نواز جو کہ پچھلے دو سالوں میں ایک فعال لیڈر کے طور پر ابھری ہیں اور جنھوں نے ایک موقع پر پارٹی لیڈر شہباز شریف کے چارٹر آف اکانومی کو رد کر کے ان کو سائیڈ لائن کر دیا تھا، فوری طور پر سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں گی اور اپنے والد کے ساتھ وقت گزاریں گی۔ یوں لگ رہا ہے کہ پارٹی کی قیادت کا میچ شہباز شریف اور مریم نواز کے بیچ ٹھہرے گا۔

اگر مریم نوازتجربے کی کمی کو اپنی سیاسی بصیرت سے پورا کر سکیں تو شاید پارٹی انھیں ہی اپنا نیا لیڈر تسلیم کر لے لیکن کیا شہباز شریف انھیں بطور لیڈر قبول کریں گے؟ البتہ ریاست کی طرف سے نون لیگ پر تنگ کیا جانے والا گھیرا ختم ہونے کی کوئی امید ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

تجزیہ نگاروں کی بھی مختلف آراء ہیں. کچھ کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو یہ پارٹی بالکل ختم ہو جائے گی. اور کچھ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان لمبے اختلافات شروع ہونے کے خدشات ہیں. اور کچھ کا کہنا ہے کہ (ن) گروپ بھی دو پارٹیوں میں تقسیم ہو جائے گا.

ندیم عباس بھٹی

اپنا تبصرہ بھیجیں