اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہے، اس بات کا احساس اس وقت زیادہ ہوا جب یورپ میں زندگی کے کئی سال گزارنے کے بعد اللہ کے گھر کی زیارت اور گناہوں کی توبہ کا موقع میسر آیا۔
اللہ کی خاص دین تھی کہ اچانک صرف تین دنوں میں نہ صرف سویڈن سے سعودی عرب کا وزٹ ویزہ لگ گیا بلکہ تین ہفتے کیلئے ریٹرن ٹکٹ بھی بک کر لی گئی، وزٹ ویزہ اس لئے لگوایا تاکہ سعودی عرب میں مکہ مدینہ کے علاوہ باقی شہروں میں بھی جایا جاسکے، اس نیک کام میں جدہ میں مقیم جاوید بھائی کی سپانسر کرنے کی کوششیں قابل ذکر ہیں۔
جدہ پہنچنے پر سب سے پہلے جو عجیب چیز دیکھنے میں آئی وہ امیگریشن عملے کا حسن سلوک تھا۔ پیرس سے جدہ آنے والی فلائیٹ میں گوروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی، جو کاروبار کے سلسلے میں جدہ آئے تھے۔ امیگریشن کاؤنٹر پر بیٹھے دو صاحبان مسافروں کی لمبی لائن سے بےنیاز اپنے موبائل فونز پر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھے۔ گورے بار بار کبھی کلائی کی گھڑی دیکھتے اور کبھی امیگریشن آفیسرز کو دیکھتے لیکن اردگرد کے حالات سے بےپرواہ عربی آفیسرز موبائل فونز پر بدستور مصروف رہے۔ لگ بھگ بیس پچیس منٹ گزرنے کے بعد انہوں نے مسافروں کے پاسپورٹس پر داخلے کی مہریں لگانی شروع کیں تو لوگوں کی جان میں جان آئی۔ ائیرپورٹ کے باہر جاوید بھائی سفید رنگ کی لینڈ کروزر لئے منتظر کھڑے تھے، جہاں سے سلام دعا کے بعد جدہ میں ہی انکے گھر روانہ ہوگئے۔
اگلے دن صبح احرام باندھا، عمرے کی نیت کی دو رکعت نفل پڑھے اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مسجد الحرام کی انڈرگراؤنڈ پارکنگ سے مسجد میں داخل ہوئے تو جاوید صاحب نے پہلے ہی بتا دیا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑھتے ہی جو چیز مانگیں وہ ضرور ملتی ہے، لہذا میں نے اپنی نظر نیچے پاؤں کی طرف رکھی اور چلتا گیا یہاں تک کہ ایک جگہ ہم ٹھہر گئے، نظر اٹھائی تو کالے رنگ میں ملبوس اللہ کا گھر سامنے تھا، جس مقام کی طرف منہ کر کے ساری زندگی نمازیں پڑی تھیں، آج وہ گھر میرے سامنے تھا، خدا کی ہیبت پورے جسم پر طاری ہوچکی تھی، ایک پل کو سانس رک گیا، اگلے پندرہ بیس منٹ ہاتھ ہوا میں تھے، آنکھوں سے آنسوں رواں تھے، اور جتنی دعائیں مانگ سکتا تھا مانگ رہا تھا، جوں جوں دعائیں مانگتا گیا دل سے بوجھ ہلکا ہوتا گیا، ایسے محسوس ہورہا تھا کہ رحمت خداوندی مجھے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے رہی ہے، اور میرے گزشتہ گناہ جسم سے خزاں کے پتوں کی طرح نیچے گر رہے ہیں۔
ایک ہیجانی کیفیت جسم پر طاری تھی، اسی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف شروع کیا، ہر چکر پر ہاتھ میں موجود چھوٹی کتاب سے دعائیں پڑیں، استغفار کیا، ساتویں چکر پر حجر اسود کا بوسہ لینے کا پروگرام بنایا لیکن رش اتنا تھا کہ خدا کی پناہ، زائرین کی ایک لہر چلتی تھی، اور صرف چند خوش نصیب ہی بوسہ لے پاتے تھے، اسی لہر میں بہتے ہوئے خوش قسمتی سے مجھے حجراسود کے نزدیک جانے کا موقع مل ہی گیا، ایک سیکنڈ کے اندر منہ اس تنگ سوراخ کے اندر گیا، ہونٹ ٹچ ہوئے اور اگلے سیکنڈ میں میں لہر کے بہاؤ میں چند میٹر دور دوسری طرف پہنچ چکا تھا۔
پاکستانی اللہ کے گھر آئے اور بوسہ نہ لے، یہ ممکن نہیں، کیونکہ واپس پاکستان جانے پر لوگوں کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ بوسہ لیا کہ نہیں؟؟؟ اللہ کے حضور دو نفل پڑھے، آب زم زم پیا اور صفا مروہ کے چکر پورے کئے، عمرہ ہوچکا تھا، ساتھ موجود مارکیٹ سے دس ریال میں ٹنڈ کروائی، البیک کا برگر کھایا اور واپس جدہ روانہ ہوگئے۔
جدہ پہنچنے پر جاوید بھائی ایک کتابوں کی دوکان میں گئے تاکہ بچوں کیلئے کچھ خرید سکیں، جبکہ میں باہر لینڈ کروزر کی فرنٹ سیٹ پر احرام باندھے بیٹھا تھا۔ اچانک کالے برقعے میں ملبوس سلم سمارٹ خاتون پر نظر پڑی، ہاتھوں میں دستانے، اور منہ پر نقاب، صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں، انہی آنکھوں سے محترمہ نے مجھے اشارہ کیا، سخت پریشانی ہوئی ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کسی اور کو کر رہی ہو، لیکن یہ بجلی مجھ پر ہی گر رہی تھی، ایک نظر اسے دیکھا، ایک نظر اپنے احرام پر دوڑائی، اور استغفراللّٰہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ دیکھا تو خاتون نے پھر وہی حرکت کی، سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ الہی ماجرہ کیا ہے؟؟ ابھی تو گناہوں سے معافیاں مانگ کر رو دھو کر آرہا ہوں اور فوراً ہی شیطانی حملہ ہونے کو ہے، کمبخت شیطان کو بھی یہی موقع نظر آیا تھا۔ دوسری دفعہ نظر نیچے کی تو خاتون تنگ آ کر قریب آ گئی اور ہاتھ سے گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا، اور پھر وہی آنکھوں کا اشارہ۔۔۔۔۔ بچاری شاید سمجھ رہی تھی کہ نئے ماڈل کی بڑی سفید لینڈ کروزر میں بیٹھا شخص موٹی اسامی ہے، اسے کیا پتا تھا، یورپ سے گناہ بخشوانے آنے والا اُدھاری گاڑی میں بیٹھا شش و پنج میں مبتلا ہے کہ ہزاروں یورو خرچ کر کے عمرہ کرنے کے فوراً بعد ماتھے پڑنے والے اس گناہ سے کیسے بچا جائے، آخر کار ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، اپنے احرام کی طرف اشارہ کیا، کانوں کو ہاتھ لگائے تو خاتون کے دل میں رحم آ ہی گیا اور محترمہ کسی اور طرف تشریف لے گئی۔
“سعودی سفر (حصہ اول)” ایک تبصرہ