آپ کے بیٹے یا بیٹی نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کر لیا ہے اور اسکا داخلہ کسی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں نہیں ہوا، اب اسکے پاس بظاہر دو راستے ہیں، اوّل آپ سیلف فنانس پر یا کسی پرائیویٹ کالج یونیورسٹی میں اسے داخلہ لے دیں، دوم آپ کا بیٹا یا بیٹی خود ہی حالات کے رحم وکرم پر قسمت کا لکھا سمجھ کر بی ایس سی یا ایم ایس سی کر لے، پہلی صورت میں یا تو آپ بہت امیر ہیں یا آپ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی بیچ کر ایسا کر رہے ہیں، پاکستان کی بائیس کڑور آبادی کے تناظر میں ایسے لوگوں کا تناسب یقیناً کم ہے، کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی غربت یا سفید پوشی میں زندگی گزار رہی ہے اور انکے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سلیف فنانس یا پرائیویٹ پروفیشنل کالجز میں پڑھا سکیں، اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی بی ایس سی یا ایم ایس سی بھی کر لے تو ملک کے موجودہ حالات میں نوکری ڈھونڈنا اور اچھا مستقبل بنانا بظاہر بہت مشکل کام ہے، بچے پڑھائی کے بعد نوکری کی مشکلات سے بہت جلد تنگ آ جاتے ہیں، ان میں چرچراپن آجاتا ہے، برداشت ختم ہوجاتی ہے، معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے تنگ آ کر شاید کچھ بچے جرائم کی راہ پر بھی چل نکلتے ہیں، زیادہ تر بچے چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈ کر گزارا کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر انکے ذہن میں ملک سے باہر جانے کی تمنا جاگنا شروع کردیتی ہے، اسکے لئے بھی بہت سے پیسے چاہئیں ہوتے ہیں، بچے ایجنٹس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، کئی بچے فراڈ کا شکار ہو کر اپنے والدین کی جمع پونجی بھی ضائع کروا بیٹھتے ہیں۔
پہلی تحریر میں میں لکھ چکا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو صرف کمپیوٹر پڑھنے کی طرف راغب کریں، کیونکہ یورپ میں خاص طور پر کمپیوٹر پروگرامنگ کی بہت ڈیمانڈ ہے اور یہ آگے جا کر بہت بڑھنے والی ہے، کیونکہ یورپ کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہے، جرمنی میں کچھ سالوں بعد جب موجودہ لوگ پینشن پر چلے جائیں گے تو انکا خلا پورا کرنے کیلئے پیچھے انکے پاس نوجوان نسل تھوڑی ہے، لہذا انہیں بہت زیادہ امیگرینٹس کی ضرورت ہے، جرمنی میں پہلے باقی یورپی یونین کے ممالک کی طرح یہی قانون تھا کہ اگر کوئی کمپنی کسی کو جاب دینا چاہتی ہے تو وہ اخبار میں اشتہار دے، پہلے اس بندے کو جرمنی میں ڈھونڈے پھر یورپی یونین کے تمام ممالک میں ڈھونڈے اور پھر ایشیاء یا افریقہ سے لوگوں کو نوکری پر بلائے، لیکن جرمنی نے اب اپنے قوانین تبدیل کرتے ہوئے ملک میں موجود کمپنیوں کو کہا ہے کہ وہ اپنی پسند کا بندہ ڈائریکٹ جس مرضی ملک سے بلا لیں اسے ورک ویزہ دے دیا جائے گا۔
اگر آپکے بیٹے یا بیٹی کے ایف ایس سی میں نمبر کم آئے ہیں تو آپ انہیں سیلف فنانس یا مہنگے پروفیشنل پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ دلوانے کی بجائے جرمنی بھیجنے کی تیاری شروع کریں۔ پاکستانی بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں گوتھے انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جرمن زبان سکھانے والے ادارے موجود ہیں، یہاں سے آپ اپنے بچوں کو جرمن لیول اے ون، اے ٹو اور بی ون لیول پاس کروائیں، اگر آپ کا بچہ ذہین ہے تو وہ پرائیویٹ تیاری کر کے ڈائریکٹ بی ون کا امتحان بھی پاس کرسکتا ہے، ایسی صورت میں اسے گوگل ٹرانسلیٹر اور مارکیٹ میں موجود جرمن آڈیو ویڈیو مواد سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا، پرائیویٹ ٹیوشن کیلئے جرمن سکھانے والے ٹیوٹر بھی مل جاتے ہیں، سب سے آسان طریقہ اپنے سمارٹ فون میں گوگل ٹرانسلیٹر کی ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور ایک طرف انگلش اور دوسری طرف جرمن منتخب کریں، ہیڈ فون لگائیں اور جو لفظ آپکے ذہن میں آئے اسے انگلش والے خانے میں لکھیں اسکا جرمن ترجمہ فوراً ہو جائے گا اور اس جرمن لفظ کے نیچے سپیکر بھی بنا ہوگا اسے دبانے سے آپ اس لفظ کو ادا کرنے کی آواز بھی سن سکتے ہیں۔
پاکستان میں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں گوتھےانسٹیٹیوٹ کےایڈریسزمندرجہ ذیل ہیں۔
Brunton Rd 2, Civil Lines Karachi, Karachi City, Sindh, Pakistan
155-A, Scotch Corner, Street #3، Upper Mall Scheme, Lahore, Punjab 54000, Pakistan
Street 49، G-6/1 G 6/4 G-6, Islamabad, Islamabad Capital Territory 44000, Pakistan
جب آپکا بیٹا یا بیٹی پاکستان سے جرمن لیول بی ون پاس کر لے گا تو اسے جرمنی کا ویزہ مل جائے گا اور وہاں اسے تقریباً ایک سال مزید پڑھنا پڑھے گا تاکہ اسکا لیول جرمن یونیورسٹیوں کے برابر آ جائے، اسکے بعد اسے جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جائے گا جہاں وہ میڈیکل اور انجینرنگ سمیت اپنی مرضی کے مضامین میں مفت تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
(جاری ہے۔۔)