حافظ صاحب گزشتہ سات آٹھ سال سے سویڈش دارلحکومت سٹاک ہوم سے تین سو کلومیٹر دور سکارا ریجن میں رہ رہے ہیں اور ایک مشہور سویڈش آٹو موبائل کمپنی میں آئی ٹی کنسلٹنٹ کے طور پر جاب کرتے ہیں۔ حافظ صاحب فیملی کے ساتھ سٹاک ہوم آتے جاتے رہتے ہیں اور دو دفعہ ہمارے گھر کھانے پر بھی تشریف لاچکے ہیں۔
سویڈن رقبے کے لحاظ سے یورپی یونین میں فرانس، سپین کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے لیکن یہاں پاکستانی صرف پندرہ سے بیس ہزار ہی رہتے ہیں۔ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور دیار غیر میں رہتے پاکستانیوں کے سگے رشتے دار تو عام طور پر اپنے ملک میں ہی رہ جاتے ہیں لیکن یہاں ہم خیال خاندان آپس میں بہن بھائیوں سے بھی بڑھ کر رشتے استوار کر لیتے ہیں، ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں، کھانوں پر مدحو ہوتے ہیں، بچے اپنے ہم عمر بچوں کیساتھ کھیلنے اور وقت گزارنے کیلئے بےتاب نظر آتے ہیں، اور یوں آپس میں سگے رشتہ دار نہ ہوتے ہوئے بھی سب ایک بے نام رشتہ میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں ۔
حافظ صاحب ہر دفعہ سٹاک ہوم وزٹ پر اصرار کرتے تھے کہ آپ ہمارے پاس ضرور تشریف لائیں اور ہم بھی ہر دفعہ ان سے آنے کا وعدہ کر لیتے تھے، لیکن اس دفعہ جب انہوں نے اپنا بڑا گھر خریدا تو ہم نے بھی بچوں کے بےحد اصرار پر حمیر بھائی کے ساتھ وہاں جانے کی حامی بھر ہی لی۔ حمیر بھائی سٹاک ہوم ہی میں میرے ساتھ آئی ٹی کی جاب کرتے ہیں، اور حافظ صاحب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ ہم دونوں نے جمعہ کی شام آفس کے بعد اپنی اپنی گاڑیوں پر فیملیز سمیت سکارا ریجن کیلئے رخت سفر باندھ لیا، اور بارش کے باوجود چار گھنٹوں میں تین سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے رات ایک بجے حافظ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔
اگلے دن ناشتہ کے بعد قریبی علاقے “خو کمون” میں سمندر کنارے باربی کیو کا پروگرام بنایا گیا، وقفے وقفے سے ہوتی بارش اور شدید سردی کے باوجود ہم لوگ ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع اس وسیع وعریض سمندر کے کنارے پہنچے، جہاں ایک طرف درجنوں چھوٹی بڑی کشتیاں لنگرانداز تھی، تو دوسری طرف تیز ہوا کے ساتھ تھپیڑے کھاتی سمندر کی لہریں ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ لگ بھگ چار پانچ گھنٹے اس خوبصورت مقام پر باربی کیو کرتے، کھانا کھاتے اور بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزارے گئے اور شام گھر واپسی پر حافظ صاحب نے ایک نئی بات بتائی کہ یہاں قریب ہی ایک گاؤں میں ایک بہت بڑا ڈیری فارم واقعہ ہے جہاں سے ہم گائے کا تازہ دودھ لینے جائیں گے، یہ بات جہاں بچوں کیلئے دلچسپ تھی، وہاں ہمارے لئے بھی حیرانی کا باعث تھی، کیونکہ سویڈن میں دودھ ہمیشہ مارکیٹ سے ڈبے والا ہی ملتا ہے اور کھلے دودھ کا یہاں کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
حافظ صاحب نے دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک کچی سڑک پر اتار لی اور ہم قطار اندر قطار گھنے درختوں کے جرمٹ سے ہوتے ہوئے ایک بڑی سی ویران عمارت کے پاس پہنچ گئے، یہاں کوئی محافظ یا ملازم وغیرہ موجود نہیں تھا، ایک لوہے کا بھاری دروازہ کھولا تو اندر ایک بہت بڑا کنٹینر رکھا ہوا نظر آیا، جس میں ہزاروں لیٹر تازہ دودھ موجود تھا۔ ساتھ ایک دروازہ تھا، جسے کھولنے پر ایک کوریڈور نظر آیا جسکے دوسری جانب کھڑکی سے درجنوں گائیں کھڑی نظر آرہی تھیں۔ حیرت کی بات تھی کہ اس طرف بھی کوئی ملازم یا ملازمہ موجود نہیں تھے۔ درجنوں گایوں کا آٹومیٹک مشینوں کی مدد سے دودھ دھویا جاتا ہے اور پائپس کی مدد سے اس بڑے کنٹینر میں ذخیرہ کر لیا جاتا ہے، جہاں سے دن میں دو دفعہ ایک بڑا ٹرک ہزاروں لیٹر دودھ لے کر ملک فیکٹری کی طرف روانہ ہوتا ہے۔
حافظ صاحب نے کنٹینر کے ایک سرے پر موجود بڑے سے پائپ سے دس لیٹر کی ایک بالٹی تازہ دودھ سے بھری اور چند کرنسی نوٹ ساتھ پڑے ایک کھلے ڈبے میں ڈال دئیے اور دروازہ بند کر کے باہر گاڑی میں آ گئے۔ یہ مناظر ہمارے لئے حیرت سے کم نہ تھے، پوچھنے پر حافظ صاحب نے بتایا کہ یہاں کام کرنے والے صاحب تھوڑے فاصلے پر گھر میں رہتے ہیں اور انہوں نے انہیں اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ یہاں سے اپنے گھر کے لئے حسب ضرورت دودھ لے سکتے ہیں اور اگر چاہئیں تو جتنے مرضی پیسے ساتھ موجود کھلے باکس میں رکھ دیں، وہ آ کر لے لے گا۔
گورے کی ایمانداری کے قائل تو پہلے ہی سے تھے، لیکن اس واقعے پر جہاں اپنی نظر میں گورے کا مقام مزید بلند ہوا وہاں چشم وزدن میں دماغ کے کسی کونے میں یہ خیال بھی وارد ہوا کہ اگر یہ کنٹینر کھلے دروازوں پاکستان میں ہوتا، تو۔۔۔۔۔۔۔ اسکا جواب شاید قارئین بہتر دے سکتے ہیں?۔