318

ہو رہی ہے گر تاخیر تو یقینن کچھ باعث تاخیر بھی ہوگا۔

ہماری محنت اور کوشش کے باوجود بہترین معاشرہ تعمیر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بغیر ترتیب کے تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ کسی بھی تعمیر کیلئے ترتیب خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء اکرام کے کام کی ترتیب کیا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انبیاء اکرام کا سب سے پہلا کام (نمبر 1) دعوت و تبلیغ ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو دعوت دیتے تھے معاشرے میں موجود دوست و رشتہ دار، امیر و غریب، کمزور و طاقتور، پڑھے لکھے و ان پڑھ، چھوٹے و بڑے، مرد و عورت، تاجر و زمیندار غرض ہر ہر شخص و طبقہ کو تبلیغ کرتے تھے۔ پیغام الہی کو ہر خاص و عام تک پہنچایا جاتا تھا۔ ایک نظریہ پیش کیا جاتا تھا اس نظریہ کہ مطابق زندگی بسر کرنے والوں کو پر امن اور خوشحال زندگی کی نوید سنائی جاتی تھی۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے ، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں ، پوری بصیرت پر ( قائم ) ہوں ، میں ( بھی ) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی ، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ القرآن ( 12/108)

انبیاء کرام کا دوسرا کام (نمبر 2) جماعت کی تشکیل ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے کام (دعوت و تبلیغ) کے نتیجہ میں کچھ لوگ مل جاتے تھے جو نبی کے دیئے گئے پیغام کو اپنے دل کی رضامندی سے قبول کر لیتے تھے۔ انکی تربیت کی جاتی تھی ان کے مابین بھائی چارہ کی فضاء قائم کی جاتی ہے۔ ان سب کا زندگی کا نصب العین ایک ہوجاتا ہے سب کا مقصود و منتہی ایک ہی ہوتا ہے یہ لوگ کہیں بستے ہوں انکا رنگ، نسل، زبان اور وطن کوئی بھی ہو اگر یہ لوگ صفات الہی کو اپنے سامنے بطور معیار رکھ لیں اور اس کے مطابق اپنی ذات کی نشونما کیلئے کوشاں ہوں تو یہ ایک جماعت کہ رکن اور ایک قوم کے افراد ہونگے۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو ۔ القرآن (9/119)

انبیاء کرام کا تیسرا کام (نمبر 3) فلاحی ریاست کا قیام ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( تیسرے کام کیلئے اسی مقام کو چنا جاتا ہے جس مقام سے سلسلہ شروع کیا تھا یا پھر ہجرت کرنی پڑتی ہے جہاں ماحول سازگار ہو کہ لڑائی سے حتی الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ ) دوسرے کام کے نتیجہ میں جو اہل حق کی جماعت تشکیل پائی یہ مومنین کی جماعت کے تمام افراد کو مخصوص مقام پر جمع کیا جاتا ہے جہاں پر وہ تمام ایک جگہ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک مخصوص مقام پر مخصوص چار دیواری کہ اندر رہتے ہوئے نبی کے دیئے گئے نظریہ کو عملی جامع پہنایا جاتا ہے نبی کے بتائے ہوئے پیغام حق پر عمل کیا جاتا ہے۔ زندگی کہ ہر ہر شعبے میں مساوات کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ ایک سوسائٹی تیار ہوجاتی ہے جسمیں احترام آدمیت ہے امن و امان ہے انصاف ہے کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کا استحصال نہیں کرسکتا ہر شخص برابری کی سطح پر زندگی بسر کرتا ہے۔

نبی کے بیان کیئے گئے نظریہ زندگی پر عمل کے نتیجہ میں انہیں خوشگوار زندگی میسر ہو جاتی ہے زندگی بسر کرنے کیلئے ایک بہترین ماحول بن جاتا ہے اور یہ ہی سوسائٹی ساری دنیا کیلئے ایک رول ماڈل بن جاتی ہے۔ اس سوسائٹی کے اردگرد بسنے والے دوسرے لوگ پر امن زندگی کی خواہش میں اس سوسائٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور اسطرح یہ چھوٹی سوسائٹی مزید لوگوں کہ شامل ہونے سے آہست آہستہ ریاست کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ( یہ اہلِ حق ) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں ( تو ) وہ نماز ( کا نظام ) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی ( کا انتظام ) کریں اور ( پورے معاشرے میں نیکی اور ) بھلائی کا حکم کریں اور ( لوگوں کو ) برائی سے روک دیں ، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ۔القرآن (22/41) یہاں اس مقام پر نبی نے اپنا کام مکمل کر لیا ایک نبی کی تمام تر تعلیمات کا مقصود و منتہی یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ تمام انسان خالق کی توحید کو اپنی زندگی کا عملی شعار بنا کر ایک عالمگیربرادری بن جائیں اور اسطرح وہ تمام اختلافات مٹ جائیں جنکی وجہ سے آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ نبی کے ذمہ خالق نے جو ڈیوٹی لگائی تھی نبی نے اس کو احسن طریقے سے پورا کیا۔ نبی کی محنت سے اس دنیا میں ایک ایسا مقام وجود میں آگیا جو وحی الہی کے بیان کردہ اصول و قوانین کے عین مطابق ہے۔

اس کے بعد اب مزید کسی چیز کی گنجائش باقی نہیں رہی’ نہ ہی کوئی بحث و مباحثہ، مناظرے، مکالمہ، اعتراض، تنقید کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔ نظریہ کو بیان کرتے وقت جو دعوی کیا جا رہا تھا “پر امن زندگی” کا “خوشحال زندگی” کا نظریہ پر عمل کے نتیجہ میں وہ دعوی درست ہوگیا۔ اب نا ہی کسی قسم کی کوئی دلیل پیش کی جاتی ہے نا ہی ثبوتوں اور نا ہی گواہوں کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اب نبی کے پیش کیئے گئے نظریہ زندگی کو کسی کسوٹی پر پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اب دنیا والوں کیلئے نبی کا پیغام محسوس طریقے پر سامنے آگیا لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں کہ جو دعوی کیا جا رہا تھا وہ سچا ثابت ہوا۔ یہاں اس مقام پر حقیقت کہ بلکل واضح ہو جانے پر سچائی کو آنکھوں سے دیکھ لینے اور اپنی ذات سے محسوس کر لینے پر لوگ نبی کے پیش کیئے گئے نظریہ زندگی کو اپناتے چلے جاتے ہیں لوگ نبی کے پیغام پر لبیک کہتے چلے جاتے ہیں نبی اور انکی جماعت کی مسلسل جدوجہد سے جو مقام، سوسائٹی یا ریاست معرض وجود میں آیا کرہ ارض کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا بقیہ ساری دنیا والوں کیلئے مرکز نگاہ بن جاتا ہے لوگ جوق در جوق اس مقام کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں اور اسکا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔

بات کیا کی جا رہی ہے۔۔۔؟ مقصد کیا ہے بیان کرنے کا۔۔۔؟ یہاں یہ بات عرض کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہماری مسلسل جدوجہد کے باوجود خاطر خواہ کامیابی حاصل نا ہونے کی کیا وجہ ہے۔ وہ کون سی وجوہات ہیں جنکی بنا پر ہم منزل کو حاصل نہیں کر پا رہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو پر امن معاشرہ نہیں بنا سکے۔ ہم حق کہ علمبردار ہونے کہ باوجود لوگوں کو خوشحال زندگی فراہم نہیں کر سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ میں بہتری کے بجائے بگاڑ جنم لے رہا ہے لوگوں کے مسائل حل ہونے کہ بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اتنا زیادہ وقت گزر جانے کہ باوجود کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکی الٹا ہمارے معاشرہ میں نت نئی مشکلات جنم لے رہی ہیں۔ مسلسل محنت و کوشش کے باوجود ہم اپنے معاشرے سے ظلم و استحصال کا خاتمہ نہیں کر پائے۔ وقت کہ ساتھ ساتھ بجائے کمی کے اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بقول شاعر کہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی ہم درست نظریہ پر کاربند ہیں ہم پیغام حق کو ہی دوسرے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں لیکن اتنا زیادہ بیان کرنے کے باوجود’ اتنے زیادہ بحثوں و مکالموں کے باوجود’ سوال و جواب کے باوجود’ اعتراضات و تنقید کے باوجود’ بے شمار مضامین و کتب لکھنے کے باوجود’ تمام تر جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کے باوجود مثبت نتیجہ حاصل نہیں کر پائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نے معاشرہ کی اصلاح کا جو طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ درست طریقہ اپنانا بڑا ہی اہم ہے کہ درست طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہم بہت ہی کم وقت میں بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے طریقہ سے معاشرہ کی مثبت تعمیر کیلئے سعی و کوشش کر رہا ہے مگر ہمیں معاشرہ کی تعمیر کیلئے ترتیب کو درست کرنا ہوگا کہ ترتیب کے درست ہونے سے ہی تعمیر ممکن ہے۔ اوپر بیان کیئے گئے طریقہ و ترتیب کے مطابق چلنے سے ہی ہم اپنے معاشرہ میں جلد اور دیرپا مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ہمیں مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ہمیں مومنین کی جماعت تشکیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں بھی اسی زمین کے ایک ٹکڑے کی ضرورت ہے جو دنیا والوں کیلئے رول ماڈل بنے کے ساری دنیا رول ماڈل کی تلاش میں ہے۔ مختصرا۔۔۔۔۔ ایک جملہ میں گزارش یہ ہے کہ ” نبی کے دیئے گئے پیغام کو نبی کے کیئے گئے طریقہ پر کرنے سے ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں