333

پاکستان کی کار مکینک لڑکی

پاکستان کے ایک قدامت پسند شہر ملتان میں ایک کار ڈیلر شپ پر پیچ کس اور رینچ اٹھائے کاروں کی مرمت کرنے والی ایک خاتون ہر دیکھنے والے کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے، کیونکہ اس ملک کے معاشرے میں یہ ایک انہونی بات ہے۔

چوبیس سالہ کار مکینک خاتون کا نام عظمٰی نواز ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب لوگ مجھے گاڑیوں کی مرمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی جانب سے دو طرح کا ردعمل ملتا ہے، دھچکہ اور حیرانی اور پھر اس کے بعد عزت اور احترام۔

ملتان کے قریب واقع ایک قصبے دنیا پور کی عظمٰی کو ایک موٹر مکینک بننے کے لیے بڑے مشکل اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہ ان کا شوق بھی تھا اور عزم بھی جس کے لیے انہوں نے مکینیکل انجنیرنگ میں ڈگری حاصل کی اور پھر ملتان میں گاڑیوں کی مرمت کے ایک ورکشاپ میں ملازمت شروع کی۔

وہ کہتی ہیں کہ انجنیرنگ کی ڈگری کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا میرے خاندان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ لیکن انہوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ اب جب وہ مجھے ورکشاپ میں کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو حیران بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی۔​

عظمٰی پنجاب کے ایک چھوٹے اور پس ماندہ قصبے دنیا پور میں پلی بڑھیں۔ انہوں نے اپنی ڈگری مکمل کرنے کے لیے زیادہ تر سکالرشپس پر انحصار کیا اور پیسے بچانے کے لیے انہیں اکثر فاقہ کرنا پڑتا تھا۔

خبررساں ادارے اے پی ایف سے گفتگو کرتے ہوئے عظمٰی نے بڑے فخر سے کہا کہ کوئی بھی مشکل ان کے جذبے اور ارادے کو توڑ نہیں سکی۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے، اور جہاں عورتیں اپنے حقوق کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہی ہیں، اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں لڑکیوں کی جلد شادی کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں یہ نصحیت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے گھر کی خدمت کے لیے وقف کر دیں، وہاں ایک لڑکی کا مکینیکل انجنیرنگ کی ڈگری حاصل کر کے کار مکینک بننا ایک ایسی مثال ہے جو کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

عظمٰی کو ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملتان میں ٹویوٹا کی ڈیلر شپ پر ملازمت مل گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے کام سے مطمئن ہوں۔

انہیں ڈیلر شپ پر کام کرتے ہوئے ابھی ایک ہی سال ہوا ہے، لیکن وہ ایک تجربہ کار مکینک بن چکی ہیں۔ گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے سے لے کر، انجن کا معائنہ کرنے، خرابی کی نشاندہی اور اسے درست کرنے تک کے تمام کام وہ خود کرتی ہیں اور ہر قسم کے اوزار اور آلات استعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو ششدر کر دیتا ہے۔

گاڑی کو مرمت کے لیے لانے والے ایک صارف ارشد احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں ایک لڑکی کو بھاری ٹائر اٹھاتے، انہیں فکس کرتے اور گاڑی کی مرمت کرتے دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔

عظمٰی کے ساتھ ورکشاپ میں کام کرنے والے دوسرے کارکن بھی ان کی مہارت اور کارکردگی سے بہت متاثر ہیں۔ ان کے ایک ساتھی عطااللہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں جو بھی کام دیتے ہیں، وہ ایک مرد مکینک کی طرح بڑی محنت اور جانفشانی سے کر دیتی ہیں۔

عظمیٰ نے اپنے خاندان کے افراد سمیت لوگوں کے ذہنوں سے یہ شکوک و شبہات دور کر دیئے ہیں کہ گاڑیوں کی مرمت جیسا سخت کام صرف مردوں کے کرنے کا ہے۔

اس کے والد محمد نواز کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ورکشاپس میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ لیکن یہ عظمیٰ کی خواہش تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کام بہتر طریقے سے کرتی ہے، گاڑیوں کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ میں بھی بہت خوش ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں