روایات میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں حضرت علیؓ ایک کافر کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد اسکو نیچے گراتے ہیں اور اسکے سینے پر چڑھ کر اس کافر کا سر قلم کرنے ہی لگتے ہیں کہ وہ عین موقع پر حضرت علیؓ کے چہرہ مبارک پر تھوک پھینک دیتا ہے، حضرت علیؓ اپنا چہرہ مبارک صاف کرتے ہیں، اور اس کافر کو چھوڑ دیتے ہیں، کافر کو بہت تعجب ہوتا ہے، اور وہ حضرت علیؓ سے دریافت کرتا ہے کہ آپ نے مجھے قتل کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی کیوں چھوڑ کر معاف کردیا؟؟ حضرت علیؓ جواب دیتے ہیں کہ میرا تجھے قتل کرنا صرف اللہ عزوجل کے لئیے تھا، لیکن جب تونے مجھ پر تھوکا تو مجھے غصہ آ گیا اور اگر میں تجھے قتل کرتا تو اسکا سبب میرا ذاتی غصہ ہوجانا تھا، اس لیئے میں نے تجھے معاف کر دیا۔
یہ وہ حضرات تھے جنکے حسن اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا اور آج سعودی عرب سمیت آدھی دنیا کے ممالک میں مسلمان اکثریت سے ہیں، لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے اپنے اسلاف کا وہ حسن سلوک اور رواداری چھوڑ دی اور اپنے مخالفین کو قتل کرنا شروع کردیا، جس سے مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوگیا۔ تیریں صدی کے اختتام پر ترکش رہنما عثمان اول نے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا اور فتوحات کرتے کرتے جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے علاقوں پر مشتمل ایک بہت بڑے خطے میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ دی، جو چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک قائم ودائم رہی اور کچھ غدار اور عیاش مسلمانوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسکا خاتمہ ہوا۔
سلطنت عثمانیہ کی وسیع سلطنت میں سعودی عرب کا موجودہ علاقہ بھی شامل تھا۔ سعودی عرب کے موجودہ حکمران خاندان آلِ سعود کا تعلق سترویں صدی میں عرب کے اس صحرائی علاقے پر حکومت کرنے والے شیخ سعود بن محمد سے ہے۔ شیخ سعود بن محمد کا بیٹا محمد 1744 میں ایک شعلہ بیان مذہبی رہنما محمد بن عبدالوہاب کا مرید بن گیا، اور بعد میں اسی عبدالوہاب نے اسلام کا ایک سخت گیر تصور پیش کیا اور ان ہی کے نام پر ایک نئے فرقہ کا وجود عمل میں آیا، جسے وہابی فرقہ کہتے ہیں۔ محمد کے جانشیوں نے 1818 میں عثمانیوں کے ہاتھوں شکست کھائی لیکن چھ سال بعد آلِ سعود نے ریاض پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہ چھوٹی سی ریاست 1891 تک قائم رہی لیکن شمار نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والے الرشد نے اس ریاست کو ختم کر دیا۔ الرشد سے شکست کھانے کے بعد اس وقت کے حکمران شہزادہ عبدالرحمان السعود نے کویت میں پناہ لی جس کے بعد وہ انگریزوں کی مدد سے 11 سال بعد ریاض پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
عبدالعزیز بن السعود نے 1902 میں الرشد قبیلے کو ریاض سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا اور سعودی عرب پر اپنی دسترس مضبوط کرنے میں مصروف ہو گئے۔ عبدالعزیز نے کئی قبائلی جنگوں کے بعد عرب قبائل کو متحد کرنے کا کام شروع کر دیا۔ انھوں نے 1913 میں خلیج کے ساحلی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا اور اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ سے ہاشمی قبیلے کے شریف الحسینی کو بے دخل کر دیا۔ 1932 میں انھوں نے سعودی عرب کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ 1948 میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے پر یہ وہابی فرقے کی ریاست دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل ہو گئی۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سعودی بادشاہ اور حکمران اشرافیہ ہر کام اللہ کیلئے کرتے اور ان لوگوں کو بڑا دل کرتے ہوئے معاف کردیتے جو انکے مخالفین ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا، اور سعودی شاہی خاندان غرور اور تکبر میں اتنا غرق ہوگیا کہ انہیں اپنے خلاف معمولی تنقید بھی زہر لگنے لگی اور انہوں نے تنقید کرنے والے اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا، جسکی تازہ مثال جمال خشوگی کے اندوہناک قتل کی ہے۔
جمال خشوگی سعودی شہری تھا اور سابقہ سعودی بادشاہ کا مشیر تھا، لیکن نئے بادشاہ کے بننے اور خاص طور پر قواعد و ضوابط سے ہٹ کر اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے پر اس نے سعودی بادشاہ سلمان اور اسکے بیٹے محمد بن سلمان کے خلاف لکھنا شروع کردیا، اس تنقید میں اس وقت تیزی آئی جب شہزادہ محمد بن سلمان نے یمن پر حملہ کیا اور معصوم بچوں اور عورتوں کو مارنا شروع کیا۔
جب شہزادے نے سعودی عرب میں اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو جمال سعودی عرب سے بھاگ کر امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے خودساختہ جلاوطنی شروع کر دی اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم نگاری شروع کردی۔ جمال اپنی سعودی بیوی کو طلاق دے کر ایک ترکش خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کئی دفعہ سعودی حکومت سے ڈاک کے ذریعے طلاق نامہ کے اصل کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ انہیں کہا گیا کہ وہ یا سعودی عرب آئیں یا استنبول میں سعودی سفارت خانے میں آ کر کاغذات پر دستخط کریں تو ہی انکی طلاق منظور ہوگی۔
جمال کے سفارت خانے میں جانے کے تین گھنٹے پہلے ہی سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کی پندرہ سفاک قاتل ٹیم سفارت خانہ میں پہنچ چکی تھی، اور انکا انتظار کر رہی تھی, یہ ٹیم سعودی عرب سے نجی طیارے پر استنبول تین دنوں کیلئے آئی تھی۔ اس ٹیم میں ڈاکٹر طوبیگی فرانزک کرنے کے ماہر بھی شامل تھے، جنھوں نے سکاٹ لینڈ سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور خود کو نہ صرف پروفیسر کے طور پر متعارف کرواتے ہیں بلکہ انہوں نے ٹیوٹر خود کو سعودی سائنٹیفک کونسل کا سربراہ بھی لکھا ہوا ہے۔
یہ سفاک قاتل ٹیم چند گھنٹوں میں ہی جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اور انہیں غائب کر کے اسی روز رات کو واپس سعودی چلی گئی تھی۔ ترک پولیس اب تک دو بار استنبول کے سعودی سفارت خانے اور ایک بار سفیر کی رہائش گاہ کی تفصیلی تلاشی لے چکی ہے، اور تفتیشی افسران نے سعودی سفیر کے ڈرائیور، سفارت خانے کے تیکنیکی عملے، اکاؤنٹنٹ اور ٹیلی فون آپریٹرز سے پوچھ گچھ کی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے خشوگی کی ہلاکت کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شروع میں ہی سعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں، لیکن بعد میں سعودی عرب کی جوابی دھمکیوں پر ڈھیلے پڑ گئے تھے، کیونکہ سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اربوں ڈالرز امریکہ کو سالانہ اسلحہ خریدنے کی مد میں دیتا ہے اور وہ یہ پیسے روس یا چین کو دے کر اسلحہ خرید لے گا، ایسی دھمکی سن کر ٹرمپ کی ہوا نکل گئی اور اس نے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کو رواں ہفتے سعودی عرب اور ترکی کا ہنگامی دورہ کرنے کیلئے بھیج دیا، تاکہ معاملے کو دبا دیا جاسکے۔
دوسری طرف پہلے تو سعودی حکام ان تمام الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور یہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ جمال خشوگی سفارت خانے میں اپنا کام کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے تھے، لیکن ہفتے کے روز سے دنیا کے پریشر کی وجہ سے سعودی سرکاری ٹی وی نے یہ خبر دینی شروع کر دی ہے کہ جمال سفارت خانے میں آئے تھے، لیکن وہاں موجود لوگوں سے لڑتے ہوئے قتل ہو گئے ہیں، لیکن ابھی تک خشوگی کی لاش برآمد نہیں ہوسکی ہے اور ترکش پولیس تحقیقات کر رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد تمام حقائق دنیا کے سامنے آجائیں گے۔