واشنگٹن — سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کو مقتول صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کے آپریشن کا پیشگی طور پر علم تھا۔
اُنہوں نے آج اتوار کے روز امریکی ٹیلی ویژن فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں ملوث سعودی اہلکاروں نے اپنے فرائض اور اختیارات سے تجاوز کیا اور اُنہوں نے خشوگی کو ہلاک کر کے سنگین غلطی کی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی خفیہ ایجنسی کے سینئر اہلکاروں کو بھی اس آپریشن کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ سعودی عرب نے 18 اہلکاروں کو اس واقعے کے نتیجے میں حراست میں لیا ہے جبکہ پانچ سینئر اہلکاروں کو برخواست کر دیا ہے۔
اُدھر اگرچہ امریکی صدر نے سعودی حکومت کی وضاحت کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں رپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کانگریس نے اتوار کے روز اس الزام کو دہرایا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جمال خشوگی کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں ۔
ٹینیسی سے رپبلکن سنیٹر باب کورکر نے کہا ہے کہ اگر شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی خشوگی کو قتل کروایا ہے تو اُنہوں نے اپنی حد پار کر دی ہے اور اس اقدام کی سزا اورقیمت چکانا ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے رہے ہیں۔ تاہم اُن کا خیال ہے کہ یہ قتل اُنہوں نے ہی کروایا ہے۔
باب کورکر امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ ہیں اور وہ اُن چار سینیٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے خشوگی کے قتل کے سلسلے میں 33 سالہ سعودی ولی عہد کو ذمہ دار خیال کیا ہے۔ بقیہ تین سینیٹرز میں سے کینٹکی سے رپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے بھی کہا ہے کہ اُنہیں اس بات کا یقین ہے کہ سعودی ولی عہد اس قتل میں ملوث ہیں۔
ڈیوکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ڈک ڈربن نے بھی کہا ہے کہ اس قتل کے اشارے سعودی ولی عہد کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترکی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس ایک ایسی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمال خشوگی کو سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کر کے اُن کی لاش کے ٹکڑے کر دئے گئے۔
سعودی ولی عہد اور بادشاہ دونوں نے ابتدائی طور پر سعودی قیادت کے ناقدین میں شمار کئے جانے والے معروف صحافی خشوگی کے قتل سے مکمل لا علمی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم بعد میں سعودی حکام نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ خشوگی قونصل خانے میں ہونے والے جھگڑے اور ہاتھاپائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم امریکی کانگریس کے متعدد اراکین نے سعودی وضاحت پر یقین کرنے کے بجائے سعودی ولی عہد کی قیادت کے بارے میں سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد پہلے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات اختیار کرتے رہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں گزشتہ برس سعودی شاہی خاندان کے متعدد ارکان اور دیگر نمایاں شخصیات کو بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے حراست میں لئے جانے کے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اقدام ولی عہد کی طرف سے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کیلئے تھا۔
نارتھ کیرولائنا سے رپبلکن سینیٹر ٹام ٹیلس نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ اگر آزادانہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سعودی ولی شہزادہ محمد بن سلمان اس قتل میں کسی بھی اعتبار سے ملوث تھے تو پھر امریکہ کیلئے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
سعودی وزیر خارجہ نے آج اتوار کے روز کہا ہے کہ اُنہیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ خشوگی کی لاش کہاں ہے اور اُنہوں نے وہ آڈیو ریکارڈنگ بھی نہیں سنی ہے جس کا دعویٰ ترکی کے حکام کرتے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے فوراً پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کی حکومت جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقات کی تفصیلات جلد منظر عام پر لائے گی۔ تجزیہ کار اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان تفصیلات کے سامنے آنے سے خشوگی کی قتل کے سلسلے میں سعودی حکام کے مؤقف کی مکمل طور پر نفی ہو سکتی ہے۔