میاواکی تیزی سے درخت لگانے کا وہ طریقہ ہے جسے جاپان کے ایک ماہر نباتات اکیرا میواکی نے 60 سال کی ریسرچ کے بعد وضع کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی کے ایک ماہر نباتات رفیع الحق نے اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ میاواکی درخت لگانے کا وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے کسی بھی خطے میں ان درختوں کے ساتھ تیزی سے جنگل اگایا جا سکتا ہے، جو وہاں لاکھوں سال پہلے اگا کرتے تھے۔
کراچی میں میواکی طریقے سے درخت لگانے کا تجربہ کرنے والی ایک تنظیم اربن فاریسٹ کے بانی شہزاد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بھارت میں مقیم میاواکی کے ایک ماہر کی مدد سے کراچی میں یہ طریقہ آزمانا شروع کیا ہے جس کا مقصد کراچی کی آب و ہوا کو بہتر بنانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ انہوں نے کراچی کے ایک پارک کی پانچ سال کے لیے سرپرستی حاصل کی اور اس کے 500 مربع فٹ کے ٹکڑے پر جنوری 2016 میں جو پودے لگائے تھے ان میں سے کچھ اس وقت بیس بیس فٹ کے اور کچھ 25 فٹ بلند ہو چکے ہیں۔
میواکی طریقے سے درخت لگانے پر گفتگو کرتے ہوئے شہزاد قریشی نے کہا کہ اس کے ذریعے چھوٹی اور کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علاقے کے آبائی پودوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے جن میں پھل دار، پھول دار،سایہ دار، جھاڑی درخت ،گویا ہر قسم کے پودے شامل ہوتے ہیں۔ جہاں جنگل اگانا ہوتا ہے وہاں زمین پر کوئی کیمیکل یا کیمیائی کھاد نہیں ڈالی جاتی بلکہ صرف علاقائی کھاد ڈالی جاتی ہے اور پھر مقامی پودوں کو چار تہوں میں جنگل کی ترتیب سے لگا دیا جاتا ہے۔ انہیں صرف تین سال پانی دیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ خود بخود بڑھنے لگتے ہیں اور ساٹھ ستر فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف تین سال میں وہاں ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جہاں پرندے، ہر قسم کے حشرات، تتلیاں، چڑیاں، شہد کی مکھیاں، گرگٹ وغیرہ آنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے جنگل کا ایک پورا ماڈل تیار ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میاواکی طریقے سے لگائے گئے یہ درخت مقابلتاً دس گنا زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور مقابلتاً تیس گنا زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ تیس گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور ہوا میں موجود الرجی پیدا کرنے والے اجزا کو تیس گنا زیادہ جذب کرتے ہیں اور یوں اس علاقے کی ہوا کو صاف کر کے ایک صحت مند فضا پیدا کر دیتے ہیں۔
کراچی میں میاواکی طریقے سے چھوٹا مصنوعی جنگل لگانے کا تجربہ کرنے والے اربن فاریسٹ کے فاؤنڈر شہزاد قریشی نے کہا کہ اب تک تین ہزار سے زیادہ لوگ اس پارک میں آ کر پودے لگا چکے ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پانچ سال میں یہاں ایک چھوٹا سا قدرتی جیسا جنگل بن جائے گا جس سے پورے علاقے میں مجموعی درجہ حرارت کم ہو گا، ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ اور یہ ایک ایسی مثالی چیز بن جائے گی جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آیا کریں گے۔
لاہور میں ایک نجی ہاؤسنگ کمپنی کے سی ای او شہراز منو نے بھی اپنی ہاؤسنگ اسکیم میں میواکی طریقے سے ایک چھوٹا سا جنگل لگانا شروع کیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی ہاؤسنگ اسکیم کے چھ کینال کے رقبے پر ایک سال قبل میواکی کے ایک ماہر کی مدد سے ساڑھے پانچ ہزار درخت لگائے تھے جو تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بہت خوبصورت منظر پیش کر رہے ہیں۔
کراچی میں ماحولیات کے ایک ماہر ناصر پنھور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسی تیزی سے سبزہ بھی کم ہو رہا ہے جس سے نیچر کا توازن ٹوٹ رہا ہے۔ یہ توازن قائم رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے، جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔