روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور پاکستانی وزیٹرز کے لیے گوردوارہ سے واپسی پر بھی بائیومیٹرک لازمی قرار دے دی گئی۔ 23 نومبر کو ہریانہ سے تعلق رکھنے والی سکھ لڑکی منجیت کوریاتری کے روپ میں اپنے پاکستانی فیس بک بوائے فرینڈ سے ملنے کے لیے راہداری کے ذریعے گوردوارہ پہنچی جہاں فیصل آباد سے آیاہوا اس کا بوائے فرینڈ اپنے ایک دوست اور ایک پاکستانی لڑکی کے ساتھ موجود تھا۔
ان چاروں نے گوردوارہ کی پہلی منزل پر جا کر ملاقات کی۔ ملاقات میں سکھ یاتری منجیت کور نے راہداری سے واپس جانے کی بجائے پاکستانی علاقے میں جانے کا منصوبہ بنایا۔ذرائع کے مطابق سکھ لڑکی کے بوائے فرینڈ کے ہمراہ آنے والی پاکستانی لڑکی نے اپنا وزیٹر کارڈ بھارتی سکھ لڑکی کو دے دیا اور اس یاتری کارڈ گوردوارے کے ایک کوڑے دان میں پھینک دیا۔
حکام کے مطابق یہ جوڑا سکیورٹی کو چکمہ دیتے ہوئے فیصل آباد پہنچ گیا۔ جبکہ پاکستانی نوجوان کی بہن دو دن گردوارا کے اندر ہی رہی۔ جب اس نے نکلنے کی کوشش کی اور سکیورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ اس کا اجازت نامہ گم ہو گیا ہے تو اسے امیگریشن حکام نے روک لیا۔ ابتدائی تفتیش میں اس نے اصل بات بتا دی جس کے بعد منجیت کور کو فیصل آباد سے بازیاب کروا لیا گیا اور واپس انڈیا بھیج دیا گیا۔
واقعے کے بعد پاکستانی حکام نے پاکستان سے گئے ہوئے یاتریوں اور ویزٹرز کے لیے بھی واپس نکلتے ہوئے بائیو میٹرک لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی یاتری محض ایک بائیو میٹرک کے بعد داخلی پاس حاصل کرتے تھے اور واپسی پر وہ داخلی پاس حکام کو دینے کے بعد ان کے بائیو میٹرک نہیں لیے جاتے تھے۔فیصل آباد پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ بھارتی لڑکی کو فیصل آباد کے ایک گاو¿ں سے بازیاب کیا گیا جبکہ اس نے بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی تھی۔ لڑکی کو لاہور اور فیصل آباد پولیس کی مشترکہ کوششوں سے ڈھونڈا گیا۔