288

امن | محبّت اور درگزر

امن محبت اور درگزر کسی بھی معاشرے کے افراد کی انفرادی اور اجتمائی پہچان ہے یہ صفات معاشرے کا مثبت پہلو ہیں اور صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ فقدان ان ہی صفات کا ہے عدم برداشت کا بڑھتا ہو رحجان ہر آنے والے دن کے ساتھ تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے افسوس کہ ممبر و محراب ، سیاسی راہنما ، اساتذہ اور والدین معاشرے کی تعلیم و تربیت کے  حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا نہ کر سکے 
اسلامی نظریاتی معاشرے کی پہچان امن ، محبت ، درگزر اور بھائی چارے کا پیغام جو کہ سرور کونین حضرت محمّد ؑ کا خاص وصف تھا ۔ آپ ؑ کے امن درگزر اور برداشت کے اس پیغام کی وجہ سے اس دنیا میں اسلامی انقلاب برپا ہوا
آپ ؑ نے لوگوں کو سلامتی کا درس دیا ۔ لوگوں کو ان کے حقوق کے ساتھ ان کے فرا ئض سے بھی روشناس
کروایا ۔ آپ ؑ کا سب سے خاص وصف لوگوں کو ان کی زیادتی کے باوجود معاف کر دینا تھا ۔ آپ ؑ کی زندگی کا اگر احاطہ کیا جاۓ تو دو سب سے نمایاں خوبیاں ، ایک آپ کی امانت داری اور دوسری عفو درگزر ہیں ۔ ان دونوں خوبیوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے ۔ آپ ؑ اخلاقیات کے اعلی ترین درجے پر فائز تھے ۔اخلاقیات کا تعلق تعلیم شعور اور احساسات سے ہے ۔ آپ ؑ کے اخلاق اور معاف کر دینے کی خوبی کی وجہ سے لوگ جوک در جوک دائرہ اسلام میں داخل ہوۓ ۔ آپ ؑ نے لوگوں کو معاشرت سکھائی اور ان کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔
درگزر کا یہ عالم تھا کہ آپ ؑ پر کوڑا پھینکنے والی خاتون جب بیمار ہوتی ہے تو اس کی تیمار داری کے لئے اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اس سے زیادہ صبر اور درگزر کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے
آپ ؑ کی زندگی کا یہ واقعہ انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے آپ ؑ کے اس حسن اخلاق نے عرب کے لوگوں میں ایثار قربانی اور محبّت کا جذبہ پیدا کیا ۔ اور نفرت کے بُت کو پاش پاش کر دیا ۔
ذرا غور کریں کہ ہم پر اگر کوئی غلطی سے بھی کوڑا یا غلاظت پھینک دے تو ہمارا اس وقت رد عمل کیا ہو گا ہمارے جذبات اور احساسات کیا ہوں گے اور اگر کوئی جان بوجھ کر یہ عمل کرے تو اس وقت ہماری کیفیت کیا ہو گی ۔ بڑھتے ہوے عدم برداشت کے رجحان میں اس طرح کا کوئی بھی واقعہ قتل و غارت کا باعث بن سکتا ہے ۔ گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا تو ہمارے معاشرے میں معمول بن چکا ہے ۔ ہم فرقہ پرستی ذات برادری مسلک اور مذہب کی بنیاد پر کسی دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ۔
معاشرے کا بغور جائزہ لیا جاۓ تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت دوسرے لوگوں کے بارے میں حتیٰ کہ اپنے قریبی دوستوں اور عزیز و اقارب کے بارے میں منفی راۓ رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ہم دو یا دو سے زیادہ لوگ محو گفتگو ہوں تو کسی تیسرے دوست یا جاننے والے کو موضو ع بحث بنائیں گے اس کی خامیاں تلاش کی جایئں گی اور اس کی گھریلو اور نجی زندگی کو اچھالا جاۓ گا ۔
غیبت چغلی اور بہتان بازی کر ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ۔ دوسروں کی برائیاں بیان کرنا عیب تلاش کرنا اور اپنے آپ کو متقی اور پرہیز گار ثابت کرنا ہمارا اولین فرض ہے ۔ جس معاشرے میں گالی گلوچ تکیہ کلام بن جاۓ تو وہ تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا ۔ ہر ایک مذہب معاشرے کو تہزیب سکھاتا ہے انسانیت کا درس دیتا ہے ۔ انسانیت کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات کا ایک باب ہے ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے میں ہمارا سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ ہم خود اپنے اندر تبدیلی لائیں ۔ اگر ہمیں تہذیب یافتہ بننا ہے تو تعلیم و تربیت اور اسلامی افکار کو اپنی زندگی پر نافذ کرنا ہو گا ۔ اسلام کی اعلی اخلاقی اقدار کو اپنانا ہو گا نوجوانوں کی ذہنی و فکری اصلاح اور تربیت کی ضرورت ہے
عدم برداشت کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم کردار ہمارے علماء اور مولوی حضرات کا بھی ہے ۔ ان علماء کرام کا ہمارے معاشرے میں بہت اہم مقام ہے اور وہ تمام قابل تکریم ہیں لیکن بہت ہی ادب اور معذرت کے ساتھ ان علماء کرام نے عوام کو ایسے مسائل میں الجھا دیا ہے جس سے معاشرے میں عدم برداشت نفرت اور نا پسندیدگی کا رجحان فروغ پا رہا ہے
اس سے مراد ایسے فرقہ وارانہ مضوعات سے ہے جن کو بنیاد بنا کر ہم ایک دوسرے کو کافر ، مشرک ، گستاخ اور منافق جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ مساجد میں اسی فیصد سے زیادہ انہی فرقہ وارانہ موضوعات پر خطبے دئیے جاتے ہیں اور تقاریر کی جاتی ہیں ۔ کسی ایک فرقے سے تعلق رکھنے والا عالم کسی ایک موضوع کو لے کر کسی دوسرے فرقے کو جھوٹا ثابت کر رہا ہوتا ہے اور اپنے فرقے کو ہی صرف دین اور اسلام کے مطابق سمجھتا ہے اور سب علماء حضرات اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ
 آپ ؑ  نے فرمایا کے قرب قیامت تک اسلام میں بٙہتّر 
فرقے بن جائیں گے حالانکہ آپ ؑ نے اس کی صرف پشین گوئی کی ہے یہ نہیں فرمایا کہ تفرقے میں پڑو ، بلکہ اس عمل کو نا پسند فرمایا ہے 
ہمارے ہاں امام مسجد کو بہت اہم مقام حاصل ہے لوگ علماء مولوی حضرات اور ذاکرین کی بات کو حرف آخر سمجتھے ہیں ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں ان کی کی ہوئی باتیں اور دوسرے مسلک یا فرقے کے خلاف دئیے ہوے فتوے عوام کے دل و دماغ میں سرایت کر جاتے ہیں اور ہم کسی بھی غیر فرقے سے تعلق رکھنے والے انسان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ان کو جہنمی جب کہ صرف اپنے آپ کو ہی جنت کا حقدار سمجھتے ہیں 
قرآن پاک میں اللّه کا فرمان ہے کہ 
اور تم اللّه کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو ۔ 
اگر ہم غور کریں کہ کیا ہم اللّه تعالیٰ کے اس فرمان کی حکم عدولی نہیں کر رہے ؟
اور نبی اکرم ؑ نے فرقہ واریت کو نا پسند فرمایا ، تو کیا ہم نبی اکرم ؑ کی پسند اور نا پسند کا خیال کر رہے ہیں یا ہم اپنی انا اور تفرقہ پرستی کی ضد پر قائم ہیں ۔ ذرا سوچیے کہ کیا ہم اپنی انا کی تسکین کر رہے ہیں یا اللّه رب العزت کے حکم پر عمل کر رہے ہیں ۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں