345

حضرت محمدؐ بحیثیت خطیب

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 18.0px Helvetica}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 18.0px Helvetica; min-height: 22.0px}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 18.0px ‘Noto Nastaliq Urdu’}
p.p4 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 18.0px Helvetica; min-height: 22.0px}
p.p5 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 18.0px ‘Noto Nastaliq Urdu’}
span.s1 {font: 18.0px Helvetica}
span.s2 {font: 18.0px ‘Geeza Pro’}
span.Apple-tab-span {white-space:pre}


آپؐ کااندازِ خطابت :  عربی معاشرے میں خطابت بہت بڑا وصف سمجھا جاتا تھا۔ بحیثیت مجموعی اہل عرب کی خطابت مسلم تھی، اسی بنا پر وہ غیر عربی اقوام کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ آنحضورؐ اُمّی تھے،مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تقریر و خطابت کی غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ بچپن میں آپؐ کی پرورش دائی حلیمہ کے ہاں بدوی ماحول میں ہوئی تھی۔حلیمہ، بنو سعد قبیلے سے تھیں اور یہ قبیلہ اپنی فصیح زبان کے سبب عرب میں ممتاز حیثیت کا مالک تھا۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: اَنَا اَفْصَحُکُمْ، اَنَا مِنْ قُرَیْشٍ وَ لِسَانِیْ لِسَانُ بَنِیْ سَعْدِبْنِ بَکْرٍ، ’’میں تم سے زیادہ فصیح ہوں، کیونکہ میں قریشی ہوں اور میری زبان بنی سعد بن بکر کی زبان ہے‘‘۔ اس وجہ سے آپؐ کے لہجے میں عربی فصاحت و بلاغت کی بہترین خوبیاںجمع ہو گئی تھیں۔ بحیثیت ایک خطیب، آپؐ کی شخصیت پر نظر ڈالیں توآپؐ کی خطابت میں بھی ایک انفرادی شان نظر آتی ہے۔

آپؐ کے خطبے کا کوئی مستقل یا مقرر اسلوب نہ تھا۔ آپ زمین پر کھڑے ہو کر یا کسی درخت سے ٹیک لگا کر، یا میدان جنگ میں کمان پر ٹیک لگا کر، یا منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیتے۔ خطبہ دیتے وقت عموماً آپ کے ہاتھ میں ایک عصا ہوتا۔ کبھی کبھی آپ کے ہاتھ میں ایک کمان ہوتو آپ اس پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔آپ کے اسلوب خطبہ کے بارے میںابن ابی شیبہ کی روایت میںبتایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن حضورؐ منبر پر آتے ہی لوگوں کی طرف منہ کر کے السلام علیکم کہتے۔اے فلاں! بیٹھ جا، اے فلاں! نما ز پڑھ، وغیرہ۔ خطبے سے متعلق سامعین میں سے اگر کوئی شخص سوال کرتا تو اس کا جواب دیتے۔ آ پؐ کے بعض خطبے تو ایسے ہیں کہ جو شروع سے آخر تک سوالات و جوابات پر ہی مشتمل ہیں۔
مدینے میں، ابتدائی دور میں آپؐ مسجد نبوی میں کھجور کے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگاکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ آپؐ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اب کھڑا رہنا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ اس پر حضرت تمیم داری ؓ نے مشورہ دیا کہ ایک منبر بنوا لیا جائے، جیسا کہ ملک شام میں ہوتا ہے۔آپؐ نے دوسرے صحابہ کی رائے معلوم کی تو سب نے اتفاق کیا۔ حضرت عباس ؓ نے کہا: میرا ایک غلام ہے جس کا نام کلاب ہے ،وہ بڑھئی کے کام میں بہت ہوشیار ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا،اس سے کہو کہ منبر تیار کر کے لائے۔ چنانچہ وہ جنگل سے لکڑی کاٹ لایا، اس کے تختے تیار کیے اور پھر ان سے منبر بنایا۔ اس کے دو زینے تھے، اس کے بعد تیسری بیٹھنے کی جگہ تھی۔ یہ منبرمسجد نبوی میں لایا گیااور اس جگہ رکھ دیا گیا جہاں آپؐ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے،اور وہ خشک تنا وہاں سے ہٹا کر ایک طرف رکھ دیا گیا۔ آپؐ اس منبر پر تشریف فرما ہوئے۔
خطیب بے مثال، داعیِ باکمال، پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہؐ  کے سحر آفرین اور دلنشین انداز خطابت اور وعظِ بلیغ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں : وَ عَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ  (ابو داؤد:۷۰۶۴ وترمذی: ۸۷۶۲) ’’آپؐ نے ہمیں خطاب فرمایا،جس کی اثر انگیز اور دلپذیری کا یہ عالم تھا کہ سامعین کی آنکھیں اشکبار اور دلوں پہ رقت طاری تھی‘‘۔ مشہور شاعر احمد شوقی کے بقولاذا خطبت فللمنابرہزۃ تعرو النبی و للقلوب بکاء، ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ اللہ تعالیٰ نے تکمیل انسانیت کے باقی اوصاف کی طرح ملکۂ خطابت بھی آپؐ کو بدرجۂ اتم عطا فرمایا تھا کیونکہ یہ فرائضِ نبوت کی ادائیگی کے لیے اور پیغام الٰہی کی تبلیغ کے لیے بنیادی وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل انسانیت اورسعادت دارین کے حصول کے لیے نبی اکرمؐ کوہمارے لیے اسوہ ونمونہ بنایاہے۔لہٰذاہم خطیب بے مثال اورداعی باکمال نبی مکرمؐ  کی طرز خطابت کی خوشنما جھلک پیش کرتے ہیں تاکہ ہم ایک خطیب ناجح مقرربارع اورواعظ بلیغ کے اوصاف وصفات سے آگاہ وآشناہوسکیں۔
اچھالباس پہنتےسیدناجابرؓ سے روایت ہے کہ :کان للنبی بردیلبسافی العیدین والجمعۃ ، ’’نبی اکرمؐ کاایک دھاری دارحلہ تھا، جسے آپؐ عیدین اورجمعہ کے لیے زیب تن فرمایاکرتے تھے‘‘۔(السنن الکبریٰ)، منبرپرچڑھتے توسلام کرتےحضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ :کان اذاصعدالمنبرسلم۔’’نبی اکرمؐ  جب خطبہ کے لیے منبرپرتشریف لاتے توفرماتے :السلام علیکم۔(صحیح الجامع الصغیر:۴۷۴۰)، حضرت ثابت ؓ سے مروی ہے کہ :کان اذاقام علی المنبراستقبلہ اصحابہ بوجوھھم۔ ’’جب آپؐ منبرپرکھڑے ہوتے تولوگ آپؐ کی طرف رخ کرلیتے ۔(صحیح الجامع الصغیر:۴۷۶۲)
کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرماتے :  حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ :ان النبی کان یخطب قائمایوم القیامۃ۔
’’آپؐ جمعہ کاخطبہ کھڑے ہوکرارشادفرماتے تھے۔(مسلم )، آپؐ منبرپرکھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرمایاکرتے تھے اورآپؐ کے منبرکی تین سیڑھیاں تھیں۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ : کان جذع یقوم الیہ النبیؐ فلماوضع لہ المنبرسمعناللجذع مثل اصوات العشارحتی نزل النبی فوضع یدہ علیہ، ’’ایک کھجورکاتناتھاجس کے ساتھ ٹیک لگاکرنبی اکرمؐ خطبہ ارشادفرمایاکرتے تھے ، جب آپؐ کے لیے منبر بنادیا گیا (اورآپؐ اس تنے کوچھوڑکرمنبرپرخطبہ دینے لگے)توہم نے اس تنے سے حاملہ اونٹنی کے کراہنے کی مانندرونے کی آوازسنی حتی کہ نبی اکرمؐ منبرسے نیچے اترے اورآپؐ نے اس پراپنادست مبارک رکھا(اوروہ خاموش ہوا)‘‘۔(بخاری)

حضرت انس ؓ کہتے ہیں:فصنع لہ منبرلہ درجتان ویقعدعلی الثالثۃ، ’’آپؐ کے لیے منبربنایاگیاجس کی دوسیڑھیاں تھیں اورتیسری سیڑھی پرآپؐ بیٹھاکرتے تھے۔(سنن دارمی)، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:نبی مکرمؐ کے منبرمبارک کی تین ہی سیڑھیاں چلی آرہی تھیں حتی کہ حضرت معاویہ ؓ کی خلافت میں مروان بن الحکم نے اس میں اضافہ کیااورچھ سیڑھیاں بنادیں۔(فتح الباری،ج:۲، ص:۳۹۹)، منبرپرچڑھنے کے بعداذان آپؐ سلام کہنے کے بعدمنبرپربیٹھ جاتے اورموذن اذان شروع کرتا۔حضرت سائب بن یزیدؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرمؐ منبرپربیٹھ جاتے توحضرت بلال ؓ اذان دیاکرتے تھے اورجب خطبہ ختم کرکے منبرسے نیچے اترتے توحضرت بلال ؓ اقامت کہاکرتے تھے اورآپؐ کے بعدحضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے دورمیںبھی ایسے ہی ہوتاتھا۔(صحیح سنن نسائی)

خطبۃ الحاجۃ امام ابن قیم فرماتے ہیں:لم یکن یخطب النبی خطبتہ الاافتتھحابحمدللہ ویستشھدفیھابکلمتی الشھادۃ ویذکرفیھانفسہ باسمہ العلم، ’’نبی کریمؐ اپناہرخطبہ حمدوثناء سے شروع کرتے اوراس میں شہادتین کاذکرفرماتے اوراپنااسم گرامی محمدؐ  ذکرکرتے تھے‘‘۔(زادالمعاد، ج:۱، ص:۱۸۹)، حمدو ثناء اور شہادتین کے بعد آپؐ فرماتے ’’اما بعد‘‘ بعض مفسرین نے ’’اما بعد‘‘کو فصل الخطاب کی تفسیر قرار دیا ہے۔ نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں: کان النبی یلازمھا یعنی لفظۃ (اما بعد) فی جمیع خطبہ و ذلک بعد الحمد و الثناء والتشہد، ’’نبی اکرمؐ اپنے ہر خطبے میں حمد و ثناء اور شہادتین کے بعد (امابعد)ضرور کہتے تھے‘‘۔ (الاجوبۃ النافعۃ،ص:۵۶)

خطبہ مسنونہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ہمیںیہ خطبہ (خطبۂ مسنونہ) سکھایا۔ (جوکہ ہرخطیب اپنے خطبے کے شروع میں پڑھتاہے ، یہاں طوالت کے پیش نظرصرف اشارہ کیاگیاہے) ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ اس کے بعد فرمایا کرتے تھے : اما بعد! فإن خیر الحدیث کتاب اللہ و خیر الہدی ہدی محمد و شر الامور محدثاتہا و کل بدعۃ ضلالۃ ، نسائی شریف میں ہے (وکل ضلالۃ فی النار) شیخ البانی نے اس زیادتی کو صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح سنن النسائی:۱۳۳۱)

تحیۃالمسجدپڑھنے کاحکمـ : حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ جمعہ کاخطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی آیاتوآپؐ نے فرمایا:کیاتونے تحیۃ المسجداداکی ہے؟تواس نے عرض کی:نہیں، توآپؐ نے، فرمایا اٹھواوردورکعت نمازاداکرو۔(بخاری)، اندازبیان رسول اکرمؐ جب خطبہ ارشادفرماتے توآپؐ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیںاورآوازبلندہوجاتی، آپؐ اس طرح جوشیلے اندازمیں خطبہ ارشادفرماتے تھے جیساکہ آپؐ کسی لشکرسے ڈرارہے ہوں ، جس سے ڈرانے والاکہتاہے کہ دشمن تم پرصبح کے وقت حملہ آورہوگایاشام کے وقت۔(مسلم)

عصایاقوس پرٹیک لگانا : حضرت حکم بن حزن الکفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اورمیں اس وفدمیں ساتواں یانواں شخص تھا۔(المختصر)ہم کئی دن تک وہیں رہے حتی کہ ہمیں رسول اکرمؐ کے ساتھ جمعہ اداکرنے کاموقع ملاتوآپؐ عصا(لاٹھی)یاکمان پرٹیک لگاکر(یعنی ہاتھ میں لے کر)کھڑے ہوئے اورآپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان فرمائی اوربہت ہی مختصر، جامع، پاکیزہ اورمبارک کلمات میں وعظ فرمایا۔(ابوداؤد،ج:۱، ص:۲۴۰)
شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا حضرت عمارہ بن رویبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بشربن مروان کودیکھاکہ وہ منبرپہ کھڑے دونوں ہاتھوں کوبلندکئے ہوئے تھے ۔انہوں نے کہا:اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کابراکرے ، میں نے رسول اللہؐ  کوصرف اس طرح کرتے دیکھاہے اورانہوں نے اپنی شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔(مسلم)، مناسب اشارے اوروقفات آپؐ کی عادت مبارک تھی کہ موضوع کی مباسبت اوربات سمجھانے کے لیے اشاروں اوروقفات کااستعمال کیاکرتے تھے۔مثلاً آپؐ نے جب فرمایا:اناوکافل الیتیم کھاتین فی الجنۃ،تو آپؐ نے اپنی دومبارک انگلیوں کوملاکراشارہ کیا۔ دوخطبوں کے درمیان بیٹھناحضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ  دوخطبے ارشادفرماتے اوران کے درمیان بیٹھاکرتے تھے۔(بخاری ومسلم)

خطبہ میں دعاکے لیے ہاتھ اٹھانا : حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی مکرمؐ  جمعہ کے روزخطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکرعرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ !مال ومویشی ہلاک ہورہے ہیں ، اللہ سے بارش کے لیے دعافرمائیے، توآپؐ نے ہاتھ اٹھاکردعاکی۔(بخاری)، خطبے کااختتامخاتمہ درحقیقت خطبہ کالب لباب اورخلاصہ ہوتاہے ۔آپؐ کے خطبہ کے اختتام کے متعلق امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں :وکان یختم خطبۃ بالاستغفار۔’’نبی کریمؐ استغفارکے ساتھ اپناخطبہ ختم کیاکرتے تھے‘‘۔ 

چنداوراندازخطابت، موقع کی مناسبت چنانچہ افصح العرب سیدالانبیاءؐ  کے خطبات جوکہ فصاحت وبلاغت کے لیے معیارہیں۔ان کاتذکرہ کرتے ہوئے امام ابن القیم ؒ فرماتے ہیں :وکان رسول اللہؐ یخطب فی کل وقت بناتقتضیہ حاجۃ المخاطبین ومصلحتھم (زادالمعاد،ج:۱، ص:۱۸۹)، ’’نبی اکرمؐ  ہمیشہ سامعین کی ضروریات اورمصالح کومدنظررکھ کرخطبہ ارشادفرمایاکرتے تھے‘‘۔ پابندیِ وقتآپؐ ہمیشہ خطبہ اختصارمخل اورطول ممل سے پاک ارشادفرماتے ۔حضرت عمارؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ  کو فرماتے ہوئے سنا:ان طول صلاۃ الرجل وقصرخطبتہ مئنۃمن فھمہ۔ای علامۃ۔فأطیلواالصلاۃواقصرواالخطبۃ، وان من البیان سحرا(مسلم)، ’’نمازکاطویل کرنااورخطبہ کامختصرکرناخطیب کی دانائی کی علامت ہے۔تم نمازلمبی اورخطبہ مختصرکرو، یقینابیان میں ایک جادوہے‘‘۔
براہ راست کسی پرتنقیدسے گریزآپؐ بغیرکسی کو نامزد کیے جرائم کی نشاندہی اور ان کی اصلاح فرماتے تھے۔ آپؐ  کایہ بڑا ہی حکیمانہ اسلوب تھا۔ جیساکہ آپؐ  ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھےمابال اقوام یفعلون کذاوکذا’’کیامعاملہ ہے اس قوم کاجوکرتے ہیں اس طرح اوراس طرح ‘‘۔ یوں اس سے نامزدگی بھی نہ ہوتی اورصاحب خطااپنی غلطی سے بھی آگاہ ہوجاتااورکوئی شر اور فتنہ بھی پیدا نہ ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں