432

شکار

اس کے چہرے پر ایک ہیجان انگیز کیفیت طاری تھی۔۔۔ موبائل سکرین پر حرکت کرتے ہاتھ پرلرزش واضح نظر آتی تھی۔ 

یکایک اس نے موبائل وہیں پھینکا اور واشروم کی طرف دوڑی۔۔۔الٹیاں تھیں کہ رکنے میں نہ آتی۔ 

اس نے شیشے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا اور وہی مناظر اسکی آنکھوں کے آگے رقص کرنے لگے 

اسے خود سے گھن آنے لگی۔ 

یہ میں کیا دیکھ رہی تھی۔۔۔استغفر اللہ۔۔۔۔اس نے جھرجھری لیتے ہوئے سوچا اگر کسی کو پتہ چل جائے تو؟ ابو تو مجھے زندہ گاڑ دینگے۔ 

باہر نکلنے سے پہلے وہ یہ عہد کر چکی تھی کہ آئندہ یہ حرکت کبھی نہیں کرے گی۔ 

عائلہ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا جہاں گھر میں ٹی وی تک موجود نہیں تھا۔۔۔ابو نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت بھی نہ دی کہ انہیں یہ گوارہ نہ تھا انکی بیٹی نامحرم لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتی لہذا پڑھائی کا سفر بی-اے تک ہی محدود رہ گیا۔ ابو اب جلد از جلد اسکی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن مناسب رشتہ اب تک نہیں مل سکا تھا۔ امی نے عائلہ کو گھر داری میں مصروف کرلیا۔ 

زندگی اسی طرح سکون سے رواں دواں رہتی اگر اسجد بھائی کویت سے اسکے لیے سمارٹ فون نہ لے آتے۔۔۔ ابو تو بہت ناراض ہوئے اس پر۔۔۔ بیٹے کو سرزنش کرتے ہوئے لڑکیوں کے موبائل استعمال کرنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں سمجھایا لیکن اسجد کو اپنی بہن پر مکمل اعتماد تھا اس نے ابو کو قائل کر ہی لیا اور اسطرح عائلہ کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ 

پڑوس میں موجود وائی فائی کا پاسورڈ اسے اپنی دوست نازیہ سے معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی اور نازیہ ہی اسکی معاون بنی اس نئی دنیا کا دروازہ کھولنے میں۔ 

نازیہ نے اسے فیسبک آئی ڈی بنا کر دی مختلف ایپلیکیشنز ڈاون لوڈ کرکے دیں اور عائلہ کو لگا جیسے وہ کسی حیرت کدے میں آگئی ہے جہاں قدم قدم پرنئےراز کھلتے تھے۔ 

پر جو راز آج کھلے ۔۔۔۔ وہ تو خود سے بھی نظر نہ ملا پارہی تھی۔ 

خود کو لعنت ملامت کرتے اور آئندہ کے لیے توبہ تائب ہوتی وہ نیند کی وادی میں اتر گئی۔ 

کسی نے سچ کہا تھا گناہ کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہی مشکل ہوتا ہے اسکے بعد تو انسان نہ چاہتے یوئے بھی پستی میں اترتا چلا جاتا ہے۔ 

کچھ ایسا ہی عائلہ کے ساتھ بھی ہوا وہ اگلی رات بہت کوشش کے باوجود خود کو وہی لنک کلک کرنے سے روک نہ پائی۔۔۔عجیب سی لذت تھی اس گناہ میں کہ وہ ضمیر کے ملامت کرنے کرنے کو بھی نظر انداز کیئے دیکھتی چلی گئی۔۔۔کچھ دن ایسا ہی چلتا رہا پہلے گناہ پھر اس پر ندامت۔۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ ندامت بھی ختم ہوگئی اب اسکا نفس کچھ اور چاہ رہا تھا۔ 

اس نے ایک فیک آئی ڈی بنائی اور اس دلدل میں دھنسنے کے لیے خود کو گرا دیا۔۔۔۔ مختلف ملکوں کے مختلف لوگ لیکن ایک جیسی گندی ذہنیت۔۔۔۔ وہ بھی اس شیطانی کھیل میں شامل رہتی اگر اسکی دوستی جواد نامی لڑکے سے نہ ہوجاتی۔۔۔۔جانے یہ اسکا اصل نام تھا بھی یا نہیں پر وہ بندہ بڑا دلچسپ تھا اسکی باتوں سے متاثر ہوکر وہ اسے اپنی آئی ڈی میں ایڈ کر بیٹھی ۔۔ روز کئی گھنٹے اس سے بات ہوتی۔۔۔۔وہ بات بے بات اسکی بے تحاشہ تعریفیں کرتا اور وہ نہال ہو ہو جاتی تعریف تو عورت کی کمزوری ہے۔۔۔۔یونہی باتوں باتوں میں وہ اسے بتا گئی کہ یہ اسکی فیک آئی ڈی ہے اور یہ جاننے کے بعد جواد کا اصرار بڑھتا گیا وہ اس سے اسکی اصل آئی ڈی کی بابت استفسار کرتا رہتا آخر ایک دن تنگ آکر وہ عائلہ کو جذباتیت کا شکار کرنے لگا ۔ 

تم اب تک مجھے غیر ہی سمجھتی ہو جبھی اپنی اصل آئی ڈی نہیں بتاتی ٹھیک ہے نہیں تو نہ صحیح آج کے بعد جواد تمھارے لیئے مر گیا۔ 

یہ میسج بھیج کر اس نے عائلہ کو بلاک کردیا ۔ 

دو دن بات نہیں ہوئی اور عائلہ کی حالت جل بن مچھلی جیسی ہو گئی تھی۔ تیسرے دن اس نے دیکھا کہ جواد نے اسے ان بلاک کردیا ہے اسکی خوشی کا کوئی پیمانہ نہ رہا جواد کی بے چینی بھی دیدنی تھی ۔ 

مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی پلیز مجھے معاف کردو میں نے بہت کوشش کی مگر اب می جان گیا ہوں کہ تم میرے لیے ناگزیر ہوگئی ہو میں تم سے بات کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ 

الفاظ تھے کہ برستی پھوار جو اسکا من بگھو گئی اور اسی سرشاری میں وہ اسے اپنی اصل آئی ڈی میں ایڈ کر گئی۔۔۔ 

انہی دنوں ایک اچھا رشتہ دیکھ کر ابونے اسکی بات پکی کردی۔ عائلہ کے انکار کو کسی نے بھی قابل اعتناء نہ جانا 

اس نے گبھرا کر جواد کی منت سماجت شروع کردی ۔ 

دیکھو جواد گھر میں میری شادی کی باتیں چل رہی ہیں پلیز تم اپنی امی کو بھیجو رشتے کے لیئے۔ 

اور جواد کا جوابی میسج اسکے جسم سے گویا روح نکال لے گیا۔ 

وہ اسکی اپنی چیٹس کے سکرین شاٹ تھے جو اس نے فیک آئی ڈی سے کی تھیں اور وہ تصویریں 

اف!!!! نیچے لکھے الفاظ گویا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے تھے۔ 

کل شام تک مجھے 10لاکھ نہ ملے تو میں یہ سب تصویریں تمھارے سب رشتہ داروں اور دوستوں کو بھیج دونگا اور تمھارا بھائی یہ سب دیکھنے کے بعد کیا کریگا وہ تم مجھ سے بہتر جانتی ہو ۔ 

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عائلہ اسکی منت سماجت کرتی رہی لیکن جواد کے صاف جواب نے اسکے پاؤں تلے زمین نہ رہنے دی۔ 

اگلے دن شام کے اخبارکے کونے میں ایک چھوٹی سی خبر موجود تھی۔ 

مرضی کے خلاف زبردستی رشتہ طئے کرنے پر مولوی قدرت اللہ کی بیٹی نے دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی۔۔ماں صدمے سے نڈھال۔

شیطان ایک بار پھر اپنی مکروہ چالوں میں کامیاب ہوگیا تھا اور نہ جانے مزید کتنے لوگ اسکا شکار بن رہے ہیں اور بنتے رہیں گے۔

زیشما سید

اپنا تبصرہ بھیجیں