کیا قرآن اس بات سے منع کرتا ہے کہ مسلمان عیسائیوں کو مَیری کرسمس کہیں؟؟
اسکا سادہ جواب ہے نہیں, قرآن اس بارے میں منع نہیں کرتا۔ قرآن میں اللہ تعالی سورۂ الممتحہنہ آیت نمبر آٹھ میں ارشاد فرماتا ہے۔
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے (60:8)
اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنے عیسائی دوست کو مَیری کرسمس کہے کہ یہ ایک تہوار ہے اور اس نے اپنے دوست کو اس تہوار کی خوشی کے موقع پر وِش کرنا ہے، تو ایسی صورت میں قرآن اس بات پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، بلکہ قرآن خود کہتا ہے کہ جو تمہارے ساتھ اچھے ہیں ان سے بھلائی کرو۔
اگر کوئی مسلمان اس نیت سے اپنے عیسائی دوست کو مَیری کرسمس کہتا ہے کہ آؤ نعوذ باللہ عیسیٰ علیہ اسلام کی ایک خدا، یا خدا کے بیٹے، یا ٹرینیٹی کے دوسرے ستون کی پیدائش کی خوشی منائیں تو یہ ایک غلط اور شرک پر مبنی بات ہوگی جو کسی بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔
نبی پاک صلی اللہ وسلم عیسائیوں اور یہودیوں کو مسجد نبوی میں مہمان بنا کر ٹھہراتے رہے ہیں، انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے رہے ہیں، ان سے معاہدات کرتے رہے ہیں، آپ صلی اللہ وسلم نے جنگ کے موقع پر صرف ان سے جنگ کی ہے جو جنگ پر بضد ہوئے، عام حالات میں نبی صلی اللہ وسلم کے عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ معاہدات تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔
ہمارے جو مولوی بھائی پاکستان میں رہتے ہیں اور انہیں ترقی یافتہ یورپین ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا میں عیسائیت اور اسکی عملی زندگی میں نفاذیت اور وہاں پر کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی کے بارے میں معلوم نہیں ہے وہ بدقسمتی سے ایسے فتوے دے رہے ہیں کہ مَیری کرسمس کہنا حرام ہے اور کہنے والا وہی یقین کرے گا جو عیسائیوں کا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر غیر مسلم انہیں اسلام وعلیکم کہے تو جواب میں آپ اسے وعلیکم اسلام نہیں کہہ سکتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی عیسائی یا ہندو ڈرتے ڈرتے کسی مسلمان کو اسلام وعلیکم کہہ دیتا ہے تو مسلمان انہیں جواب نہیں دیتا اور اسکا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
یورپ میں جہاں جہاں کرپشن اور جھوٹ ہے وہاں وہاں غربت ہے اور جہاں جہاں ایمانداری اور سچ ہے وہاں وہاں ترقی ہے۔ کم ترقی یافتہ یورپین ممالک میں عیسائیت کا عمل دخل زیادہ ہے، لوگ چرچ زیادہ جاتے ہیں اور عام طور پر کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ یورپین ممالک میں حکومتوں میں مذہب کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے، لوگ پروٹسٹنٹ فرقے والی عیسائیت پر یقین رکھتے ہیں، یہاں پرانے بنے ہوئے بڑے بڑے چرچ ویران پڑے ہوئے ہیں اور کرسمس کے موقع پر بھی صرف چند بوڑھے لوگ ہی چرچ جاتے ہیں جبکہ نوجوان نسل چرچ سے باغی ہے۔
ترقی یافتہ اور پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے یورپین ممالک میں سیکنڈی نیوین ممالک، جرمنی فرانس، اور انگلینڈ، آئرلینڈ میں کرسمس ایک تہوار کے طور پر منائی جاتی ہے، اور اس میں مذہب کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا، جبکہ کیتھولک فرقے والے غریب ممالک میں اٹلی، سپین، پرتگال، یونان، چیک ریپبلک، پولینڈ، لٹویا، لتھوانیہ اور اسٹونیا میں کرسمس روایتی طریقے سے منائی جاتی ہے، اور یہاں مذہب کا لوگوں کی زندگیوں میں اثر ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ پورپین ممالک میں تمام شہری مذاہب سے بالا تر ہو کر برابری کی زندگی گزار رہے ہیں، سب کے پاس وہاں کی شہریت اور پاسپورٹس ہیں اور سب کو برابر کی تنخواہ اور کاروبار کے مواقع ملتے ہیں اور سب ہنسی خوشی اکٹھے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے برادرانہ ماحول میں سب لوگ عیسائیوں کی کرسمس کے موقع پر سب کو مَیری کرسمس کہتے ہیں اور ایسے ہی مسلمانوں کی عیدین، ہندوؤں کی دیوالی اور یہودیوں کی شبات اور یوم کِپور کے موقع پر دوسرے لوگ انہیں وِش کرتے ہیں۔
جو لوگ مَیری کرسمس کہنے کو گناہ سمجھتے ہیں وہ بےشک نہ کہیں لیکن جو لوگ اسے ایک تہوار کے طور پر عیسائی دوستوں کو وِش کرنے کیلئے مَیری کرسمس کہتے ہیں، انہیں اس موقع پر ضرور کہنا چاہئیے۔ میری طرف سے تمام دنیا کے عیسائی دوستوں کو مَیری کرسمس یا کرسمس کا تہوار مبارک۔