422

آ ہی گیا وہ مجھکو لحد میں اتارنے

آ ہی گیا وہ مجھکو لحد میں اتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے
مردہ دلوں کو حشر بھی آیا پُکارنے
آواز دی نہ ایک بھی سنگ مزار نے
اب تک اسیرِ دام فریبِ حیات ہوں
مجھ کو بُھلا دیا مرے پروردگار نے
بے بال و پر بھی مائلِ پرواز تھے یہاں
رُخ ہی ادھر کیا نہ ہواۓ بہار نے
او بے نصیب دن کے تصور سے خوش نہ ہو
چولا بدل لیا ہے شبِ انتظار نے
برسوں فریبِ عشق دیا اک حسیں کو
اس دل نے ہاں اسی دل ناکردہ کار نے
سب کیفیت بہشت کی رندوں پہ کھول دی
کوثر کے ایک ساغرِ ناخوشگوار نے
اغیار سے بھی کرنے لگے وعدہ ہاۓ حشر
عادت بگاڑ دی ہے مرے اعتبار نے
نازک مزاج پھول کا منھ سرخ ہو گیا
چُٹکی سی ایک لی تھی نسیمِ بہار نے
نوحہ گروں کو بھی گلا بیٹھنے کی فکر
جاتا ہوں آپ اپنی اجل کو پکارنے
دیکھا نہ کاروبارِ محبت کبھی حفیظؔ
فرصت کا وقت ہی نہ دیا کاروبار نے
غالب رہی حفیظؔ حقیقت مجاز پر
کعبے سے مجھکو کھینچ لیا کُوۓ یار نے

اپنا تبصرہ بھیجیں