Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
566

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر (حصہ سوئم)

مسجد بُراق الاقصیٰ کمپاؤنڈ کے جنوب مغربی کونے میں تہہ خانے کے اندر ایک چھوٹی سی عمارت ہے، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں حضرت محمد صل اللہ وسلم نے سفر معراج کی رات اپنا بُراق باندھا تھا، بُراق ایک اُڑنے والے جانور کا نام ہے جس پر معراج کی رات آپ نے سفر کیا تھا، مسجد کی اس دیوار کی دوسری جانب والے حصے کو دیوار گریہ کہتے ہیں جہاں یہودی اپنی عبادت کرتے ہیں اور روتے ہیں، انکے خیال میں ایسا کرنے سے انکے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

مسجد بُراق کے اندر سیڑھیاں اُترنے کے بعد زبردستی کے بنے ہوئے گائیڈ صاحب نے ہمیں متوجہ کرتے ہوئے اُونچی اُونچی آواز میں مسجد بُراق کی تاریخ بتانا شروع کردی، مجھے جونہی اس بندے کی نفسیات کا احساس ہوا میں نے حمزہ بھائی سے آنکھ کا اشارہ کیا کہ پہلی فرصت میں جلد سے جلد اس انسان سے جان چھڑوائیں، ورنہ یہ تھوڑی دیر بعد دو چار سو یورو رقم کی ڈیمانڈ کردے گا۔ ابھی ان صاحب کی تقریر جاری ہی تھی کہ میں نے دیوار کے ساتھ لگے اس لوہے کے کنڈے کے نزدیک جہاں معراج کی رات نبی صلی اللہ وسلم نے بُراق باندھا تھا، وہاں دو رکعت نفل ادا کرنے کیلئے نیت باندھ لی، میرا ایسے کرنے سے اسے اپنی تاریخ ساز تقریر بند کرنا پڑی، حمزہ بھائی نے بھی دو رکعت نفل ادا کئیے اور بعد میں ان صاحب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ ہم آج اکیلے ہی زیارات کریں گے اور آج شام یا کل تک آپکے ساتھ زیارات کرنے کے متعلق سوچ کر آپ کو وٹس ایپ پر کال کر دیں گے، اس بات پر وہ صاحب ایسے منہ لٹکا کر مسجد سے باہر نکل گئے جیسے کسی کی لاٹری صرف ایک نمبر سے نکلنے سے مِس ہوجائے۔

تصویر میں میری پشت پر موجود دیوار سے نبی صلی اللہ وسلم براق پر سوار ہو کر آئے تھے، اور اس کنڈے کی جگہ براق باندھا تھا۔ یہ کنڈہ بعد میں اس نشان پر لگایا گیا ہے اور پشت کی دیوار بھی اس وقت نہیں ہوتی تھی۔
 مسجد براق

ابھی ہم مسجد سے باہر نکلنے کے لئے صرف چند زینے ہی اوپر چڑھے تھے، کہ ہماری نظر مسجد میں موجود دو نوجوانوں پر پڑی جو خود بھی اوپر آنے کیلئے اپنے جوتے الماری سے پکڑ رہے تھے، حمزہ بھائی نے خیال کیا کہ وہ شکل سے پاکستانی لگتے ہیں، اسلئیے انہوں نے ان سے اردو میں بات کی، جس پر وہ ہنس دئیے اور انہوں نے انگلش میں جواب دیا کہ وہ فلسطینی نوجوان ہیں اور القدس یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالبعلم ہیں اور ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ ہم انکے ساتھ باتیں کرتے ہوئے مسجد سے باہر آگئے اور مسجد اقصیٰ کی طرف چلنا شروع کردیا کیونکہ عصر کی اذان ہورہی تھی اور ہمیں نماز با جماعت پڑھنے کیلئے مسجد اقصیٰ میں جانا ہی تھا۔

 مسجد اقصی
ڈوم آف راک

یہ دونوں نوجوان بغیر کسی لالچ کے صِدقِ دل کے ساتھ ہم سے باتیں کررہے تھے، ہمارا ان جیسے لوکل لوگوں سے بات چیت کرنا نہایت ضروری تھا، کیونکہ ہم یہ جاننے کیلئے شدید بے چین تھے کہ لوکل فلسطینی اور یہودیوں کے آپس میں کیسے تعلقات ہیں اور ہمارے فلسطینی بھائی اسرائیل میں کیسی زندگی گزار رہے ہیں، سفرنامہ لکھنے کے شوق کی وجہ سے میری اس معاملے میں دلچسپی کچھ زیادہ ہی تھی کیونکہ ہزاروں پاکستانی دوست احباب سوشل میڈیا پر میری فلسطین کے متعکق معلومات شیئر کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔

القدس یونیورسٹی کے طالب علموں کے ساتھ

ان سے باتوں باتوں میں یہ پتا چلا کہ اسرائیلیوں کے لئے تعلیم کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں جبکہ فلسطینیوں کو کالج یونیورسٹی لیول پر داخلہ بہت کم ملتا ہے، یونیورسٹیوں کے اندر فلسطینی اور اسرائیلی یہودی طالبعلم بظاہر دوست بن کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تعلیم میں ایک دوسرے کی مدد بھی کررہے ہوتے ہیں لیکن ذہن کے کونے کھدروں میں فلسطینی بھائیوں کو کچھ نہ کچھ تعصب اور امتیازی سلوک کا احساس بھی ہوتا رہتا تھا، جو شاید ایک فطری عمل بھی ہے کیونکہ پہلے فلسطینی طالبعلم ہر کام میں آزاد تھے اور آزادانہ تعلیم حاصل کررہے تھے، لیکن اب ہر جگہ پر یہودی آ کر بیٹھ گئے ہیں، اور انہیں انکی مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔

القدس یونیورسٹی یروشلم
القدس یونیورسٹی یروشلم

ہم سب نے نماز عصر با جماعت ادا کی اور مسجد سے باہر آگئے۔ باہر آ کر میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اپنے ساتھ القدس یونیورسٹی کیمپس لے جائیں تاکہ ہم وہاں مزید فلسطینی طالبعلموں سے مل سکیں اور یونیورسٹی میں انکے مسائل کو سمجھ سکیں، لیکن ہمارے یہ فلسطینی بھائی اپنا اپنا موبائل نمبر ہمیں دے کر معذرت خوانہ لہجے میں یہ کہہ کر چلے گئے کہ انہوں نے پہلے کہیں کھانے پر جانا ہے اسکے بعد وہ یونیورسٹی جائیں گے، شاید انہیں یہ ڈر ہو کہ دو پاکستانیوں کو یونیورسٹی کے اندر لوگوں کے ساتھ ملانے سے کہیں وہ خود کسی قسم کی مصیبت کا شکار نہ ہوجائیں، یہ بات ہوسکتا ہے میری خود آرائی ہی نہ ہو لیکن میں نے وہی لکھا ہے جو اس وقت میرے دماغ میں آیا تھا۔

(جاری ہے)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں