کہتے ہیں کہ بھائی کا رشتہ ایک ایسا انمول اور لازوال رشتہ ہے جس کے بغیر ہر انسان ادھورا اور غیر محفوظ ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میاں محمد بخش رح نے فرمایا تھا کہ۔۔۔
بھراواں بھاہج محمدا کنڈ ننگی
بھانویں مغر قبیلیاں دا سنگ ہووے
ترجمہ: بھائیوں کے بغیر کمر خالی ہو جاتی ہے چاہے آپ کا ساتھ دینے کے لیے پورا قبیلہ ہی کیوں موجود نا ہو۔
ایک اور جگہ میاں صاحب نے فرمایا کہ۔۔۔
بھائی بھائیاں دا درد ونڈاندے
بھائی بھائیاں دیاں بانہواں
باپ سراں دے تاج محمد
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔۔
ترجمہ: بھائی ہی بھائیوں کا درد بانٹتے ہیں۔ اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کے بازو بنتے ہیں۔ باپ کا درجہ سر کے تاج کی مانند ہے جبکہ مائیں زندگی کی گھنیری دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ باپ کے بعد اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا سہارا ایک بھائی ہی بنتا ہے۔ ہر مشکل وقت میں کام آنے والا اور ہر دشمن کے آگے سینہ سپر ہو کر حفاظت کرنے والا بھائی۔۔۔ دنیا کا ایک ایسا انمول رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی ایک ایسے ہی انسان تھے جنہوں نے منجھلے ہونے کے باوجود ساری زندگی اپنے سے بڑے اور چھوٹے بہن بھائیوں کی اس طرح سے رکھوالی اور خدمت کی کہ غیر بھی پکار اٹھے کہ۔۔۔ بھائی ہو تو ایسا ہو۔ انہوں نے اپنی خوشیوں کو تیاگ کر بھی اپنے بہن بھائیوں کی خوشیوں کو خود سے مقدم جانا۔
عبدالرزاق کھوہارا شہید نے بحیثیت ایک مثالی بھائی کے اپنے خاندان کے لیے ایک ایسی شخصیت کا کردار ادا کیا جو کئی گھرانوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس دن وہ اس فانی دنیا سے گئے تو تایا جان نے یہ روح فرسا خبر سن کر شکستہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
“لوگوں کی دیواریں گرتی ہیں ہمارا تو پورا مکان ہی ڈھے گیا۔ پورے خاندان کی بنیاد ہی زمیں بوس ہو گئی”
یہ الفاظ ایک غم زدہ بھائی کے ہی الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی گزری زندگی کی عکاسی کرتے ہیں جس کے بغیر کوئی بھائی اور کوئی بہن ایک دن بھی گزارنے کا سوچ نہیں سکتا۔
عبدالرزاق کھوہارا شہید اپنے ماں باپ کی منجھلی اولاد تھے یعنی چھ بہن بھائیوں میں ان کا چوتھا نمبر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑی یا سب سے چھوٹی اولاد ماں باپ کو زیادہ پیاری لگتی ہے لیکن منجھلے ہونے کے باوجود وہ اپنے ماں باپ ہی نہیں بلکہ اپنے سب بہن بھائیوں کی آنکھ کا تارا تھے۔ انہوں نے زندگی کا آغاز انتہائی نامساعد حالات میں کیا۔ لیکن پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر نا صرف خود کو بلکہ پورے خاندان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔
والد محترم نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے بڑے بھائی اور باپ کو زندگی کی بقاء کی کٹھن جنگ لڑتے دیکھا۔ اسی بناء پر اعلی تعلیم کی بے پناہ خواہش ہونے کے باوجود اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر اپنے والد اور بھائی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ نا صرف خاندان اور اولاد کو آسودہ حال کیا بلکہ اپنے بڑے بھائی کی اولاد یعنی اپنے بھتیجوں کی تربیت کر کے معاشرے کا زمہ دار شہری بننے میں مدد فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی برسر روزگار ہونے میں مدد کی یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ پورے خاندان کے پاس ضروریات زندگی سے بڑھ کر تمام تعیشات زندگی بھی دستیاب تھیں۔
یہاں پر والد صاحب کے چھوٹے بھائی یعنی میرے چچا جان کو نوکری پر لگوانے کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نا ہو گا۔ ہوا کچھ یوں کہ چچا جان بچپن سے ہی فطرتاً لا ابالی اور کھلنڈری طبیعت رکھتے ہیں۔ تایا جان اکثر والد صاحب کو کہا کرتے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی کہیں نوکری لگوا دو تا کہ اس میں کچھ ذمہ داری آئے لیکن والد صاحب ٹال جایا کرتے کہ ابھی عمر ہی کیا ہے۔ چار دن عیش کر لینے دو۔
اس معاملے میں دادا جان بھی والد صاحب کے ہم خیال تھے۔ ایک دن دادا جان نے چچا کو ایک کوئی کام کرنے کو کہا۔ چچا اپنے روایتی موڈ میں اپنے کام سے لگے رہے۔ دادا جان نے بات کو دہرایا۔۔۔
“تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟”
چچا نے جواباً کہا۔۔۔ “نہیں”
دادا جان ایک بااصول انسان تھے اس موقع پر چپ ہو گئے۔ تاہم وہیں پر والد صاحب بھی موجود تھے جو یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ اگلے دن انہوں نے داداجان کو کہا کہ میں کچھ دنوں کے لیے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جا رہا ہوں تا کہ باہر کی دنیا گھوم پھر آئے۔ اور ساتھ لے گئے۔
دو ماہ بعد واپسی ہوئی تو چچا جان معروف ادارے کے ملازم کے روپ میں ڈھل چکے تھے۔ دونوں بھائی داداجان کے سامنے پیش ہوئے اور والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید نے کہا۔۔۔
“ابا جان۔۔۔ میں نے اسے بھرتی کروا دیا ہے۔ اب یہ اپنا کمائے گا اور اپنا کھائے۔ مجھے اس کی جانب سے آپ کو کی گئی “ناں” برداشت نہیں ہوئی۔ اگر آج اس کا یہ حال تھا تو آئندہ آنے والے وقت میں ناجانے اس کی بدتمیزی کیا رنگ لاتی اور یہ شاید اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بھی قابل نا رہتا۔ اس لیے بھرتی کروا آیا ہوں۔”
چچا جان کو بھرتی کروانے کے لیے والد صاحب نے کیا جتن کیے ہوں گے کیا پاپڑ بیلے ہوں گے یہ تو علم نہیں۔ البتہ اس ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک بھائی کی حیثیت انہیں کس طرح اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا اور کتنی دور اندیش نظر رکھتے تھے۔ بعد میں وہی چچا جان اپنی پوری سروس گزارنے کے بعد باعزت طور پر ریٹائر ہوئے اور اب اپنے بچوں کے ساتھ آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں۔
بہترین قوتِ فیصلہ، بروقت اقدام، دوراندیش نظر اور بارعب شخصیت کے باعث والد صاحب خاندان کے تمام فیصلوں پر اپنا اثر رکھتے تھے۔ بہن بھائیوں تو کیا ان کی اولادیں بھی جوان ہونے کے بعد اپنے کسی گھریلو فیصلے یا مسئلے کی صورت میں والد صاحب کی جانب رجوع کرتے اور والد صاحب جو فیصلہ فرما دیتے وہ سب کو من و عن قبول ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پورے خاندان کا نظام مثالی طور پر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہا تھا۔
ہمارے ہاں جب کسی کے ہاں اپنی اولاد ہو جائے تو وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں آزاد ہوتا لیکن والد محترم اپنی اولاد کے جوان ہونے اور اپنی آخری سانس تک اپنے بہن بھائیوں کے لیے بھی کڑے وقت میں ایک چھاؤں کا کردار ادا کرتے رہے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ان کے بھتیجوں بھانجوں پر کوئی افتاد آن پڑتی تو والد صاحب سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ ہو لیتے اور پھر جب تک مسئلہ حل نا ہو جاتا تھا تب تک اپنے گھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ والد صاحب کی ہمشیرہ جو کہ اوکاڑہ میں بیاہی ہوئی ہیں ان کے ہاں چوری ہوئی اور چور مویشی چرا کر لے گئے۔ ان دنوں والد صاحب اوکاڑہ کے قریب ہی اپنی ڈیوٹی کے سلسلے میں مقیم تھے۔ انہوں نے اپنی نوکری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن رات ایک کر کے معاملے کا اتنا پیچھا کیا کہ بالآخر ایک دن چور کا سراغ نکال ڈالا۔ اس سلسلے میں انہیں راوی کے مشہور اور طاقتور کھرل قبیلے کی دشمنی بھی مول لینا پڑی لیکن والد صاحب نے اس کی پرواہ نا کی۔ یہاں تک اپنی بہن کے گھر سے چوری شدہ جانوروں کو واپس لا کر باندھا اور تب جا کر سکون کا سانس لیا۔ اس عمل سے پورے علاقہ میں ہماری پھوپھو جان کے خاندان کی دھاک بیٹھ گئی۔
مشترکہ خاندانی نظام میں بہن بھائیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ لیکن عبدالرزاق کھوہارا شہید نے ایسے کسی قسم کے اختلافات کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں کبھی آڑے نہیں آنے دیا۔ شدید ترین اختلافات کے باوجود بھی انہوں نے کسی غیر کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ بہن بھائیوں کے آپسی اختلاف کیا ہیں۔ دشمنوں اور حاسدین کو یہ حسرت ہی رہی کہ وہ ان کے درمیان کسی اختلاف کی خبر پا سکیں لیکن ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔
عبدالرزاق کھوہارا شہید کی جانب سے بطور بھائی ایک لازوال اور مثالی کردار کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ تحریر کی طوالت کا خدشہ ہے۔ ان کے اس دنیا سے جانے پر چچا جان کے ادا کردہ ان الفاظ کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔۔۔
“بھائی نہیں گیا ہمارا دماغ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہماری سوچ ختم ہو گئی۔ ہمیں جو فیصلہ کرنا ہوتا اسی سے پوچھ لیا کرتے۔ اب کوئی سمجھ نہیں آتی کس جانب جائیں کیا کریں”
قارئین ایک مثالی بھائی کے مقام کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک عبدالرزاق کھوہارا شہید کے درجات بلند فرمائے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ پیار اور حسن سلوک کرنے والا مثالی بھائی بنائے۔ آمین
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}