۱-ایک بینک میں ایک پرانے شناسا کسٹمر آئے، کیئشیر کو بیس ڈالر کا ایک نوٹ دیا جو کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا اور کیئشیر کو نوٹ کا رنگ اپنے ہاتھوں پرلگتا ہوا دکھائ دیا۔ کسٹمر پرانے تھے زیادہ شک نہ کیا اور بعد میں نوٹ جعلی نکلا ۔پولیس کو اطلاع دی گئ، جب اس کسٹمر کے گھر کی تلاشی لی گئ تو وہ کچھ اور نوٹ بناتے ملے آور ساتھ میں تین انکے ہاتھ کی بنی پیینٹنگز بھی ملیں جو پانچ پانچ ہزار ڈالر میں بکیں۔ مصور کی مہارت اس قدر تھی کہ بنائے گئے نوٹ پر جعلی پونے کا گمان نہ ہوتا اور ایک بیس ڈالرکے نوٹ پراتنا ہی وقت صرف ہوتا جتنا ایک پینٹنگ پر لگتا۔ سمت کا تعین اگر درست ہوتا تو شاید صلاحیت کی چوری نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔
۲-دوسرا چور نوادرات کی چوری میں ماہر اور بہت مشہور تھا اور معاشرے میں ایک سٹیٹس سمبل کے طور پر اس قدر جانا جاتا تھا کہ ہر کوئ چاہنے لگا کہ وہ ان کے ہاں بھی چوری کرے اور وہ بھی شہر میں مشہور ہو جائیں کہ انکے ہاں بھی قیمتی نوادرات ہیں، وہ چور جب پکڑا گیا تو کسی نے اس سے پوچھا کہ تم نے آج تک کسی چوری پر افسوس بھی کیا تو اس نے کہا کہ اب مجھے سب سے زیادہ افسوس اپنے ہاں کی گئ چوری پر ھے۔ سب حیران ہوے اور کریدنے پر کہا کہ جو مہارت مجھے اب اس کام میں حاصل ھے اگر اسکا استعمال کسی درست سمت اور صحیح جگہ کرتا تو شاید میں آج چور نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔
۳-تیسرا چور آپ اور میں ہیں کہ اگر ہم کوئ کام پوری ایمانداری سے اور جانفشانی سے کرسکیں اور معاشرے کی بہتری میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے قابل ہوں اور نہ کریں تو ہم سب سے بڑے وہ چور ہیں جو اپنے ہاں ہی چوری کر ے اور اسپر افسوس بھی نہ کرے ۔۔۔۔۔
معروف مصنف اور موٹی ویشنل سپیکر ( Zig Ziglar) کی کتاب (SEE YOU AT THE TOP) سے متاثر ہو کر پاک ٹی ہاؤس لاھور میں بیٹھ کر آپ سب اور اپنے لیے لکھا اور ترجمہ کیا۔۔۔۔۔