اللہ تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام کے ظہور کا فیصلہ کیا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ایک مٹی خاک ہر قسم کی سرخ اور سفید اور سیاہ زمین سے لائیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی اور رنگ برنگی مٹی کی مٹھی زمین سے لیکر اللہ تعالی کے حکم سے طائف اور مکہ کے درمیان رکھی۔ اللہ تعالی نے اس مٹی پر اپنی رحمت کی بارش برسائی اور اپنی قدرت کاملہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلہ اس مٹی کے خمیر سے بنا دیا۔
چالیس برس تک وہ پتلہ قلب بےجان وہاں پڑا رہا اور جب اللہ تعالی نے چاہا کہ اب حضرت آدم علیہ السلام کا ظہور ہو تب روح کو حکم دیا کہ اس پتلے میں داخل ہو جائے روح لطیف نے خاک کثیف میں داخل ہونے سے انکار کیا مگر اللہ کے حکم سے سر کی طرف سے داخل ہوگئی۔ روح جیسے جیسے اندر پہنچتی گئی ٹھیکرے کی طرح مٹی کا پتلہ گوشت پوست میں بدلتا گیا اور جب روح سینہ مبارک تک پہنچی تو حضرت آدم علیہ السلام نے اٹھنے کا ارادہ کیا اور وہی زمین پر گر پڑے۔ اس بات کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں کیا ہے کہ انسان جلد باز پیدا ہوا ہے۔
اسی حالت میں حضرت آدم علیہ السلام نے چھینکا تو اللہ کے حکم سے الحمداللہ کہا اور اس پر اللہ تعالی نے جواب میں یرحمک اللہ کہا اور اس طرح اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی۔ جب روح مکمل جسم میں داخل ہو گئی تو اللہ تعالی نے ایک فرشتے کے ذریعے جنت سے ایک جوڑا کپڑوں کا زمین پر بھیجا اور فرشتے نے حضرت آدم علیہ السلام کو تنہائی میں لے جا کر کپڑے پہنوائے۔ اور اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے آدم علیہ السلام کو عزت کے تخت پر بٹھایا۔
سننے میں آیا ہے کہ فرشتے آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے آپس میں کہتے تھے کہ جس کو اللہ تعالی خاک سے بنا کر خلافت کی مسند پر بٹھائے گا وہ اللہ کے نزدیک ہم سے زیادہ عزیز نہ ہوگا اور ہم جو دن رات اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں اس سے عظیم ہی رہیں گے۔ مگر جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنا دیا اور اپنی رحمت سے انہیں کچھ نام سکھا دئیے تو آدم علیہ اسلام کو فرمایا کہ فرشتوں سے ان ناموں کے متعلق پوچھو۔
جب حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا تو وہ جواب سے عاجز ہوئے اور اللہ تعالی سے عرض کہ پاک ہے تو اور ہمیں صرف اسی چیز کا علم ہے جو تو نے ہمیں سکھایا ہے اور بے شک تو دانا ہے۔ تب اللہ تعالی نے فرشتوں کو جو حضرت آدم علیہ السلام کے گرد صفیں باندھے اور مودب کھڑے تھے کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو اور فرشتوں نے فورا سجدہ کر دیا مگر ابلیس شیطان نے انکار کیا اور بولا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تم نے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ اس نافرمانی سے شیطان اللہ کی بارگاہ سے نکال دیا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام آزادی سے بہشت میں رہنے لگے۔
جب حضرت آدم علیہ السلام نے تنہائی محسوس کی اور کسی محرم کے بارے میں سوچا تو اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے جب آدم سو رہے تھے تو انکے پہلو میں حوا کو پیدا کر دیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام بیدار ہوئے تو ایک پاکباز عورت کو پاس بیٹھے دیکھا تو پوچھا کہ تو کون ہے؟ تب حضرت حوا نے کہا کہ میں تیرے بدن کا حصہ ہوں اور اللہ تعالی نے مجھے تمہاری پسلی سے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے حضرت حوا کو اتنا حسین بنایا تھا کہ اگر تمام عالم کی خوبی سو حصے کریں تو نوے حصے حوا کو ملے اور دس حصے باقی عالم کو ملے۔ اس پر آدم نے اللہ تعالی کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا۔
اللہ نے آدم اور حوا کو فرمایا کہ جنت میں جہاں چاہے رہیں اور جو مرضی کھائیں مگر گیہوں کے درخت سے کچھ مت کھانا۔ دوسری طرف ابلیس اللہ کی بارگاہ سے نکالا گیا تھا اور حسد کی آگ میں جل رہا تھا اور کسی موقعے کی تلاش میں تھا کہ کیسے آدم اور حوا کو اللہ کی نافرمانی پر راضی کرے۔
ابلیس نے سب سے پہلے طاؤس سے دوستی کی اور اس سے درخواست کی کہ دوستی کا حق ہے کہ وہ اسے کسی طرح بہشت میں پہنچا دے تاکہ وہ آدم اور حوا سے اپنا بدلہ لے سکے طاؤس نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ وہ سانپ سے بات کرے تو ہو سکتا ہے وہ اسکی مدد کرے۔
تب ابلیس سانپ کے پاس گیا اور اسے اپنے فریب کے منتر سے فریفتہ کر دیا اور سانپ ابلیس کو اپنے منہ میں ڈال کر بہشت کے اندر لے گیا اور بہشت کے نگہبان کو اسکی مطلق خبر نہ ہوئی۔
ابلیس حضرت آدم اور حوا کے پاس بہشت میں گیا اور رونا شروع کر دیا آدم اور حوا نے شیطان کو بالکل نہیں پہچانا اور پوچھا کہ کیوں روتا ہے تب شیطان نے انہیں خبردار کیا کہ یہ بہشت کی ساری نعمتں ان سے چھن جائیں گی اور وہ مر جائیں گے اس بات پر آدم اور حوا دونوں غم زدہ ہوئے تب شیطان نے انہیں کہا کہ میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاتا ہوں کہ جسکا میوہ کھانے سے تم ہمیشہ زندہ رہو گے اور موت تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔
آدم کے پوچھنے پر شیطان انہیں اسی درخت کے پاس لے گیا جسکے بارے میں اللہ نے انہیں منع کیا تھا مگر آدم علیہ السلام نے اسے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ ہرگز اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ شیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں مگر آدم وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
شیطان حضرت حوا کے پاس گیا اور اسی طرح انکے دل میں وسوسہ ڈالا اور شیطان کے کہنے پر سانپ نے شیطان کی سچائی کی گواہی دی تو حضرت حوا آدم کے پاس تشریف لائیں اور عرض کی کہ سانپ تو بہشت کا خادم ہے اور وہ بھی ابلیس کے حق میں گواہی دے رہا ہے اسلئے میں پہلے اس درخت کا پھل کھاتی ہوں اگر کچھ غلط ہوا تو آپ اللہ سے میرے گناہوں کی معافی مانگنا اور اگر کچھ نہیں ہوا تو آپ بھی کھا لینا اور پھر ہم ساری زندگی چین سے جنت کے میوے کھائیں گے اور موت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اس طرح آدم اور حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ ممنوعہ کھانا کھا لیا جسے اللہ نے انہیں منع کیا تھا۔
کھانے کے بعد دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہو گئے اور وہ پتوں سے اپنا جسم چھپانے لگے اور اللہ تعالی اس بات پر ناراض ہوئے اور انہیں جنت سے نکال کر زمین پر پھینک دیا۔ بعد میں اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا کو معافی کی دعا سکھائی اور معافی مانگنے پر آنہیں معاف کر دیا۔ اور ایک عرصے تک انہیں زمین میں رہنے کا حکم دیا تاکہ انہیں مزید آزمایا جا سکے۔ اور بعد میں انکی اولاد میں سے جو اچھے ہوں انہیں ان کے آبائی گھر جنت میں واپس لیجایا جائے اور جو گناہگار ہوں انہیں جہنم میں ڈالا جائے۔
ہم سب کو اچھے کام کرنے چاہئیں اور شیطان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چائیے کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے اور اس نے ہمارے ماں باپ یعنی آدم حوا کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور وہ ہمیں بھی جنت میں جانے نہیں دے گا مگر ہم اللہ کے احکام پر چل کر اور اللہ کی خاص رحمت سے انشااللہ جنت میں ضرور پہنچ جائیں گے۔ انشااللہ