گزشتہ شام برٹش پارلیمنٹ کے اپوزیشن آفس میں متنوع کمیونیٹیز کی میڈیا نیٹ ورکنگ پر ایک استقبالیہ منعقد ہوا۔ برٹش لیبر پارٹی کے صدر اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نے استقبالیہ سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سویڈن سے آئے ہوئے سویڈش کشمیر کمیٹی کے جنرل سیکٹری سردار تیمور عزیز کشمیری اور اردونامہ ڈاٹ ای یو کے اڈیٹر ان چیف طارق محمود بھی مدھو تھے۔
برٹش پارلیمنٹ میں داخلے کیلئے مختصر سیکیورٹی چیکنگ کے بعد ایک خاتون ہماری منتظر تھیں جو ہمیں مختلف راہداریوں سے ہوتے ہوئے اپوزیشن آفس میں لے گئیں۔ مرکزی دروازے کیساتھ ہی مہمانوں کیلئے ویلکم ڈرنکس کا اہتمام کیا گیا تھا اور ساتھ دوسرے کمرے میں مختلف کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اون لائن بلاگرز اور میڈیا کی آزادی کیلئے کام کرنے والے خواتین و حضرات تشریف فرما تھے۔
جیریمی کوربن صاحب نہ صرف برٹش لیبر پارٹی کے صدر ہیں بلکہ برٹش پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں۔ اس حساب سے وہ وزیراعظم ٹریسا مے کیبعد اہم رہنما ہیں۔ تھوری دیر بعد ہی جیریمی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ وہ سادہ سا سوٹ پہنے شکل و صورت سے سادہ اور ملنسار نظر آتے ہیں اور ان میں غرور و تکبر نام کی کوئی چیزموجود نہیں تھی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں مختلف کمیونیٹیز میں میڈیا نیٹ ورکنگ کی اہمیت بیان کی اور مختلف زبانوں میں لکھنے والوں کو آپس میں ربط بڑھانے اور مجموعی طور پر معاشرے کے مختلف افراد کو آپس میں جوڑنے پر زور دیا تاکہ تمام کمیونیٹیز مل جل کر معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے مختلف زبانوں میں لکھنے والے صحافیوں اور بلاگرز سے درخواست کی کہ وہ اپنی تحریروں میں ملٹی کلچرل معاشرے میں مختلف کمیونیٹیز میں انٹیگریشن بڑھانے پر توجہ دیں۔
تقریر کیبعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جسمیں تیمور عزیز صاحب نے جیریمی کوربن کو کشمیر کا مسئلہ یاد دلایا اور کہا کہ انگریز ہی کشمیر کے مسئلے کو بغیر حل کیے چھوڑ کر آئے ہیں اور اگر مستقبل میں لیبر پارٹی کی حکومت آتی ہے تو وہ لیبر کے ہیڈ ہونے کیوجہ سے کشمیر کے مسئلے کو 1948 میں پاس شدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کروانے میں کیا کردار ادا کریں گے؟ اس موقع پر کافی تعداد میں انڈین برٹش بھی موجود تھے اور ایسی صورتحال میں
کشمیر پر دو ٹوک موعقف اختیار کرنا کمال حوصلے اور ہمت کا کام ہے۔ یہ سوال کمال جرات اور بہادری سے کیا گیا تھا جو کہ موقع کے لحاظ سے جیریمی کیلئے غیر متوقع تھا۔ مگر جیریمی نے اسکا جواب مثبت طور پر ہاں میں دیا۔ اور وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آنے کیبعد ضرور اس اہم مسئلے پر کام کریں گے۔