اسٹاک ہوم سٹڈی سرکل کے تحت ہر ماہ ایک علمی، دینی اور فکری نشست منعقد ہوتی ہے جس میں دور حاضر کے مسائل کو قرآن حکیم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ دس سال سے جاری ہے اور اس کی میزبانی عارف محمود کسانہ کرتے ہیں اور ان کی رہائش گاہ پر ہر ماہ باقاعدگی سے درس قرآن کی یہ نشست منعقد ہوتی ہے۔سویڈن میں مقیم پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اہل علم ان نشستوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ہر نشست میں کسی ایک موضوع کو منتخب کرکے قرآن حکیم سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے گویا تصریف آیات سے اس کتاب عظیم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے کی کوشش جاری ہے۔
صحیح اور احسن احادیث نبوی ؐ اور فکر اقبال سے آگاہی بھی اس میں شامل ہے۔ اس ماہ سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی 106 ویں نشست حسب معمول جناب عارف کسانہ کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں سٹاک ہوم سویڈن سے قرآن اور اسلام سے محبت رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
عارف کسانہ ہمیشہ فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر قرآن کا مفہموم اور فہم بیان کرتے ہیں اور سننے والوں کو نشست کے آخر میں ہر دفعہ کچھ نئی باتوں سے آگاہی ہوتی ہے اور اس طرح ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔اسوہ حسنہ اور محبت رسول اکرم صلی اللہ وسلم گفتگو اور بیان کی بنیاد ہوتا ہے۔ حالیہ ہونے والی نشست میں قرآن مجید کی سورہ المدثر کی آیات 16 سے 30 تک کی تفسیر اور ترجمہ بیان کیا گیا۔ ان آیات میں اس انقلاب عظیم کی جدوجہد اور اس کا انکار کرنے والوں کے انجام کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ شرکا نے نہایت انہماک کے ساتھ بیان کو سنا۔ درس قرآن کے بعد عارف کسانہ نے چند بہت اہم احادیث مبارکہ بیان کیں جن کا تعلق اسوہ حسنہ سے ہے اور جنپر عمل کرکے ہم اپنے اخلاق و کردار کو بہت بلند مقام پر لے جاسکتے ہیں اور یورپی معاشرہ میں رہتے ہوئے اس کیاہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر نشست کی طرح اس نشست کے آخر میں راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن میں تمام شرکاء نے اپنی اپنی آراء بیان کیں اور سوالات کیئے۔ علمی اور تحقیقی انداز گفتگو اور مثبت بحث سے بہت سی اہم اور نئی معلومات سے شرکاء آگاہ ہوئے۔
سوال و جواب کی نشست میں حاضرین محفل نے بہت دلچسپی کیساتھ حصہ لیا ۔
شرکاء اس بات پر متفق نظر آئے کہ دین سمجھنے کیلئے قرآن کو پیمانہ سمجھا جائے اور احادیث کو قرآن کے پیمانہ پر پرکھا جائے اور وہ احادیث بیان کی جائیں جو قرآنی تعلیمات پر پوری اتریں اور جن میں نبی صلی اللہ وسلم کی شان پر حرف نہ آئے۔ کیونکہ احادیث کی کتب نبی پاک صلی اللہ وسلم کی وفات کیبہت مدت بعد لکھی گئیں تھیں اور ان میں کچھ احادیث صحیح اور احسن ہیں جبکہ ضعیف اور کمزور بھی ہیں مگر اسکے برعکس قرآن کی حفاظت کا قیامت تک اللہ کا وعدہ ہے اور قرآن کسی ایک آیت یا لفظ میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ موجود دور میں قرآن کو تھام کر ہی ہم ہر قسم کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔اس موقع پرممتاز ماہر تعلیم، دانشور اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری صاحب کے ایک حالیہ کالم ” خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے” پر مختصرا نظر ڈالی گئی۔ اس کالم میں پروفیسر صاحب نے ان شاعروں ،مولویوں اور فلاسفروں کے بارے میں حقائق بیان کئے ہیں جو غیر حقیقی اور غیر منطقی باتیں کر کے ہمارے معاشرے میں انارکی پھیلا رہے ہیں۔ کالم میں عقل عیار اور عقل سلیم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور روایتی مولویوں اور فلاسفروں کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے کہ دونوں مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔ عقل عیار رکھنے والے مولوی اور دانشور غیر منطقی باتیں کر کے تعصب پھیلاتے ہیں جبکہ عقل سلیم رکھنے والے فلاسفر اور دانشور تعصب سے گریزپا اور جادو امن و انسانیت کے رہنما ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو قسم کے طبقات ہیں اوّل وہ جو ایمان بالغیب اور مذہب کو عقل کے ترازو پر تولنے کو کفر گردانتے ہیں اور دوم وہ جو ایمان باالعقل کے قائل ہیں اور اسلام کی ہر بات کو مبنی باالعقل مانتے ہیں اور دلیل و استدلال سے دینی مسائل میں اجتہاد کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں غیر منطقی اور غیر حقیقی سوچ رکھنے والوں اور ایمان باالعقل کا نظریہ رکھنے والے کا موازنہ کیا گیا۔نشست میں ایشین اردو سوسائیٹی کے صدر اور سویڈن کے معروف شاعر جمیل احسن کے بڑے بھائی اور پاکستان کے نامور خطاط ابن کلیم احسن نظامی کی وفات پر اظہار تعزیت کیا گیا اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ آخر میں حاضرین محفل کے لئے حسب معمول چائے اور اس کے ساتھ لوازمات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تمام شرکاء نے اس نشست کو بھی بہت مفید قرار دیا۔
317