اقوام متحدہ انسانی ترقی کے حوالے سے پر امید ہے کہ سال 2030 میں دنیا کے ہر انسان کو خوشحالی اور ترقی کے ثمرات ملیں سکیں گے۔ اس امید کا اظہار انسانی ترقی کی سالانہ کارکردگی برائے سال 2016 کی رپورٹ کے سٹاک ہوم میں اجراء کے موقع پرمنبدوبین نے کیا۔
سویڈش وزیراعظم سٹیفن لوفوین، نائب وزیراعظم ایسا بیلا لوین ، سفارتی نمائندوں اور اقوام متحدہ کے اعلی حکام تقریب میں موجود تھے۔ تقریب کے بعد پریس کانفرس میں راقم نے سوال کیا کہ جب تک جموں کشمیر، فلسطین اور برما میں انسانی حقوق کی پامالی نہیں رکتی اور ان لوگوں آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع نہیں ملتا تو دنیا میں انسانی ترقی و خوشحالی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا۔مندوبین کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
دوسری جانب پاکستان میں انسانی ترقی اور خوشحالی کے لئے جو عظیم کام ایک فرد نے شروع کیا تھا وہ اب ایک عظیم تحریک بن چکا ہے۔یہ پاکستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے چار سوسے زائد شہروں اور قصبوں میں پھیل گیا ہے اور اس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہورہی ہے ۔ہاروڈ، کیمرج اور آکسفورڈ جیسی دنیا کی صف اول کی جامعات کے ماہرین اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔انسانی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر انتہائی غریب لوگوں کو قرض حسنہ ان کی دہلیز پر دیئے جارہے ہیں۔ مائیکرو فنانس کے اس منصوبہ میں قرضہ حاصل کرنے والے سے کسی قسم کے سروس چارجز بھی نہیں لئے جاتے اور مارک اپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس اعتبار سے یہ بنگلہ دیش کے گرامین بینک سے بھی بہتر ہے۔ یہ محض ایک ادارہ یا این جی اور نہیں بلکہ ایک نظریہ اور تحریک ہے جس کی بنیاد مواخات مدینہ کی درخشاں روایت اور تعلیم و تربیت پر ہے۔ یہ رنگ و نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر انسانی خدمت کی جدوجہدہے۔ اس کا بنیادی نقطہ اسلام کی تعلیم کہ کوئی انسان کسی دوسرے کا معاشی استحصال نہ کرے اور اپنا مال دوسروں کے لئے کھلا رکھے۔ اس کی بنیاد قرآن حکیم کی ربو ٰا کے بارے تعلیمات پر ہے کہ معاوضہ صرف محنت کا ہے سرمائے کا نہیں۔ نظام سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں سے انسانیت کو نجات دلانے کا جو حیات آفرین پیغام فاران کی چوٹیوں سے بلند ہوا، آج دنیا کے مفکرین بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں یہی وجہ ہے کہ دور حاظر کے مایہ ناز سائنس دان اور عظیم دانشور پروفیسر اسٹیفن ہاکینگ کے دل سے بھی ایک چیخ نکلی ہے کہ ا نسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ روبوٹ نہیں بلکہ نظام سرمایہ داری ہے۔اخوت بینک نے دنیا کے اقتصادی ماہرین کو بتا دیا ہے کہ سود کے بغیر بھی قرضے دیئے جاسکتے ہیں۔ نقطہ شرح مبین پر عمل نے قرض لینے والے کو دینے والا بنا دیا ہے اور اس سے سترہ لاکھ سے زائد افراد فائدہ اٹھا کر باعزت اور خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ اخوت بینک کی داستان ہے جو دنیا میں قرض حسنہ دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے بانی ڈاکٹر محمد امجد سے ان کے حالیہ دورہ میں سٹاک ہوم میں ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔
سویڈن میں پاکستان کے سفیر جناب محمد طارق ضمیر انسان دوست اور درد دل رکھنے والی شخصیت ہیں۔ وہ انسانی خدمت او رفلاح و بہبودکے کئی منصوبوں میں ذاتی طور پر شریک ہیں اور اخوت کی تحریک کے ساتھ آغاز ہی سے منسلک ہیں اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے ذاتی دوست ہیں ۔انہوں نے کئی بار اخوت بینک کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور انہی کے توسط سے ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے 1982 میں کنگ ایڈوڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا اور بعد ازاں 1985 میں سی ایس ایس کرنے کے بعدڈی ایم جی میں شمولیت اختیار کی جسے اب پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS کہا جاتا ہے۔ کوئی معمولی سی نوکری نہیں چھوڑتا لیکن انہوں نے اہم اور پرکشش ملازمت کو خیر آباد کہہ کر خدمت خلق کا راستہ اپنایا۔ انسانیت کی خدمت کا یہ عظیم سفر ایک خاتون کی جانب سے دس ہزار قرض حسنہ سے شروع ہوا جو اب سینتیس ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مذکورہ خاتون نے جب قرض واپس کیا اور کہا کہ اسے کسی اور مستحق کو قرضہ حسنہ کی صورت میں دے دیں جس سے یہ تحریک شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا اخوت بینک کی بدولت لاکھوں لوگ اب اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے پاکستان سے غربت ختم کردی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم نے غریبوں کو احساس دلایا ہے کہ وہ اس معاشرے میں اکیلے نہیں۔ ہم نے انہیں عزت نفس دی ہے اور قرضہ حاصل کرنے والے بعد میں خود دینے والے بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا رسول اکرم ؐ نے صدقہ کی دس نیکیاں بتائی ہیں جبکہ قرض حسنہ کی اٹھارہ نیکیاں ہیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر امجد کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ستارہ پاکستان کے اعزاز عطا کیاہے۔ پاکستان میں بے ایمانی، کرپشن اور فراڈ کی ظلمت کی باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن کیا یہ کسی طلوع سحر سے کم ہے کہ قرضہ واپس کرنے کی شرح 99.94 فی صد ہے۔ غربت کے اندھیرے دور کرنے کے ساتھ ساتھ وہ جہالت کی اندھیرے دور کرنے کے لئے اخوت یونیورسٹی قائم کررہے ہیں جس میں غریب طلبہ نہ صرف مفت تعلیم حاصل کریں گے بلکہ انہیں قیام و طعام کی بھی سہولت ملے گی۔ اس کار خیر میں ہر کوئی حصہ لے سکتا ہے اور ایک ہزار روپے سے یونیورسٹی میں ایک اینٹ لگا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں آپ کہیں بھی مقیم ہوں اخوت کی ویب سائیٹ www.akhuwat.org.pk کے ذریعہ اپنے عطیات دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک اور اہم منصوبہ بتایا جو شائد پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد منصوبہ ہو اور وہ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود ، انہیں ملازمتیں فراہم کرنے اور وظائف دینے سے متعلق ہے۔ انہیں نے بتایا کہ معاشرہ کے ان ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو باعزت مقام دینے کے لئے اخوت کام کررہی ہے اور بہت سے خواجہ سرا اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ استعمال شدہ کپڑوں کو مرمت اور دھلائی بعد مستحق لوگوں میں مفت تقسیم کیا جارہا ہے جس سے غریب عوام کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔اسی طرح ایک اور تنظیم سکون ہے جو ناروے میں مقیم شاہد جمیل کی رہنمائی میں کام کرہی ہے اور پاکستان میں چلنے پھرنے سے معذور افراد کو وہیل چئیر مفت ان کے گھر پرمہیا کرتی ہے۔ پاکستان کے معروف تجزیہ نگار اور صحافی جناب ہارون رشید سکون کے تحت ناروے ، سویڈن اور ڈنمارک میں ہونے والے امدادی پروگراموں میں شرکت کے لئے آرہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں پاکستان انفارمیشن اینڈ کلچرل سوسائیٹی سویڈن کے زیر اہتمام ایک بڑا عوامی اجتماع سٹاک ہوم کے علاقہ فتیا میں ۸ اپریل کو منعقد ہوگا۔ جو قوم دنیا میں سب سے زیادہ فلاحی کاموں میں رقم دینے والی ہو اور جہاں ایدھی، اخوت، سکون اور ایسی بہت سی اور تنظیمیں انسانیت کے لئے کام کررہی ہوں اس قوم کا مستقبل کیوں درخشاں اور خوشحال نہ ہوگا۔
افکار تازہ
خوشحال پاکستان کیلئے اخوت کا کردار
عارف محمود کسانہ