355

اندھے عقیدت مند۔ Blind Followers

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف آل مخلوقات بنایا ہے اور اسے عقل سلیم عطا کی ہے اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اچھے بڑے کی تمیز سکھائی ہے اور کچھ لکیریں کھینچی ہیں جنہیں پار کرنا منع قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ انسان اللہ کا کتنا فرمانبردار ہے اور اسی فرمانبرداری پر قیامت کیبعد جنت دوزخ کا فیصلہ رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور سب نے ایک اللہ کی عبادت اور اللہ ہی سے مانگنے کی بات کی۔ قرآن پاک کی پہلی سورت سورۂ فاتحہ جو ہر مسلمان ایک دن کی پانچوں نمازوں کی ہر رکعت میں ضرور پڑھتا ہے اسکی آیت نمبر 4 میں یہ بات صاف طور پر بیان کی گئی ہے کہ۔۔۔

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔)

یعنی عبادت بھی صرف اللہ کی اور مدد بھی صرف اللہ سے۔ اسکا مطلب یہ ہوا جو مسلمان دن میں لاتعداد مرتبہ نماز میں یہ آیت پڑھتا ہے اور اسکے باوجود وہ مدد قبروں میں پڑے مردوں یا پیروں اور گدی نشینوں سے مانگتا ہے وہ منافق ہے۔

نقلی پیر، عاملین، متولیوں اور گدی نشینوں نے پاکستان میں مسلمانوں اور اسلام دونوں کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اسلام آنے سے پہلے انڈیا میں لوگ بت پرستی کرتے تھے اور وہ اعلی اور ادنی ذاتوں میں بٹّے ہوئے تھے یہاں اسلام مسلمان عرب تاجروں اور افغانستان و ایران سے آئے نیک مسلمانوں کیوجہ سے آیا اور لوگ مسلمان تو ہو گئے مگر انہوں نے ہندوؤں کے بتوں کو چھوڑ کر انہیں نیک لوگوں کی آندھی عقیدت کرنی شروع کر دی جنکی وجہ سے وہ مسلمان ہوئے تھے۔ اسی آندھی عقیدت کیوجہ سے ان نیک لوگوں کی وفات کیبعد انکی قبروں کو حاجت روائی کیلئے عبادت گاہ بنا لیا گیا۔

انڈیا میں بت پرستی سے مسلمان ہونے والے کچھ لوگوں نے اسلام میں آ کر بھی ذات پات نہ چھوڑی اور اپنے آپ کو سید یعنی نبی پاک کی آل کہلوانا شروع کردیا اور پیری مریدی اور شخصی آندھی عقیدت کی ایسی بنیاد رکھی جس نے وقت گزرنے کیساتھ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وقت گزرنے کیساتھ پیروں کے بے شمار سلسلے شروع ہو گئے اور بیشمار مزار اور مقبرے بنا دیے گئے۔ لوگ تقلید اور عقیدت میں اتنے اندھے ہوئے کہ جہاں نیک بندے کی قبر دیکھی وہاں مسجد بھی بنا لی تاکہ نماز کے بہانے سجدے بھی قبر کے پاس کرسکیں۔ ان لاتعداد قبروں پر بیشمار گدی نشین مجاور اور متولی بن گئے۔ یہ کام دیہات اور شہروں دونوں جگہ ہو رہا ہے مگر گاؤں میں چونکہ جہالت زیادہ ہوتی ہے اسلئے گاؤں کے ایسے درباروں پر دیہاتی لوگ اپنے مالی اور سماجی مسائل کے حل کے لئیے منتیں مانتے ہیں اور سالانہ عرس اور میلوں میں مریدین کی طرف سے اپنے پیر یا گدی نشین کی خدمت میں نقد رقوم اور دیگر اجناس کی شکل میں چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ اسلئے کسی دربار کے گدی نشینی یا متولی کا عہدہ انتہائی پر کشش ہو جاتا ہے۔ اور دیہاتی لوگ انپڑھ ہونے کیوجہ سے عموماٌ اپنے پیر کے احکامات اور باتوں کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سرگودھا کی حدود میں واقع ایک گاؤں میں دربار کے متولی نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ڈنڈے اور چاقوؤں کے وار کر کے 20 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے بتایا کہ متولی نے ایک ایک کر کے تمام لوگوں کو بہانے سے وہاں اکٹھا کیا اور ان کو ڈنڈے مار کر قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق 20 لوگوں کے قتل کے پیچھے بظاہر گدی کا معاملہ لگتا ہےجبکہ دربار کے متولی نے پولیس کے سامنے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ان لوگوں کو اس لیے قتل کیا کہ وہ سب اس کو زہر دے کر مارنے کی سازش کر رہے تھے اور دربار کی گدی پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ ایک پولیس اہلکار کے مطابق متولی نے یہ بھی کہا کہ میں نے ان افراد پر تشدد ان کی مرضی اور اصرار پر کیا اور ڈنڈے لگنے سے ان کے گناہ معاف ہوئے اور وہ جنت میں چلے گئے۔
لوگ جہالت، بے حسی اور آندھی عقیدت میں اتنے غرق ہیں کہ کسی نے پولیس کے سامنے مدعی بننے کی کوشش بھی نہیں کی جسکی وجہ سے کیس کمزور ہو گیا اور وہ متولی جلد چھوٹ بھی جائے گا۔ اور اس عظیم دہشت گردی کے باوجود اس پیر کے سارے عقیدت مند یہ سمجھ رہے ہیں کہ مرنے والے امر ہو گئے ہیں اور اللہ کو یہی منظور تھا اسلئے پیر نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا ہے۔

جب انسان اللہ کو چھوڑ کر آوروں کی عبادت کرنا شروع کر دیتا ہے اور ان سے مدد مانگنا شروع کر دیتا ہے تو اسکا یقین اللہ کی بجائے مزاروں کے مردوں پیروں مجاوروں اور گدی نشینوں پر پختہ ہو جاتا ہے اور وہ دن میں کئی دفعہ اللہ ہی کی عبادت اور اللہ ہی سے مدد مانگنے کی گردان پڑھنے کے باوجود مدد پیروں ہی سے مانگتا ہے اور منافق عظیم بن جاتا ہے۔

( تحریر طارق محمود اڈیٹر انچیف اردونامہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں