ڈروٹننگ گاٹن میں ٹرک حملے سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف غلط خبروں اور افواہوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔
سویڈن کے سب سے بڑے اخبار ڈی این میں صحافی کرسٹوفر اہلسٹروم نے اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر پھیلی افواہیں، غلط خبریں اور تصاویر کو اپنے آرٹیکل میں شائع کیا ہے۔
جمعہ کی سہ پہر کو مرکزی سٹاک ہوم میں ٹرک حملے کے فورا بعد انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا میں بہت سی خبریں اور تصویریں گردش کرنے لگیں ان میں سے کچھ تصویروں کو ہیرا پھیری اور جان بوجھ کر گمراہ کن طریقے سے تبدیل کر لیا گیا تھا تاکہ موقع کا فائدہ اٹھا کر اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
سویڈن کے اخبار ایس وی ٹی نے سویڈش چرچ کے پادری سے حملے کے بعد ایک انٹرویو کیا جسمیں پادری نے کہا کہ ہمیں اس قسم کے خوفناک حملوں کو ہمیں معاف کر دینا چائیے۔
سویڈن ڈیموکریٹ جماعت جو امیگرینٹس مخالف جماعت ہے اور مسلمانوں کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے۔ اس جماعت کے سیکریٹری ریچرڈ جومشوف نے پادری کے معاف کردینے والے فقرے کو سوشل سائیٹ ٹویٹر پر کوٹ کیا اور نیچے لکھا کہ نہیں ہم معاف نہیں کریں گے۔
سویڈش چرچ نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے پادری کے اس بیان کا انکار کیا ہے۔ اسکا مطلب ہے رچرڈ جومشوف نے پادری کا بیان بھی خود بنایا تھا اور اس پر تبصرہ بھی خود ہی کیا تھا۔ رچرڈ نے بعد میں اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا مگر اس دوران یہ پہلے ہی 300 سے زیادہ دفعہ ری ٹویٹ ہو چکا تھا اور 650 لوگوں نے اسے لائک بھی کردیا تھا۔
ایک اور تصویر جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی اسمیں سٹاک ہوم ڈروٹننگ گاٹن میں ایک منظر دکھایا گیا ہے کہ کپڑے سے ڈھکی لوگوں کی لاشیں گلی میں پڑیں ہیں اور ساتھ سے ایک حجاب پہنے مسلم عورت بے نیازی سے گزر رہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حقیقت میں وہ عورت اس تصویر میں نہیں تھی بلکہ 22 مارچ کو لندن میں ایک کرائم سین کے پاس سے وہ عورت گزر رہی تھی۔ کسی نے افواہ پھیلانے کیلئے اسے اس تصویر سے اٹھا کر سٹاک ہوم والی تصویر میں لگا دیا تاکہ مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے۔
ہاتسائتن اوپکسلت نامی آدمی نے اپنے ایک آرٹیکل میں سویڈن میں رہنے والے ایک 38 سالہ آدمی کی تصویر لگا دی اور لکھا کہ یہ دہشت گرد ٹرک حملے والا ہے مگر حقیقت میں حملہ کرنے والا 39 سالہ کوئی اور تھا۔ جس بندے کی غلط تصویر لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اس نے دھمکیوں کے ڈر سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کر دیے اور ڈرتا وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہا۔
کسی نے فیس بک پر لکھا کہ تین آدمیوں نے ٹرک سے باہر چھلانگ لگائی اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور لوگوں کے پیٹ میں چاقو مارنے شروع کر دیے۔ یہ ٹوٹل غلط خبر تھی اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ملا مگر یہ ابھی تک فیس بک پر موجود ہے۔
پولیٹکس فیکٹس نامی ٹویٹر اکاؤنٹ سے سویڈش ٹی وی فور کے نشان کیساتھ ایک تصویر پوسٹ کی گئی جسمیں ایک چھوٹا بچہ دکھایا گیا جو انگوٹھا اوپر کر کے دکھا رہا تھا۔ جس سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان کیمرے کے سامنے اس واقعے کے بعد خوشیاں منا رہے ہیں۔
فریڈرک واس Business Environment Watchers نامی سویڈش میگزین میں لکھتے ہیں کہ غلط خبریں ہمیشہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی جاتیں ہیں اور انکا مقصد ایک پروپیگنڈا پھیلا کر اپنی مرضی کے مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہ وہ افواہیں تھیں جو کچھ لوگ پھیلا رہے تھے مگر حقیقت میں اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور اس میں ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے اور جس مذہب میں چرند پرند جانوروں اور انسانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہوں وہ معصوم لوگوں کو مارنے کا کیسے کہہ سکتا ہے۔ سویڈن میں لاکھوں مسلمان کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں اور اب انکا کا جینا مرنا سویڈن کے ساتھ ہے اور انہوں نے سویڈن کی ترقی میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے اور وہ بھی اس واقعے سے اتنے ہی غمزدہ ہیں جتنے کہ وہ جو مسلمان نہیں ہیں۔ سویڈن ہمارا پیارا ملک ہے اور ہمیں ہر قیمت پر اسے پرامن رکھنا ہے اسکے لئے ہمیں مل جل کر معاشرے کے اب بیمار ذہنوں والے لوگوں کی نشان دہی کرنی چاہئیے اور پولیس اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کی مدد کرنی چاہئیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
خبر کا ذریعہ سویڈش اخبار ڈی این کا لنک
http://www.dn.se/kultur-noje/sa-utnyttjas-attacken-i-stockholm-for-att-sprida-propaganda-i-sociala-medier
link kaam nahi kar raha dn ka
میں نے خود ہی لنک کو ایکٹو نہیں کیا تھا اور صرف حوالہ کے لئیے دیا تھا۔ بہرحال اب لنک کام کر رہا ہے۔ خبر پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا شکریہ