Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
384

کرپٹ حکمران حدیث کی روشنی میں۔ Corrupt Ruler in the light of Hades

رسول اللہ صلی اللہ وسلم  نے قبیلہ ازد کے ایک شخص ابن اللُّتْبِیة کو صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ جب وہ لو ٹ کر آیا تو کہنے لگا کہ یہ مال آپ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفے میں ملا ہے۔ یہ بات سن کر آپ جلال میں آگئے اور منبر پر تشریف فرما ہوکر اللہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد فرمایا:

“اس تحصیلدار کا کیا حال ہے جسے میں (صدقات کی وصولی کے لئے) متعین کرتا ہوں پھر وہ کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے او ریہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتے کہ اسے کوئی ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ (یعنی اگر اس وقت بھی جب سرکاری کام نہ ہو کوئی ہدیہ دیا کرتا ہو تو اس کا ہدیہ کام کے بعد بھی درست ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس نے یہ ہدیہ دباؤ سے دیا ہوگا یا کسی اور ناجائز غرض کی خاطر دیا ہوگا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد اکی جان ہے کوئی تم میں سے ایسا مال نہ لے گا مگر قیامت کے دن اپنی گردن پر لاد کر اسے لائے گا۔ اس طرح حاصل کیا ہوا اگر اونٹ ہوگا تو وہ بڑبڑا رہا ہوگا۔ گائے ہوگی تو چلا رہی ہوگی۔ بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور فرمایا: “یااللہ! میں نے تیرا حکم لوگوں تک پہنچا دیا”

حوالہ حدیث، مسلم، کتاب الامارة، باب تحريم هدايا العمال (اس باب میں سات ہم مضمون احادیث موجود ہیں) جلد سوم، صفحہ ۱۴۶۳ تا۱۴۶۴، حدیث ۱۸۳۲…ابوداؤد، سنن، کتاب الخراج الامارة، باب فی ارزاق العمال، حدیث ۱۱۷۳

اس حدیث کے متعلق ایک روایت کے اندر اس بات کی تفصیل موجود ہے کہ انہوں نے خود آکر اس مال کی
نشاندہی کردی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش فرما دیا
تھا کہ یہ مال مجھے ملا ہے اور یہ مال سرکار کا ہے۔ اس سے ان کی بدنیتی کی
بجائے نیک نیتی ظاہر ہورہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی نیت میں کوئی خرابی ہوتی
اور وہ یہ ہدایا چھپانا چاہتے ہوتے تو اس مال کا ذکر قطعاً نہ کرتے جو
انہیں ذاتی حیثیت میں ملا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ لوگوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے
عقیدت تھی اور وہ اسی بنا پر انہیں ہدایا اور تحائف دینا باعث ِثواب
سمجھتے تھے۔ یہ تحائف دینے والوں نے بھی اسی نیت سے دیئے تھے او رلینے والے
کی نیت بھی صاف تھی۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیت کے مسئلے سے
قطع نظر آئندہ کے لئے کسی طرح کی بدعنوانی کے انسداد کے لئے ہر سوراخ کو
بند فرما دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں