گذشتہ سال 26 اپریل کو جدوجہد آزادی کشمیر کے ایک عہد کا اختتام ہوا جب جناب امان اللہ خان پچاسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ اپنے مادر وطن کی آزادی اور مختاری کے لئے ان کی جدوجہد کا اعتراف اُن کے نظریاتی مخالفین کو بھی ہے۔ اس طویل جدوجہد انہوں نے اپنے اصول نہ بکنے، نہ جھکنے اورنہ رکنے کی عملی تصویر پیش کی۔ اُن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب نہ کوئی کشمیر کے ٹکڑے کرسکے گا اور نہ ہی کشمیری عوام کی منشا کے بغیر کوئی حل ممکن ہوگا۔
وہ ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیوں کے درمیان ایک پل اور رابطہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وادی کشمیر ہو یا جموں، آزادکشمیر ہو یا گلگت بلتستان، ہر جگہ ان کا نظریہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیااور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری جدوجہد آزادی سے وابستہ ہیں ۔ ریاست جموں کشمیر میں جاری موجودہ تحریک آزادی1988 میں ان کی قیادت میں ہی شروع ہوئی ۔ جسمانی طور پر تو وہ آج موجود نہیں لیکن وہ ہر کشمیری کے دل میں بستے ہیں۔ وہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے داعی تھے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان سے اُن کی محبت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی اور وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم کا وہ بہت احترام کرتے تھے اور اُنہیں اپنے لئے مشعل راہ قراردیتے تھے۔ و ہ قا ئد اعظم کی کشمیر پالیسی کی روشنی میں اپنے خود مختاری کے نظریہ کی وضاحت کرتے تھے ۔ اُن کی قیادت میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تحریک آزادی کشمیر کا ہروال دستہ بن گئی۔ پاکستان کی اکثر حکومتوں کے ناروا سلوک اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود انہوں نے مملکت پاکستان یا نظریہ پاکستان کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا ۔ وہ حکومت اور ریاست کے فرق کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور یہی درس انہوں نے اپنے کارکنوں کو دیا۔ انہوں نے ایک عام آدمی کی طرح اپنی زندگی کی جدوجہد کی اور ہر طرح کے نامساعد اور مشکل حالات میں ہمت نہیں ہاری۔ اُن میں کچھ ایسی خوبیاں تھیں جو دورحاضر کے بہت سے سیاسی رہنماؤں اور سرکردہ شخصیات میں مفقود ہیں۔ اُن سے میری پہلی ملاقات 1986ء میں لاہور میں ہوئی تھی۔
اس پہلی ملاقات کے بعد پھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور ان سے ہمیشہ قریبی تعلق رہا۔ اُن کی شخصیت میں نہ بناوٹ تھی اور یہ ہی ریا کاری۔ بہت سے سیاسی رہنماؤں اور دیگر شخصیات سے ملنے کا تفاق ہوا ہے لیکن امان اللہ خان جیسا خلوص، عاجزی، اعلیٰ اخلاق اور ملنساری کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملی۔ وہ ہرایک ملنے سے بہت احترام سے پیش آتے اور اس میں بڑے یا چھوٹے کا فرق روا نہ رکھتے تھے۔ اپنے کارکنوں کے نام یاد رکھتے تھے اور اکثر انہیں ٹیلی فون بھی کرلیتے تھے۔ ان میں اعلیٰ انسانی اوصاف اور ایک قائد کی خوبیاں موجود تھیں۔ کسی لالچ یا خوف نے انہیں اپنے مقاصد سے دور نہ کیا اور وہ ہر فورم پر اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ سیاسی جدوجہد میں غلطیاں اور ایسے فیصلے بھی ہوجاتے ہیں جن کے نتائج مضررساں ہوتے ہیں ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے وہی فیصلے کیئے جو تحریک آزادی کے لیئے بہتر تھے۔گذشتہ سال ان کی وفات پر سرنگر میں کرفیو کا نفاذ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں امان اللہ خان کا نظریہ سے کس قدر پھیل چکا ہے۔ سری نگر، سوپور، بارہ مولہ، ہندواڑہ، اننت ناگ، پلوامہ اور ریاست جموں کشمیر کے اور بہت سے علاقوں غائبانہ نماز جنازہ اور تعزیتی اجتماعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کشمیری عوام کے دلوں میں اُن کے لئے کس قدر محبت اور احترام ہے۔ وہ ریاست جموں کشمیر کے تمام باشندوں کے حقوق کے علمبرادر تھے اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کے مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسلام نظریہ حیات پر مکمل یقین تھے۔
انہوں نے دومرتبہ عمرہ اور روضہ رسول پاک ؐ کی زیارت بھی کی۔ اپنی کتاب جہد مسلسل کی پہلی جلد کے صفحہ47 پر وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قدروں پر میرا پختہ ایمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب عمرہ کرنے گئے تو خانہ کعبہ کو دیکھ کر فرط جذبات سے میرے آنسو نکل گئے اور ہچکی بندھ گئی۔ طواف، ہجر اسودکو بوسہ دینے اور نماز کی ادائیگی کے دوران بھی دل و دماغ کی ایک عجیب سی کیفیت رہی۔ جب میں نے مسجد الحرام کی پر جلال عمارت کو اندر اور باہر سے دیکھا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیاکہ مسلمان بھی ایسے عظیم ورثے کے مالک ہیں۔ یہ عمارت اپنے جمال اور جلال دونوں حیثیتوں سے یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے گرجا گھروں سے کہیں ارفع ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں نماز کی ادئیگی کے بعد جب روضہ مبارک کے پاس سے گذار تو دل و دماغ کی میں شدت کی کیفیت طاری ہوگئی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں کامیابی کی کسوٹی کے لئے جو اہم رہنماء اصول دیے ہیں جن پر عمل کرکے ہر کوئی زندگی میں کامیابی اور عروج حاصل کرسکتا ہے۔ اُن صولوں میں خلوص، منزل کا تعین، مسلسل محنت، جھوٹ سے احتراز، ثابت قدمی، خود اعتمادی، قوت برداشت، اخلاقی جرات، کسرِ نفسی، مشکلات سے استفادہ، یقین محکم، قول و فعل میں ہم آہنگی، بلند نظری، خود احتسابی، دوسروں پر اعتماد، میانہ روی، مناسب معلومات، وسیع النظری، انصاف پسندی، خود داری ، منلساری اور زندہ دلی شامل ہیں۔ انہی اصولوں کے تحت وہ باعزت زندگی گذار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگرچہ اُن کی زندگی میں اُنہیں کامیابی کی منزل نہ ملی مگر وہ اپنی جدوجہد سے اطمینان تھے۔ ان کی جدجہد جاری ہے اور قافلہ آزادی یٰسین ملک کی قیادت میں رواں دواں ہے اور مادر وطن کی آزادی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا ایک دن ان شاء اللہ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی۔ خدا تحریک آزادی کے اس عظیم رہبر کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ امین
افکار تازہ
تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہبر
عارف محمود کسانہ