312

سڑکیں بنائیں، پیسے کمائیں۔ Make Roads Earn Money

لیڈر وہی ہوتا ہے جو بحران میں ثابت قدم رہے۔جس کے پاس ویژن ہو اور جس کے اعصاب مضبوط ہوں، قوت فیصلہ کا مالک ہو اور عوامی جذبات کا نباض بھی۔ تاریخ ِعالم ہمیں بتاتی ہے کہ
عزم،قوت ِارادی اور استقلال جیسی خوبیوں کے مالک رہنمائوں نے اپنی اقوام کو دنیا کی دیگر اقوام کے لیے قابلِ رشک اور قابل ِتقلید بنا دیا۔ سچائی اور عدل لیڈر کے بنیادی اوصاف میں سے ایک ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ہم اس حوالے سے قحط الرجال کا شکار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک استثنیٰ ضرور ہیں مگر وہ قائد اعظم کا نعم البدل کبھی نہ تھے۔ دونوں کے تقابل کا سوچنا ہی غلط اور لغو ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک اور طرح کی فضا میں نمودار ہوئے تھے،بھٹو ایک اور طرح کی فضا میں سامنے آئے۔

قائد اعظم پہ کرپشن اور اقربا پروری کا کوئی ایک الزام بھی نہیں۔ آپ کے بعد آنے والے سارے سیاستدانوں پہ البتہ یہ الزام ہے۔بھٹو میں قومی لیڈر کی بیشتر خصوصیات موجود تھیں۔اس وقت کہ جب پاکستان دو لخت ہو چکا تھا یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے بے حوصلہ قوم کو حوصلہ دیا اور نئے سرے سے ایک ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اپنی بے شمار بشری خامیوں کے باوجود بھٹو عزم کی علامت کا نام ہے۔ یہ بھٹو ہی ہیں جو عالمی سازش کا شکار ہوئے۔عالمی طاقتوں کو تیسری دنیا کے اس سیاسی رہنما کی بصیرت سے خطرات تھے۔ ان کے خلاف تحریکِ نظام مصطفیٰ کیوں چلائی گئی؟ کون کون سی مذہبی جماعتیں اور کردار بروئے کار آئے؟تاریخ اپنے سینے میں سب محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی رہنما اپنی قوم کو نیا عزم اور حوصلہ نہیں دے سکتا تو وہ اور سب کچھ ہو سکتا ہے،مگر بڑا سیاسی رہنما نہیں۔ دنیا میں جتنے ملک ہیں قریب قریب اتنے ہی وزیر اعظم بھی ہیں۔ لیڈر مگر معدودےچند۔

وزیر اعظم صاحب کا بیان پڑھا تو حیرتوں کے کئی در وا ہو گئے۔ آپ نے کہا کہ “پتا نہیں نظام اور محکموں کو کیا ہو گیا ہے؟ 2 سال میں مکمل ہونے والے منصوبوں پر 20،20 سال لگ جاتے ہیں۔ اگر ان گھپلوں کی تحقیقات میں لگ گئے تو سارا وقت اسی میں لگ جائے گا اور ترقی کا سفر رک جائے گا، ایک وقت آئے گا جب کرپٹ لوگ منطقی انجام تک ضرور پہنچیں گے، انھوں نے مزید کہا کہ اللہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں پر تنقید کرنے والوں کو ہدایت دے” یہ بات کس قدر تکلیف دہ ہے کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو کہہ رہا ہے کہ نظام اور محکموں میں کرپشن ہے، منصوبوں کی تکمیل میں کرپٹ عناصر رکاوٹ بنتے ہیں، مگر ہم اس سب کی تحقیقات نہیں کر سکتے۔ وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ اس طرح تحقیقات میں وقت ضائع ہو گا اور سڑکیں بنانے کا کام رک جائے گا۔ البتہ انھوں نے امید ظاہر کی کہ کرپٹ عناصر ایک دن ضرور منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیسے؟ جب ملک کا وزیر اعظم کہہ رہا ہو کہ ملک میں ہو نے والی کرپشن کو تسلیم کرتا ہوں مگر اس حوالے سے تحقیقات کا حکم نہیں دے سکتا تو کیا کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں ہو گی؟ اور انھیں یہ حوصلہ نہیں ملے گا کہ وہ مزید گھپلے کریں؟

عمران خان کی ساری سیاست اسی ایک نکتے کے گرد ہے کہ ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ ہر محکمہ اپنی بساط کے مطابق کرپشن کرتا ہے اور انھیں حکمران طبقات کی پشت پناہی حاصل ہے۔آصف علی زرداری صاحب بھی کرپشن کا رونا روتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی یہی کہتی ہیں۔عام آدمی سے لے کر ملک کے وزیر اعظم تک،سب آگاہ ہیں کہ ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس کرپشن کو روکا کیسے جائے؟ کیا نیب روک پائے گا؟ کیا پلی بار گین کرپشن کے خاتمے کا مستحکم حل ہے؟ کیا تھانوں کچہریوں میں رشوت کا بازار گرم نہیں؟ حتیٰ کہ میرٹ پہ نوکری حاصل کرنے کے لیے بھی رشو ت اور سفارش درکار ہوتی ہے۔ اس سب کا روکنا اور اس کے خلاف جہد کرنا کس کا کام ہے؟ اول یہ حکومتوں کا کام ہے۔ ملک کے سربراہ مگر اس حوالے سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ انھیں اگر فکر ہے تو اس بات کی کہ ان کی بنائی ہوئی سڑکوں اور ان سڑکوں، میٹرو کے منصوبوں اور تعمیراتی کاموں میں ہونے والے مبینہ گھپلوں پر تنقید نہ کی جائے۔ غالب کو یاد کیے بنا چارہ نہیں،


حیراں ہوں،دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
 مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

لیڈر مرد بحران ہوتا ہے اورمشکل میں قوم کو حوصلہ دیتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب میری نظر میں لیڈر کی تعریف پہ تو پورا نہیں اترتے البتہ، ڈان لیکس، پاناما ، ٹویٹ اور جے آئی ٹی کی تشکیل جیسے صبر آزما مراحل کے دوران میں ،وہ حوصلہ اور رویہ بھی کھو بیٹھے جو ایک وزیر اعظم کے شایان شان ہوتا ہے۔ انھوں نے براہ راست گھپلے، اور کرپشن کرنے کی حوصلہ افزائی یوں فرمائی کہ ایسے کاموں کی تحقیقات شروع کر دیں تو وقت ضائع ہو گا۔

اس سوچ اور اس عزم کے ساتھ ہم یہ خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ ہم دنیا کی اولین ضرورتوں میں سے ہیں، سی پیک ہماری اعلیٰ سیاسی بصیرت کا مظہر ہے اور ہم عالم ِاسلام کی قیادت کا سہرا بھی سجانے والے ہیں۔ بس اگر نہیں کچھ کر سکتے تو یہ کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے اور ہمیں سڑکیں بناتے ہوئے وقت ضائع کرنا پسند نہیں۔

 ( طاہر یاسین طاہر، کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں