زیادہ تر قارئین کیلئے یہ ایک نئی چیز ہوگی، کیونکہ پاکستان میں ابھی تک اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ قدرتی دودھ کے اندر ایک کیمیکل ہوتا ہے جسے لیکٹوز کہتے ہیں، یہ شوگر کی ایک قسم ہے، وہ لوگ جنہیں لیکٹوز انٹولرنس ہوتی ہے انکی چھوٹی آنت میں ایک لیکٹیز نامی انزائم خارج نہیں ہوتا، یہ انزائم دودھ میں موجود لیکٹوز پر عمل کر کے اسے گلوکوز اور گیلکٹوز میں بدل دیتا ہے، جو آسانی سے چھوٹی آنت میں جذب ہوجاتے ہیں، جن لوگوں کا لیکٹیز انزائم خارج نہیں ہوتا، عام زبان میں دودھ انکی چھوٹی آنت سے ہضم ہوئے بغیر آگے چلا جاتا ہے، جس سے پیٹ میں درد، اپھارہ، ڈائریا، اور اس وقت تک چکر آ سکتے ہیں جب تک دودھ مکمل طور پر جسم سے باہر نہیں نکل جاتا۔ عام طور پر دودھ پینے یا دودھ سے بنی ہوئی کوئی بھی چیز کھانے کے تیس منٹ سے دو گھنٹے کے اندر اندر اوپر دی گئی علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان علامات کی شدت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کتنی مقدار میں دودھ پیا گیا، جب دودھ مکمل طور پر جسم سے نکل جاتا ہے تو انسانی جسم بھی نارمل ہوجاتا ہے، اور اس مسئلہ سے اسکے جسم کے اندر کوئی اعضاء زخمی نہیں ہوتا۔
دودھ الرجی ایک علیحدہ مسئلہ ہوتا ہے اور اسے لیکٹوز انٹولرنس سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ دودھ الرجی دنیا میں صرف چار فیصد آبادی کو ہوتی ہے اور اس میں دودھ میں موجود پروٹین ایمیون سسٹم کی کمزوری کے باعث ہضم نہیں ہوسکتی۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی کا %65 فیصد لیکٹوز انٹولرنس کے مسئلے سے دوچار ہے، اسکی شدت مختلف علاقوں میں مختلف ہوتی ہے، جیسے سیکنڈی نیوین ممالک میں آبادی کا دس فیصد اور ایشیاء اور افریقہ کے بعض حصوں میں آبادی کا پچانوے فیصد حصہ اس مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اسکی ابتداء بارہ تیرہ سال سے لیکر اٹھارہ بیس سال تک کی عمر کے لوگوں میں ہوسکتی ہے، اس مسئلے کی ابتداء لگ بھگ دس ہزار سال پہلے اس وقت ہوئی جب انسان نے دودھ دینے والے جانوروں کو گھریلو سطح پر پالنا شروع کیا۔
پاکستان میں عام لوگ اور ڈاکٹر دونوں شاید ابھی دودھ میں لیکٹوز کے مسئلے سے پوری طرح آشنا نہیں ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مارکیٹس میں آپکو لیکٹوز فری دودھ نظر نہیں آتا، لوگوں کو یقیناً دودھ پینے سے پاکستان میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے، لیکن لوگ عموماً خون میں موجود لیکٹوز لیول کا ٹیسٹ نہیں کرواتے جسکی وجہ سے یہ مسئلہ سامنے نہیں آتا، جب انہیں لیکٹوز کی وجہ سے پیٹ درد ہوتا ہے، یا معدہ خراب ہوتا ہے، تب یہ ڈاکٹر کے پاس انہی علامات کے ساتھ جاتے ہیں اور بغیر ٹیسٹ کروائے انہی علامات کی دوائی لیکر گھر آجاتے ہیں، دوائی کھانے سے وقتی طور پر یہ علامات کم ہوجاتی ہیں، لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہو پاتیں اور مریض رفتہ رفتہ ڈاکٹری علاج سے تنگ آ کر دیسی علاج کیلئے حکیموں، روحانی علاج کیلئے مذہبی عاملوں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے پاس جانا شروع کردیتے ہیں۔
راقم نے پاکستان میں زندگی کی تقریباً تین دہائیاں گزاریں لیکن وہاں کبھی دودھ پینے سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا، یورپ آنے کے دوسال بعد پیٹ میں دائمی درد کا آغاز ہوا تو معدے اور آنتوں کے مختلف ٹیسٹ کروائے، خون میں لیکٹوز لیول ٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ میرے جسم میں لیکٹیز انزائم اپنا کام مناسب طریقے سے سرانجام نہیں دے رہا ہے، اسلئیے دودھ اور دوسری ڈیری پروڈکٹس میں موجود لیکٹوز اپنی بائی پروڈکٹس یعنی گلوکوز اور گلیکٹوز میں تبدیل نہیں ہوتا اور نتیجہ کے طور پر پیٹ درد اور معدہ خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
سیکنڈی نیوین ممالک سویڈن ڈنمارک اور ناروے میں یہ مسئلہ عام ہے اس لیئے گراسری سٹورز پر پورا ایک سیکشن لیکٹوز فری دودھ، دہی، مکھن اور آئس کریم سے بھرا ہوا ہوتا ہے، یورپ کے باقی ممالک میں یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں ہے اسلئیے وہاں عام گراسری سٹورز پر آپ کو لیکٹوز فری ڈیری پراڈکٹس نظر نہیں آتیں، لندن وزٹ کے دوران ایک دفعہ گراسری سٹور سے لیکٹوز فری دودھ خریدنے کا اتفاق ہوا تو غور سے دیکھنے پر اس پر میڈ ان سویڈن لکھا ہوا نظر آیا۔ پاکستان وزٹ پر راقم بغیر دودھ کے کالی چائے پیتا ہے یا سویڈن سے جاتے وقت ایک بیگ لمبی ایکسپائری والے دودھ کا بھر کر لے جایا جاتا ہے، یا لیکٹیز انزائم والے کیپسول پاس ہوتے ہیں، جہاں دودھ والی چیز کھائی یا پیئی ساتھ ہی ایک کیپسول بھی کھا لیا?۔