305

پشتون مامتا

     کابل سے آیا تو اپنے گاؤں کا چکر لگایا۔ ہر وزٹ کے بعد اپنے ویران اور غریب گاؤں کا چکر ضرور لگاتا ہوں۔ جہاں کے پہاڑوں میں بچپن کی قلقاریاں آج بھی کہیں سنائی دیتی ہیں۔ جہاں سُوکھی روٹی، لسی کیساتھ کھا کر ماں کے آنچل میں چُھپ کر سو جاتے تھے۔ جہاں جوانی تک اپنی ماں کی خوشبوئیں ساتھ ساتھ رہیں اورآج کہیں کھو گئیں ۔ اپنوں کیساتھ ملکر خلوص اور محبت کے جذبے جو کمرشل کاموں کی وجہ سے ذرا چھوٹ سے جاتے ہیں ۔ ان کو ریچارج کرتاہوں اور ایک نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ زندگی کا پھر سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتا ہوں۔

مہینے دو مہینے میں جب بھی ایک دو دن کیلئے آنا ہوتا ہے۔ تو ان دو مہینوں میں جہاں جہاں فوتگیاں ہوتیں ہی، وہاں جاکر تعزیت کرتا ہوں اور جہاں جہاں بچے پیدا ہوتے ہیں، وہاں وہاں مُبارکباد دینے پہنچ جاتا ہوں۔ بیگم کو اعتراض ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب دیتا ہوں کہ جہاں موت ہوتی ہے، وہاں میری موت ہوتی ہے اور جہاں کہیں نئی زندگی وجود میں آجاتی ہے،وہ جیسے میں جنم لیتا ہوں۔سو خود اپنا تماشہ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں۔

میری ایک رضاعی بہن کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی، سو خلاف رسم اس بیٹی کی مُبارکباد دینے پہنچ گیا۔ غربت کے ڈھیر میں بچوں کا ایک ڈھیر گندگی کے ڈھیر کیساتھ کھیل رہا تھا۔ وہاں ایک بُھوری آنکھوں والی بچی میری توجہ کا محور بن گئی۔ اس گیارہ سالہ بچی کی آنکھوں میں ایک ویرانی اور خالی پن سا تھا۔ سارے بچوں سے الگ تھلگ بیٹھ کر وہ زمین پر لکیریں کھینچ رہی تھی۔ میں نے بہن سے پوچھا کہ یہ کس کی بیٹی ہے؟ جواب دیا کہ میرے دیور کی۔ میں نے پوچھا یہ بچی سب سے الگ تھلگ کیوں ہے؟ جواب دیا کہ اسکی ماں کو نو سال قبل طلاق دی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ نے دوسری شادی کرلی اور بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیا، اسوقت اس کی عمر دو سال تھی۔ میرے سر پر گویا پہاڑ گر پڑا۔ ۔۔۔۔۔۔ اس بچی کی اُداسیوں کا معلوم ہوگیا کہ بچی اپنی ماں کو ہی ڈھونڈ رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بچی کی سوتیلی ماں کیسا سلوک کرتی ہے؟

بہن نے نمناک آنکھوں سے مجھے دیکھا،کہ سوتیلی ماں کیسی ہوتی ہے؟ بچی کی والدہ ابھی تک بغیر شوہر کے تھی اور دن رات بچی کیلئے روتی رہتی ہے جسکا اثر اسکی آنکھوں پر بھی پڑا۔ مگر ان نو سالوں میں وہ اپنی لخت جگر کو نہیں دیکھ سکی۔ میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی عانی کا سراپا گُھوم گیا اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس بچی کو اپنے ساتھ چمٹا کر روتا رہا ۔

بچی کا باپ آیا تو میں اسے الگ کمرے میں لے گیا اور کہا کہ آپ نے ایک غلطی اس وقت کی جب اپنی بیوی کو طلاق دی، یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنے گُناہوں کا کفارہ ادا کرتے، آپ مزید گناہ پر گناہ کرتے رہے۔ اس نے ڈھیر ساری تاویلات دیں، مگر اس کو خود بھی پتہ تھا کہ اس کی تاویلات کمزور ہیں،لیکن انا کی خاطر جواب ڈھونڈتا رہا۔ میں نے بالاخر اس سے کہہ ڈالا،کہ آپ ہوتے کون ہیں جو ایک ماں کو اسکی اولاد سے جدا کیا؟۔ خدا کی محبت بھی ممتا سے تعبیر ہے، تو تم خدا ہو کیا؟

تم نے دوسری شادی کی اس کو بھی اللہ دوسرا شوہر دے دیگا۔ مگر مجھے صرف اس بچی کا قصور بتاؤ جو صرف تین دیواروں کے فاصلے پہ وہ اپنی ماں سے جدا ہے۔ اس سے پہلے کہ مزید بولتا، وہ بلک بلک کر رو پڑا کہ عارف بھائی میرے بھائیوں نے میرا گھر اُجاڑ دیا ہے۔ میری بیوی بےگُناہ تھی مگر پشتون روایات میں اس بات کی اجازت نہیں کہ میں بڑے بھائیوں کے سامنے کچھ بول سکوں ۔ میں نے جواب دیا کہ آج مجھے واقعی شرم آرہی ہے کہ میں آپ لوگوں کا رشتہ دار ہوں۔ مجھے خود سے گِھن آرہی ہے۔ بس ایک احسان کردو مجھ پر کہ آپ کےگھر مہمان آیا ہوں، اور مہمان کی بات کوئی ٹالتا نہیں ۔مجھے اجازت دو کہ میں اس بچی کو اس کی ماں کیساتھ ملا سکوں۔ وہ تذبذب کا شکار تھا، مگر میں نے اسے کہا کہ جن سے ڈرتے ہو اُن کو بتا دینا کہ عارف اس بچی کو لےکر گیا ہے، جواب میں دے لوں گا۔

بچی کے ماں کے گھر گیا اور دروازے پر اپنی ماں کا حوالہ دیا جو اُن کی دُور کی رشتہ دار ہیں۔ اتنے میں بچی کی ماں دروازے پر آچکی تھی۔ کیچڑ میں لت پت ہاتھ اور پُژمردہ چہرہ اس کی زندگی کا فسانہ بتانے کیلئے کافی تھے۔ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے زبردستی اپنے آنسو چھپاتے ہوئے پوچھا، آپ کو اپنی بیٹی کی یاد آتی ہے؟ وہ جیسے دیوار کا سہارا لیکر لڑکھڑا سی گئی۔ اور ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا کہ جب بُھولوں گی تو یاد آئےگی ناں؟ نوسال سے انگاروں پر لوٹ رہی ہوں۔ ۔۔۔۔۔

میں نے جیب سے ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے اور کہا کہ یہ پیسے رکھ لو، اپنی بیٹی کو خوب کھلانا پلانا، اور اپنی اوٹ سے بچی نکال کر اسے پکڑا دی۔یہ کہہ کر کہ مُبارک ہو، اسے اپنے پاس رکھ لینا۔ ماں چیخ مار کر اپنی بچی سے لپیٹ گئی اور میرے اندر اتنی تاب نہیں تھی کہ میں اُس ماں کو دیکھ سکتا اور سیدھا اُن کی گلی سے نکل آیا۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیروں میں کوئی زنجیر تھی، میرے قدم منوں بھاری ہورہے تھے اور آج پہلی بار اپنے پشتون ہونے پر ماتم کرنے کو دل کررہا تھا۔ لہذا دُھندلائی ہوئی آنکھوں سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ماں سے ملے بغیر گاؤں کو کہیں دور چھوڑ کر آگیا، تاکہ اپنی عانی کے پاس جاؤں کہ اسے مزید محفوظ بناسکوں۔

ابھی پانچ منٹ پہلے ایک اور رشتہ دار بھابھی کا فون آیا کہ بھیا چار سال ہوگئے ہیں، اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو نہیں دیکھا۔شوہر اور اس کے میکےوالوں کے بیچ دشمنی چل رہی ہے۔ آپ میری مدد کردو ناں؟ سنا ہے آپ نے آج قبیلے کی روایات توڑکر ایک بچی کو ماں سے ملایا۔ مُجھے بھی میری ماں سے ملا دو ناں؟ آپکو خدائے پاک کا واسطہ۔۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ بلک بلک کر روپڑی اور میں اپنے فون کو خالی نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔    

تعارف : لالہ عارف خٹک بے باک مگر باحیا لکھاری ہیں اور مکالمہ ڈاٹ کام میں لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں