288

مشعال ! تم زندہ ہو۔

     مشعال ! تم زندہ ہو !…… مشعال خان شہید کو جس ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑا اسے تصور میں لاتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔خون کی جو ہولی کھیلی گئی آج تک کسی تعلیمی درسگاہ میں اس کی مثال ملنا بھی محال ہے۔ طالبِ علم تو ملک کے معمار اور مستقبل کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ پھر یہ کیا ؟ کیا ،یہ ہے ہمارے ہونہاروں کو دی جانے والی تعلیم کا عکس؟ کیا یہی ہمارے بے حس معاشرے کا اصلی چہرہ ہے ؟ مشعال کی اس بے بسی کی موت نے ہمارے تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مشعال خان کی اس بے مثال قربانی پر میں نے نظم کی صورت میں اس مردِ آہن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

مشعال ! تم زندہ ہو ! ۔۔۔۔۔۔
جو مارا گیا مجمع عام میں
سنگِ دشنام میں
تیرِ الزام میں
زبانِ زدِ عام میں
جو قتل ہوا درِ بام میں
بد مست دیوتاؤں کی تکرار میں
پتھروں کی بوچھاڑ میں
تقدس کی آڑ میں
ٹپکتے لہو کی پکار میں
تازیانہ مکار میں
جھوٹ کے انکار میں
عیاری کی گردوغبار میں
بے ننگ و ناموس گفتار میں
سوز و الم کے حصار میں

دانش کے زمان و مکاں میں
کانپتی زمیں، تڑپتے آسماں میں
بے سود جسم و جاں میں
تشنہ لب آہ و فغاں میں
بے چارگیِ مرگِ جاں میں
ابلیس کے رقصِ عریاں میں
نرغہِ سنگینِ شیطاں میں

جو رقصِ مستانہِ مستاں تھا
جو قوی، توانا و بیکراں تھا
جو سینہ سپر ضلالتِ امتحاں تھا
جو تصویرِ جلالتِ یزداں تھا
جو آئینہِ رسالتِ ایماں تھا
 جو بلندیوں کی جانب رواں تھا
جو نقشِ جاوداں تھا
آگہیِ روحِ جواں تھا
چاک اس کا گریباں تھا
آئینِ انسانیت کا نگہباں تھا
مقتل میں نوحہ کناں تھا
وہ تشنہ و گریاں تھا
چار سو شعلہ و دھواں تھا
ہر انساں مانندِ حیواں تھا

اُف کیا حشر زمین پہ بپا ہوا
ہر ایک ظالم تھا، خدا ہوا
وہ درندوں کے در پہ تنہا ہوا
جو سچ بولنے پہ سزاوار ہوا
نا کردہ  گناہ کا شکار ہوا
جب جبر خستہ خوں خوار ہوا
نکارِ وحشت کا آہنکار ہوا
وہ ظلم کے آگے دیوار ہوا
جہل کے مقابل برہنہ و لاچار ہوا
شہادت کے لیۓ تیار ہوا
ناحق وہ سنگسار ہوا
تڑپ کر آسماں بیدار ہوا
ہر فرشتہ اس کا خریدار ہوا
تب برہمن کا طلسم  بے کار ہوا
وہ صبر کا معمار ہوا
سچائی کا علمبردار ہوا
حق اس کا پرستار ہوا
وہ زیست کا افکار ہوا
انسان ہوا خاکسار ہوا
خالق کا وہ شاہکار ہوا

جو خاک ہوا ، آب و تاب ہوا
کڑا صبر کا حساب ہوا
جہدِ عشق سے وہ سیراب ہوا
آتشِ نمرود میں گلِ انقلاب ہوا
دعاؤں کا وہ مستجاب ہوا
لہو چہرہ اس کا نایاب ہوا
قحط الرجال میں مانندِ سیماب ہوا
وہ مثل اپنے آپ ہوا

جو خون سے تر، خاکِ جبیں ہوا
جو زخموں کی تاب میں اور حَسیں ہوا
ظُلمتِ شب میں خورشیدِ یقیں ہوا
آغوشِ مرگ میں وہ کیفِ شیریں ہوا
عشق شرمگیں ہوا
وہ لعل و نگیں ہوا
ستارا عرشِ بریں ہوا
آخر گوشہء نشیں ہوا
وہ جنت کا مکیں ہوا

اور موت کے کالے کمبل میں
اندھوں کے اس جنگل میں 
جو مرا ہے وہ مشعال نہیں
جو مرے ہیں وہ ہم ہیں
ہم مردہ ہیں
ہم مردہ ہیں
مشعال ! تم زندہ ہو
ہاں ۔۔۔ تم زندہ ہو !

 
( تعارف : آصف وڑائچ، سچا لکھاری، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں