قدیم یروشلم شہر کے سات دروازے ہیں اور ماضی میں اسے چار کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا تھا، مسلم کوارٹرز، آرمینین کوارٹرز، عیسائی کوارٹرز اور یہودی کوارٹرز۔ 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ میں یروشلم کے قدیم شہر کا کنٹرول اردن نے حاصل کرکے یہاں سے تمام یہودیوں کو بے دخل کر دیا تھا، لیکن 1967ء میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے یروشلم شہر کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا اور آج بھی اسرائیلی فوج ہی اس پورے علاقے کی نگرانی کرتی ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق یروشلم کم از کم دو مرتبہ مکمل طور پر تباہ ہو کر آباد ہوا، درجنوں مرتبہ اس کا محاصرہ کیا گیا اور اس شہر پر سینکڑوں خون ریز حملے کئے گئے ان سب کے باوجود یہ شہر اب بھی اپنی قدیم اور جدید چمک دھمک برقرار رکھے کھڑا ہے۔
میں اور حمزہ بھائی اندرون ہروشلم کی تنگ و تاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے دمسکس گیٹ سے باہر مین روڈ پر آئے تو ہمیں یہاں دو اسرائیلی پولیس اور فوج کی چوکیاں نظر آئیں، جو جدید اسلحہ سے لیس مستعد انداز میں اندرون شہر سے نکلنے والوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ انکا کام شاید امن وامان کی صورتحال پر نظر رکھنا تھا کیونکہ یہ دور اپنی جگہوں پر ہی کھڑے تھے اور کسی کی تلاشی لینا دوسری قسم کی پوچھ کچھ نہیں کررہے تھے۔
دمسکس گیٹ لگ بھگ دو ہزار سال پہلے بنایا گیا تھا، یہاں سے سڑک شام کے دارلحکومت دمشق کی طرف جاتی ہے، اسکی موجودہ شکل پندرہ سو عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں تعمیر کی گئی، جبکہ اسکا پرانا ڈھانچہ ابھی بھی اسکی بنیادوں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے، اس تاریخی دروازے کے سامنے کچھ تصاویر بنائی گئیں اور سیڑھیاں چڑھ کر باہر مرکزی سڑک پر آگئے جو نابلوس اور شامی شہر دمشق کی طرف جاتی ہے، اس سڑک پر بھی اسرائیلی پولیس کی ایک بڑی چوکی تھی، جہاں مستعد پولیس والے جدید اسلحہ لے کر تیار کھڑے نظر آئے۔
سڑک کے دوسری جانب درجنوں دکانیں اور کھانے کے ہوٹلز واقع تھے، جبکہ فٹ پاتھ کے ساتھ دو کباب والی ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں، جہاں سے کوئلوں پر کباب بھننے کی خوشبو اردگرد کی فضاء کو معطر کر رہی تھی، یہ ریڑھیاں دیکھ کر اندرون شہر لاہور کے مختلف دروازوں کے باہر ریڑھیوں پر کباب بیچنے والے یاد آگئے جہاں کبھی کھوتے کے گوشت کی بجائے اصلی حلال گوشت کے کباب بیچے جاتے تھے، اس خیال سے کہ فلسطینی بھائی شاید ابھی کھوتا کلچر سے واقف نہ ہوں ہم نے ہوٹل کی بجائے ریڑھی والے سے کباب کھانے کا فیصلہ کر لیا، یہاں سے پچاس اسرائیلی شیکل (دو ہزار پاکستانی روپے ) کے پیتا بریڈ میں لپٹے دو دو شوارمے کھانے گئے اور ساتھ موجود فروٹ کی دوکان سے کچھ فروٹ، تازہ کجھوریں اور پانی کی بوتلیں لیکر اپنے ہوٹل روانہ ہو گئے جو یہاں سے دس منٹ کی پیدل واک پر واقع تھا۔
اگلے دن ناشتے کے بعد تیار ہو کر اس خیال سے ہوٹل سے باہر نکلے کہ آج مسجد اقصیٰ کے نزدیک زیتون پہاڑ پر باقی ماندہ زیارات کریں گے، اور نابلوس، ہیبرو اور ڈیڈ سی جانے کیلیئے کسی ٹیکسی والے سے پیکیج طے کریں گے۔ جبل الزیتون کا نام اس نسبت سے پڑا کیونکہ یہاں کسی زمانے میں زیتون کے درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے، یہ وہ پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہودا سے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر آباد یروشلم شہر کے خوبصورت نظارے کے لیے یہ جگہ بہترین ہے، یہاں سے اونچی فصیلوں کے دامن میں قدیم یروشلم شہر، بل کھاتی سڑکیں، سرسبز درختوں کے آنچل میں جگمگاتا ڈوم آف راک کا گنبد اور مسجد اقصیٰ ایک روح پرور نظارہ پیش کرتے ہیں۔
جبل الزیتون مسجد اقصیٰ سے اونچائی پر نظر آتا ہے، یہاں جانے کا مشکل طریقہ پیدل چڑھائی چڑھنے میں ہے اور پرانے زمانے میں لوگ ایسے ہی جاتے تھے، لیکن آسان طریقہ سڑک کے راستے سے جانے میں ہے، مین روڈ پر ٹیوٹا ہائی ایس ویگنیں یروشلم کے مختلف حصوں کی طرف جارہی تھیں، یہاں سے پانچ پانچ شیکل میں ویگن ہمیں زیتون پہاڑ کی طرف لے گئی، سٹاپ پر اترتے ہی ہمیں شاہراہ سلمان فارسی کا بورڈ نظر آگیا، پانچ منٹ اس چھوٹی سی سڑک پر چلنے کے بعد ہمیں ایک مسجد نظر آئی، ظہر کا وقت ہو رہا تھا، اس لئیے اس مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے کیلئے اندر داخل ہوگئے، اندر جا کر پتا چلا کہ یہ سلمان فارسی مسجد ہے اور یہی مقام حضرت سلمان فارسیؓ ہے، مقام اسلئیے کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی یہاں رہتے رہے تھے اور روایات کے مطابق یہی دفن ہوئے تھے واللہ علم۔ مسجد کے اندر ایک اونچی اور بڑی قبر تھی جس پر سبز رنگ کی چادر ڈالی گئی تھی، جب ہم نماز پڑھنے لگے تو ہمارے سامنے قبر تھی اور سجدہ کرتے وقت بظاہر ایسا ہی لگنا تھا کہ ہم نعوذ بااللہ قبر کو سجدہ کر رہے ہیں، حالانکہ ہمارا منہ تو کعبہ کی طرف ہی تھا، اس خیال کے آتے ہی ہم مسجد کے دوسرے کونے میں چلے گئے اور وہاں جا کر ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھی، مسجد کے اندر قبر کو دیکھ کر ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئی کہ فلسطینی بھائیوں میں بھی کچھ کچھ بریلوی بھائیوں والے جراثیم پائے جاتے ہیں۔
مسجد کے دروازے کے ساتھ ہی اوپر سیڑھیاں جا رہی تھیں، ہم سیڑھیاں اوپر چڑھے تو وہاں ایک بہت بڑا قبرستان دیکھا جو بظاہر کئی سو سال پرانا نظر آ رہا تھا، اسکے دروازے پر دونوں جانب شہداء جبل الزیتون کے نام لکھے ہوئے تھے، یہ وہ فلسطینی ہیں جو یہودیوں کے ساتھ مختلف اوقات میں جھڑپوں میں شہید ہوئے تھے، اس قبرستان میں یقیناً بہت سے صحابہ اکرام سمیت عظیم ہستیاں مدفون ہونگی جنکے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، یہاں فاتحہ پڑھی اور نیچے آنے پر ہماری ملاقات ایک نوے سالہ فلسطینی بزرگ ابراہیم احمد سے ہوئی جسکی باتیں ہمیں اتنی دلچسپ لگیں کہ فوراً ہی ہم نے انکے گھر جا کر انکے ساتھ چائے پینے کی آفر قبول کرلی۔
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماشاہُ اللہ بہت حوب
بہت شکریہ ملک صاحب