امارات اور سعودیہ کی طرف سے قطر کے مقاطعہ پر ترکی کی طرف سے قطر کے دفاع کے لئے فوج بھیجنے اور ایران کی طرف سے قطر کی غذائی امداد نے مشرق وسطی کی سیاست کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ قطر کے اپنے دیگر برادر جی سی سی کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے اتار چڑھاؤ کی ایک تاریخ ہے جسکی وجوہات معاشی اور سیاسی دونوں ہی رہیں۔ لیکن ماضی میں قطر ان اختلافات پہ لچک دکھاتے ہوئے امارات اور سعودیہ کی پالیسی پہ صاد کرتا رہا کیا اب بھی ایسا ہونے جارہا ہے؟
اس کا جواب نفی میں محسوس ہوتا ہے۔ قطر کا معاشی ماڈل امارات اور سعودیہ سے مختلف ہے انکے برعکس قطر کی معیشت کا انحصار پٹرولیم کی برآمد پہ نہیں بلکہ مائع قدرتی گیس کی برآمد پہ ہے جس کی وجہ سے وہ اوپیک کے فیصلوں کا پابند نہیں۔ قطر کا اپنی ان ہمسایہ ریاستوں سے سیاسی نظریاتی اختلاف کچھ اس نوعیت کا ہے کہ قطر اسلامی جمہوری آئیڈیل سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے جبکہ مذکورہ ریاستوں کے سیاسی آئیڈیل میں جمہوریت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کے بحران کے موقع پہ قطر نے مرسی اور اخوان المسلمون کا ساتھ دیا اور جنرل سیسی کی حمایت سے انکار کیا جبکہ سعودیہ کی تمام ہمدردیاں سیسی کے ساتھ وابستہ تھیں۔ قطر کے ایردوان اور ترکی کے ساتھ گرمجوش تعلقات کی بنیاد بھی یہی ہے اور ایران کے ساتھ نسبتاً نرم رویہ کی وجہ بھی یہی دکھتی ہے۔ قطر کی مجموعی خارجہ پالیسی میں لچک اور عملیت پسندی کا پہلو کافی نمایاں ہے۔ ۲۰۱۴ کے سعودیہ اور امارات کے ساتھ بحران پہ حالات کو بھانپتے ہوئے اس نے لچک بھی دکھائی لیکن ساتھ ہی ساتھ ترکی کے ساتھ دفاعی معاہدہ میں بھی منسلک ہوگیا تاکہ آئندہ کسی بحران میں کسی دھمکی سے مرعوب نہ ہونا پڑے۔
اسی طرح قطر یورپ گیس پائپ لائن کے معاہدہ کے بعد بشار کو ہٹانے کی مہم میں وہ سب سے آگے تھا۔ جبتہ النصرہ وغیرہ کو مالی امداد میں قطر سب سے نمایاں تھا لیکن اس نے شام میں روس کی آمد کی اہمیت کو فوری بھانپا اور اس کی گرمجوشی میں عملی طور پہ نہ صرف نمایاں کمی نظر آئی بلکہ اس کی سرمایہ کاری روسی گیس کی فرموں میں بھی ہوئی۔ اس الجھی ہوئی کھیل میں وہ شام کے اندر ایران کا متحارب بھی رہا لیکن اس سے مذاکرات کا حامی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی آمد پہ جب یہ واضح طور پہ محسوس کروادیا گیا کہ عرب اتحاد یا عرب نیٹو دراصل ایران کے خلاف ہے اور بقول شہزادہ محمد بن سلمان جنگ کو ایران کے اندر لے جایا جانا مقصود ہے تو قطر کا وہیں پہ انکار تھا اور قطر یہاں ایران سے مذاکرات کا حامی ثابت ہوا۔ موجودہ حالات میں تیقن سے کہا جاسکتا ہے کہ قطر کی سعودیہ اور امارات کے ساتھ اختلافات کی موجودہ خلیج پاٹنے والی نہیں بلکہ مشرق وسطی میں ایک نہی صف بندی کو جنم دیتی نظر آتی ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ قطر، ترکی اور روس پہ مبنی ایک صف بندی آگے چل کے جنم لے یا نہ لے لیکن اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ امارات ، سعودیہ ،اسرائیل ، اردن اور مصر کی امریکہ کے ساتھ صف بندی کھل کے سامنے آجائے کیونکہ وہ سطح کے نیچے پہلے ہی موجود تھی۔ جسکی نشاندہی اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اصلاح احوال کے لئے قطر کو جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں ان میں دیگر کے علاوہ اخوان اور حماس سے قطعی لاتعلقی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ہمیں اس امر کا احساس ہے کہ سعودیہ، امارات اور اسرائیل کے اتحاد کا سن کے کچھ حلقے ہذیانی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں اور کف آلود لہجہ اختیار کرتے ہیں لیکن حقائق بہرحال حقائق ہی ہیں۔ مشرق وسطی اپنی تاریخ کے انتہائی خطرناک موڑ پہ آکھڑا ہوا ہے جس کو سمجھنے کے لئے عرب ایران کشمکش پہ ہلکی سی نظرڈال لینا ضروری ہے۔ ایرانی پالیسی کا ہدف مشرق وسطی کا چیمپئن بننا تھا اس کے لئے انہوں نے جس حکمت عملی کا سہارا لیا وہ اسرائیل کے خلاف بے لچک پالیسی اور حزب اللہ کی حمایت سے اسرائیل کو شمال اور حماس کے ساتھ مل کے اسرائیل کو جنوب سے گھیرنا تھا۔ یہ پالیسی بہت کامیاب رہی لبنان کے اندر اسرائیل کی دراندازی بھی رک گئی اور اسرائیل خود اپنے گھر میں مشکلات کا شکار ہوا۔
یہ پالیسی عرب سٹریٹ میں بھی مقبول ہوئی اور حسن نصراللہ عرب شیعہ، سنی دونوں میں مقبول تھا لیکن یہ سب عرب حکمرانوں کے لئے باعث خفت تھا۔ اگر اس پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ بھی اسرائیل کے ساتھ جارحانہ رویہ اپناتے تو اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت کا سامنا کرتے لیکن اگر خاموش رہتے تو اپنے ہی عوام کے سامنے بے توقیر ہوتے۔ اس پالیسی کے توڑ کے لئے عرب قومیت کا کارڈ بھی بیکار تھا۔ انہوں نے ایران کو ایک شیعہ طاقت کے طور پہ پینٹ کرکے شیعہ مخالفت کے جذبات پہ اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ ابتدا میں اس کو مقبولیت حاصل نہ ہوئی لیکن صدام کے بعد عراق میں بننے والی نوری المالکی کی شیعہ حکومت کے اینٹی سنی رویے نے اس کو تقویت دی۔ یاد رہے کہ شیعہ سنی منافرت کے پھیلاؤ کے ضمن میں ایران یا عرب ممالک کسی کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی سبھی کا کم یا زیادہ حصہ ہے۔ لیکن عرب حکمرانوں کی کوتاہ نظری اس لئے ذیادہ ذمہ دار ٹھہرتی ہے کہ اپنے ہی ممالک کی اس زمینی حقیقت کو وہ قطعی طور پہ فراموش کرگئے کہ عرب دنیا میں شیعہ اور سنی آبادی کی باقاعدہ پٹیاں(belts) موجود ہیں اور اس منافرت کے پھیلنے کے نتیجے میں خود ان کے اپنے ممالک شکست وریخت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
خاص طور پہ جمہوری روایت نہ ہونے کے سبب ایسی سیاسی پارٹیاں ہی موجود نہیں جو اس منافرت سے بالاتر سیاسی جدوجہد کرسکیں۔ عراق اسی وجہ سے ٹوٹا ایک دفعہ داعش کا ظہور ہوا تو عراق واضح طور پہ جنوبی شیعہ، شمالی سنی عراق اور مشرقی عراقی کردستان میں تقسیم ہوگیا۔ اس کے باوجود بشار کو ہٹانے کی کوشش میں اسی کھیل کو عرب ممالک کی طرف سے شام میں دہرائے جانے کی کوشش یہ واضح کرتی ہے کہ عرب حکمرانوں کو اس کی سرے سے پرواہ ہی نہیں۔ ۲۰۰۶ میں جب کرنل رالف پیٹرسن کی طرف سے مشرق وسطی کا نیا نقشہ سامنے آیا تھا تو امریکیوں نے اسے محض ایک علمی مشق قرار دیا اور بہت سوں( بشمول ہمارے جیسے) نے اسے ہنس کے ٹال دیا کیونکہ فرقہ وارانہ تقسیم تب اتنی پھیلی ہی نہ تھی اور کسی کو یقین نہ ہوسکتا تھا کہ نیا نقشہ علمی طور پہ کس طرح بنایا جائے گا۔ لیکن کھیل کے ڈیزائنر خوب جانتے تھے زمین پہ موجود فالٹ لائنوں کو بھی اور انکو اُبھار کے ملکوں کو توڑ کے چھوٹی چھوٹی باہم ریاستوں میں تبدیل کرنے کے ہنر سے بھی بہرہ مند تھے اور انکے پاس مقامی گماشتے بھی تھے۔
اب یہ سب کچھ سر پہ منڈلا رہا ہے۔ آج کل میں عراقی کردستان آزادی کا اعلان کرنے والا ہے اور عراق کی تقسیم حتمی ہوجائے گی۔ برسبیل تذکرہ سعودیہ نے اس سال جنوری میں ہی عراقی کردستان میں اپنا قونصل خانہ کھول لیا ہے۔ مشرق وسطی کو توڑ کے چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کرنے میں اسرائیل کو بھی فائدہ ہے کیونکہ وہ علاقہ کا واحد چیمپئن رہ جائے گا۔ امریکہ کو یہ فائدہ ہے کہ علاقہ کے قدرتی وسائل چھوٹی ریاستیں بہت سستا فروخت کرنے پہ تیار ہونگی کسی کا بھی بازو مروڑنا بہت آسان ہوگا۔ سابقہ نوآبادیوں کو توڑ کے چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کرنا یا انکی بلقانائزیشن کرنا خصوصاً مغربی ایشیائی خطہ کی، جدید سامراج یعنی امریکہ کا طویل المدتی منصوبہ ہے۔ مشرق وسطی میں یہ کام فرقہ پرستی کو ہوا دے کے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یہ اس کے علاوہ بھی ممکن ہے۔ نیولبرل تھیوری اس گھناؤنے کھیل کا ایک اہم نظریاتی ہتھیار ثابت ہوتی ہے جس کی تفصیل کے لئے الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ بہرحال قطر کا یہ موجودہ بحران مشرق وسطی کے مستقبل کو کیا شکل دیتا ہے؟ یہ آنے والے دنوں میں علم ہوجائے گا۔ مثبت اور منفی طاقتوں کی شناخت اس کھیل میں کسی فرقہ یا تقوی کی بنیاد پہ نہیں کی جاسکتی بلکہ صرف اس بنیاد پہ ممکن ہے کہ کونسی طاقت استحکام کی حمایت کرتی ہے اور کونسی عدم استحکام کی۔ اس ضمن میں قطر کی یہ رائے صائب نظرآتی ہے کہ ایران کے ساتھ جو بھی اختلافات ہیں انکو میز پہ بیٹھ کے حل کرنا بہتر ہے بجائے کسی نئے جہاد کے۔ کیونکہ ہم پچھلے بیس سالوں سے جہاد ہی کرتے آئے ہیں۔