آلبی سپورٹس ہال میں جمہوریت، مذہب اور ثقافت کے موضوع پر ایک علمی شام اور افطار ڈنر کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کے انعقاد میں آلبی ایسوسی ایشنز کی مدَر ایسوسی ایشن Albyföreningsråd اور سویڈن میں مشترکہ قومیت اور ثقافتی اقدار کی تنظیم Samarbetsorgan för Etniska organisationer i Sverige کا تعاون شامل تھا۔ اس تقریب میں پاکستانی، ترکی، تیونس اور سویڈن سے تعلق رکھنے والی شخصیات جن میں عیسائی اور مسلمان دونوں شامل تھے، نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب کے میزبان Albyföreningsråd کے صدر آنریری جج لیاقت علی خان صاحب نے مذہبی رواداری اور جمہوریت اور ثقافت کے آپس میں تعلق پر مختصر تعارفی تقریر کی۔
اسکے بعد آلبی مسجد کے پیش امام محمد ناظم صاحب نے عربی زبان میں اپنی مختصر تقریر میں مذہب اسلام اور جمہوریت کے تعلق کو واضح کیا۔ آلبی مسجد کے منتظم اعلی جناب توفیق جریدی کی ذوجہ محترمہ کریمہ جریدی نے امام صاحب کی عربی زبان والی تقریر کی سویڈش میں تفصیل بیان کی۔
اکیومینیا چرچ کی پادری کارن ہماتی نے مذہب عیسائیت اور جمہوریت پر تفصیل سے بات کی اور حاضرین کو بتایا کہ عیسائیت مذہب جمہوریت اور شخصی آزادی کو سپورٹ کرتا ہے اور سویڈن میں کافی عرصے سے مذہب اور جمہوری حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا ہے جس سے لوگوں کو زیادہ مذہبی اور شخصی آزادی ملی ہے۔
سجادہ نشین دربار نقشبندیہ کرور پاکستان کے پیر سید ذوالفقار حسین شاہ بخاری جو سویڈن سٹاک ہوم میں نامور اسلامی سکالر ہیں، انہوں نے اسلام اور جمہوریت کے تعلق پر تفصیل سے خطاب کیا۔ جسمیں انہوں نے اسلام اور دنیا کے پہلے تحریری دستور میثاق مدینہ کا حوالہ دیا۔ میثاق مدینہ میں اللہ اور رسول صلی اللہ وسلم کی حاکمیت کے بعد تقسیم اختیارات، آئینی طبقات، سیاسی وحدت، مملکت کی اخلاقی اساس، قانون اور سیاسی نظام کی بالادستی، معاشی کفالت کا تصور، دفاعی معاہدہ، انسانی حقوق کی ضمانت، اقلیتوں کا تحفظ، مذہبی آزادی کا تحفظ اور خواتین کے حقوق پر زور دیا گیا تھا۔
آج سے پندرہ سو سال پہلے ان چیزوں کا لوگوں کو ابھی شعور نہیں تھا جب اسلام نے لوگوں کی زندگیوں میں یہ قوانین نافذ کر دئیے تھے۔ اسلام نے مساوات اور حقوق کا جو نظام 15 صدیاں پہلے مدینہ کی سرزمین پر نافذ کر دیا تھا وہ یورپین کنونشن آف ہیومن رائٹس آج بھی دینے سے قاصر ہے۔ اس بات کی گواہی یورپین رائٹر فلپ ہٹی نے ان الفاظ میں دی ہے کہ محمد صلی اللہ وسلم نے انسانوں کیلئے مساوات کی بنیاد پر ایک شاندار معاشرہ قائم کیا۔
اسکے بعد تقریب میں موجود لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ورکنگ گروپس بنائے گئے اور ان سے درج ذیل سوالات پر بحث کرنے کی درخواست کی گئی۔
—-کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذہب اور جمہوریت آپس میں متصادم ہیں؟
—-کیا مذہب اور جمہوریت اکٹھے چل سکتے ہیں؟
—-مختلف عقیدوں سے تعلق رکھنے والے افراد کس طرح ایک معاشرے میں اکٹھے کام کر سکتے ہیں؟
ہر گروپ سے ایک ایک نمائندہ نے ان سوالات کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور اجتماعی طور پر یہ نتیجہ آخذ کیا گیا کہ عیسائیت اور اسلام دونوں مذاہب انسانی حقوق اور جمہوریت کے حامی ہیں اور لوگ مذاہب پر عمل پیرا ہو کر سویڈن جیسے کثیرالنسلی اور کثیرالمذہبی معاشرے میں محبت اور امن سے اکھٹے رہ سکتے ہیں۔
تقریب کے شرکاء نے اس پروگرام کو بہت مفید قرار دیا جسپر پروگرام کے منتظمین نے ایسے دو مزید پروگرام ستمبر اور نومبر میں کروانے کا اعلان کیا جسکی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
تقریب کے آخر میں حاضرین کیلئے ایک پرتکلف افطاری اور ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جسمیں پاکستانی ترکی اور عربی کھانے موجود تھے۔ آلبی کے مشہور پاکستانی ذائقہ ریسٹورینٹ نے بھی اپنا کھانے کا سٹال لگایا ہوا تھا۔ حاضرین نے خوب دل بھر کر کھانا کھایا اور دوست احباب سے خوب باتیں کیں۔ اس تقریب کو مجموعی طور پر سراہا گیا اور لوگوں کو مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے نظریات جاننے کا موقع ملا۔