ذوالفقار علی بھٹو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے جس جماعت کی بنیاد رکھی اسے چند ہی سالوں میں عروج حاصل ہو گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو جب خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ایک رہنما ملا تو چند سالوں میں ہی وہ سیاسی افق پر چھا گئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد اس جماعت میں میرٹ کی بجائے وراثت کا اصول رائج ہو گیا۔ تاہم چونکہ بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت کے اثرات معاشرے پر موجود تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو خود قائدانہ صلاحیتوں کی مالک خاتون تھیں اس لئے پیپلز پارٹی نے ایک ملک گیر جماعت کے طور پر اپنا وجود قائم رکھا۔ اس دور کی سماجی اقدار میں وراثت کے اصول کو بھی بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ بات بھی بے نظیر صاحبہ کے حق میں گئی۔ اس سب کے باوجود چونکہ میرٹ کی بجائے وراثت کا اصول خاموشی سے رائج ہو چکا تھا اس لئے بے نظیر بھٹو کے بعد اس کے منفی اثرات نمودار ہوئے اور صرف پانچ سال کے عرصے میں ہی پیپلز پارٹی ایک ملک گیر جماعت سے سکڑ کر صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔
آج اگر اس صوبے سے جاگیردارانہ نظام ختم ہو جائے تو پیپلز پارٹی وہاں سے بھی چند نشستیں ہی جیت پائے گی۔ اسی سے ملتی جلتی کہانی گانگریس کی ہے جہاں نہرو نے میرٹ کے ذریعے قیادت حاصل کی، اندرا گاندھی کی صورت میں وراثت اور میرٹ نے مل کر جماعت کو زندہ رکھا۔ لیکن ان کے قتل کے بعد اس غلط روایت نے اپنا اثر دکھایا اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ گانگریس کو ایک چائے والے نے شکست فاش دی جسے اس کی پارٹی نے میرٹ پر قیادت سونپی تھی۔ میاں نواز شریف نہرو یا بھٹو کی سطح کے رہنما نہیں ہیں. انہیں پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کی خواہشمند قوتوں نے اپنے مہرے کی طرح آگے بڑھایا اور ایک کامیاب تاجر کی نفسیات کے تحت انہوں نے اس سنہری موقع سے پورا فائدہ اٹھایا۔ انہیں چونکہ تجارت کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا تھا اس لئے انہوں نے سیاست کو بھی تجارت کی طرح چلایا۔ وفادار بیوروکریٹس کی ایک طویل قطار پیدا کی گئی، دانشوروں کو خریدا گیا، عدلیہ میں اپنے لوگ شامل کئے گئے اور موقع پرست سیاست دانوں کی ایک کھیپ کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اپنے ساتھ ملایا گیا۔
ان کے تاجرانہ طرزسیاست سے اختلاف کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہیں مسلم لیگ کی رہنمائی وراثت میں نہیں ملی بلکہ انہوں نے اسے اپنے زور بازو پر حاصل کیا۔ تاہم میاں صاحب کی پچھلے چار سال کی کارکردگی سے یوں لگتا ہے کہ ایک طویل سیاسی اننگز کے بعد وہ اکتا چکے ہیں اور وراثت کے بدنما اصول کے تحت مریم نواز صاحبہ کو پارٹی کی قیادت سونپی جا رہی ہے۔ مستقبل میں مریم صاحبہ کی کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہیں اور اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ بیسویں صدی کے دوران اس خطے میں سماجی تبدیلیاں بہت سست رفتار طریقے سے نمودار ہوا کرتی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے عوام سماجی معاملات میں سٹیٹس کو پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی تبدیلی کو اپنی جگہ بنانے میں ایک طویل عرصہ لگ جایا کرتا تھا۔ چنانچہ جب بھٹو صاحب نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے میں مقبولیت حاصل کی تو ان کے جانے کے بعد بھی اثرات موجود رہے جنہیں ختم ہونے میں بہت وقت لگا۔ اس سست رفتار تبدیلی کے پیچھے وہ غلامانہ ذہن کارفرما تھا جس نے پرانی نسلوں کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ جاگیردارانہ نظام سے پیدا ہونے والی وہ نفسیات جو وراثت اور میرٹ کو مترادف گردانتی تھی، پورے معاشرے پر قابض تھی ۔ اسی لئے اس خطے میں وراثت کا اصول کامیاب ہوتا رہا۔
آج پرائیویٹ چینلز، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا کی بدولت ہر شعبے میں تبدیلی کی رفتار تیز ہو چکی ہے۔ اخلاقی اقدار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، فرد کی آزادی کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آ چکا ہے، فکری، نظریاتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی، ہر قسم کا سٹیٹس کو نئی نسل نے رد کر دیا ہے۔ آج کا نوجوان اس ذہنی غلامی سے آزاد ہو چکا جو تبدیلی سے خوفزدہ رہتی ہے۔ یہ آزاد ذہن وراثتی لیڈرشپ کو تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں جو جماعتیں اس سماجی تبدیلی کو نہ سمجھ سکیں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت میں گانگریس اور پاکستان میں پیپلز پارٹی اس کی مثالیں ہیں۔ میرٹ کو اپنانے کے لئے آزاد ذہن بنیادی شرط ہے اس کے برعکس غلامانہ سوچ کے لئے وراثت واحد خوبی ہے۔ بیسویں صدی میں نہرو اور اندرا گاندھی یا بھٹو اور بے نظیر کی جماعتیں میرٹ کا اصول توڑ کر بھی تین چار دہائیوں تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی تھیں لیکن اکیسویں صدی میں ایسا کرناممکن نہیں۔پاکستان تحریک انصاف میں نوجوانوں کی بے پناہ شرکت کے پیچھے بھی یہی امید کارفرما ہے کہ قیادت کا میدان ہر کسی کے لئے کھلا ہے۔ عمران خان کے بعدان کے بیٹوں نے سیاسی گدی نہیں سنبھالنی بلکہ جس میں قابلیت ہو گی رہنمائی بھی اسی کے حصے میں آئے گی۔
مستقبل قریب میں صرف وہی سیاسی جماعت طویل العمری کی صلاحیت حاصل کر سکے گی جو خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر اپنا لیڈر منتخب کرے گی۔ غالب امکان ہے کہ اے این پی، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر وراثتی جماعتیں اگلی ایک دہائی میں اپنا ووٹ بنک کھو بیٹھیں گی۔ جس طرح پی ٹی آئی نے ہر سیاسی جماعت کا ووٹ بنک توڑا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ معاشرہ اب غلامی کی زنجیریں توڑ رہا ہے۔اگر ہم برطانیہ یا امریکہ کی سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائیں تو ان کی عمریں ایک ڈیڑھ صدی سے اوپر ہیں۔ ان پارٹیوں کی طویل العمری کا راز بھی یہی ہے کہ وہ میرٹ پر اپنی قیادت منتخب کرتے ہیں۔ کانگریس بھی ایک قدیم جماعت ہے۔ اس میں جب تک میرٹ کا اصول چلتا رہا یہ ایک زندہ اور توانا جماعت کے طور پر کام کرتی رہی۔ جونہی اس میں وراثت کا کلچر پیدا ہوا، یہ زوال پذیر ہونے لگی۔
قمر الزمان کائرہ اور اعتزاز احسن جیسے باشعور سیاسی رہنما چونکہ پرانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ بھی ذہنی زنجیروں سے آزاد نہیں ہو پائے اور وراثت کے ذریعے قیادت حاصل کرنے والے ایک کم عمر نوجوان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے معاشرے میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ان کی نگاہوں سے کیسے چوک گئی۔ یہی صورتحال خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال جیسے پختہ سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جن کے سامنے پارٹی لیڈرشپ باپ سے بیٹی کو منتقل ہونے جا رہی ہے اور وہ اس تباہ کن طریق کار کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت اہم سیاسی جماعتوں میں صرف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی وراثت کے عذاب سے بچی ہوئی ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ مستقبل میں ان کی قیادت میرٹ کی بنیاد پر منتخب کی جائے گی۔ تاہم یہ دونوں جماعتیں دائیں بازو کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک لبرل اور ترقی پسند جماعت کے لئے میدان خالی ہے۔ اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ ایک ایسی جماعت اگلے چند سالوں میں میدان میں آئے گی اور ایک حقیقی دو جماعتی نظام جنم لے گا۔