1 : ہے آج دماغ آسماں پر
لقد كان لكم فی رسول الله أسوةٌ حسنةٌ
ترجمہ: “در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا۔”
(الاحزاب : 21)
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) کے اسوۂ حسنہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں، لیکن ان سے صاحبِ علم حضرات ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے کم پڑھے لکھے بھائی یا آج کل کے نوجوان اُن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے وہ اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔
یہ خواہش بہت دنوں سے تھی کہ اسوۂ حسنہ کا کوئی ایسا مجموعہ مرتب ہو جائے جس سے ہر کس و ناکس فائدہ اٹھا سکے اور اپنے امتی ہونے کا حق کسی نہ کسی حد تک ادا کر سکے۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس واقعہ کو نظر انداز کروں اور کس کو منتخب کروں۔ اس گلدستہ کا ہر پھول بے مثال، ہر ایک کی خوشبو میرا دامنِ دل کھینچ رہی تھی کہ”میں یہاں ہوں”۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ نہ چھوڑتے بن رہا تھا نہ پکڑتے بن رہا تھا۔
میرے اللہ نے میری مدد فرمائی۔ ذہن میں ایک خیال ابھرا ” کیوں نہ سیرت کے ان واقعات کو مرتب کر دوں جو ہماری روزمرّہ کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتے ہوں۔” اس خیال کے آتے ہی میری آنکھیں جگمگا اٹھیں، دل خوشی سے لبریز ہو گیا، منہ مانگی مراد مل گئی۔ اسی بہانہ سے ایک بار پھر اپنے آقاﷺ کی خدمت کا موقع نصیب ہو گیا۔ دماغ آسمان پر اُڑنے لگا۔ قلم نے اپنا کام شروع کر دیا۔
اللہ کی مدد مجھ کم مایہ کے شاملِ حال رہی۔ یہ مختصر سا مجموعہ مرتب ہو گیا جو حجم میں چھوٹا ضرور ہے مگر ہے بہت قیمتی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر عنوان ایک ہی صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور زبان آسان ہے۔
ناظرین سے گزارش ہے کہ اس کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی زندگیوں میں اسے سمونے کی کوشش کریں۔
اس مجموعہ کو مرتب کرنے میں کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرتبین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!
1۔ اسوۂ حسنہ از امام ابن قیم رحمہ اللہ، مطبوعہ مکتبہ الحسنات دہلی
2۔ سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی رحمہ اللہ، مطبوعہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ
3۔ سیرت النبیﷺ از علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ، مطبوعہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ
4۔ آدابِ زندگی از مولانا یوسف اصلاحی، مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی
عرفان خلیلی (صفی پوری)
مرکزی درسگاہ اسلامی۔ رامپور
٭٭٭
2: آپﷺ گفتگو کیسے کرتے تھے؟
رسول اللہﷺ اپنا وقت فالتو باتوں میں برباد نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ زیادہ تر خاموش رہتے۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ آپﷺ اسی وقت گفتگو فرماتے جب بولنے کی ضرورت ہوتی۔ آپﷺ جلدی جلدی اور کٹے کٹے لفظ نہیں بولتے تھے۔ آپﷺ کی گفتگو بہت صاف اور واضح ہوتی۔ نہ آپ ضرورت سے زیادہ لمبی بات کرتے اور نہ اتنی مختصر ہوتی کہ سمجھ میں نہ آتی۔ آپ کے جملے بہت نپے تلے ہوتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” آپ ٹھیر ٹھیر کر بولتے۔ ایک ایک فقرہ اس طرح واضح ہوتا کہ سننے والے کو پوری تقریر یاد ہو جاتی۔” آپﷺ کی آواز بلند تھی اور اچھی طرح سنی جا سکتی تھی۔
آپﷺ کسی کی بات بیچ سے کاٹتے نہ تھے بلکہ پوری بات کہنے کا موقع دیتے اور توجہ سے سنتے تھے۔
آپﷺ مسکراتے ہوئے نرم لہجہ میں بات کرتے تھے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی یا چاپلوسی کی باتیں زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ آپﷺ ہمیشہ انصاف کی بات کہتے تھے اور منہ دیکھی بات پسند نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ کٹ حجتی سے پرہیز کرتے تھے۔
دشمن کو بھی نہ تلخ جواب آپ ﷺ نے دیا
اللہ رے حلاوتِ گفتارِ مصطفےٰ
(ابو المجاہد زاہد)
٭٭٭
3: آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے
رسولﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے اور جھوٹ کے پاس بھی کبھی نہ پھٹکتے تھے۔ آپ کی زبانِ مبارک سے کبھی کوئی غلط بات سننے میں نہیں آئی یہاں تک کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹی بات آپﷺ کی زبان سے نہیں نکلتی تھی۔ آپﷺ کے دشمنوں نے آپﷺ پر طرح طرح کے الزامات لگائے مگر آپ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ابو جہل آپ کا کتنا بڑا دشمن تھا۔ وہ بھی کہا کرتا تھا:
“محمدﷺ ! میں تم کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ تم نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں، البتہ جو باتیں تم کہتے ہو ان کو میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔”
یاد کیجئے اُس واقعہ کو جب حضورﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش والوں سے یہ سوال کیا تھا:
“اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟”
سب نے ایک زبان ہو کر جو جواب دیا تھا وہ آپ کے صادق القول ہونے کی دلیل ہے۔
بولے ” ہاں! ہم ضرور یقین کریں گے کیوں کہ تم کو ہمیشہ سے ہم نے سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔
جانِ حیات ہے ترے اخلاق کی جھلک
خود زندگی ہے موت کا ساماں ترے بغیر
(ماہر القادری)
٭٭٭
4: آپﷺ وعدے کے پکے تھے
پیارے نبیﷺ بات کے دھنی تھے۔ جو وعدہ فرما لیتے تھے اسے پورا کر کے رہتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جس سے عہد شکنی ثابت کی جا سکے۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اعتراف کرتے تھے۔
تاریخ کو دیکھیے۔ قیصرِ روم ابو سفیان سے دریافت کرتا ہے” کیا محمد نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟” ابو سفیان کا جواب نفی میں سن کر وہ کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔
صلح نامۂ حُدیبیہ کی ایک شرط تھی “کوئی مکہ والا مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو واپس کر دیا جائے گا۔” ٹھیک اسی وقت جب یہ عہد نامہ تحریر کیا جا رہا تھا ابو جندل رضی اللہ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر مدینہ آ جاتے ہیں اور رسول اللہﷺ کو اپنی حالتِ زار دکھا کر فریادی ہوتے ہیں۔ یہ منظر بہت ہی درد انگیز اور جذباتی تھا۔ تمام مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں، لیکن حضورﷺ نہایت اطمینان اور پُر وقار انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ______ “ابو جندل ! تم کو واپس جانا ہو گا، میں بد عہدی نہیں کرسکتا۔” الفاظ کرب و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ آپ کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
٭٭٭
5: آپﷺ بد زبانی سے پرہیز کرتے تھے
بد زبانی ایسی بری عادت ہے کہ جس میں یہ عادت پائی جاتی ہے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، وہ شخص دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے، سب اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ بد زبان آدمی سے لوگ ملنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ “خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بُرا شخص وہ ہو گا جس کی بد زبانی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔”
بد زبانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔”
بد زبانی ہی کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ حضورﷺ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ (مسلمان کا) مسلمان کو برا بھلا کہنا فِسق ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔”
ایک بار رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے۔” صحابہ رضی نے حیرت سے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ‘اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا کہے گا تو جواب میں وہ اُن کے ماں باپ کو برا کہے گا۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں بد زبانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
لہجۂ لب سے ہوئے سنگ بھی موم
کتنا پیار آپ کی گفتار میں ہے
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
6: آپﷺ کو غیبت سے نفرت تھی
غیبت سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، اچھے دل برے ہو جاتے ہیں۔ عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو قرآن کریم میں غیبت کرنے والے کی مثال ایسے شخص سے دی گئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
___ توبہ! توبہ _____ کتنی گھناؤنی عادت ہے کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا۔
غیبت کے بارے میں پیارے نبیﷺ سے سوال کیا گیا کہ “یا رسول اللہ ! غیبت کس کو کہتے ہیں؟”
آپﷺ نے فرمایا ” تمہارا اپنے بھائی کی اُن باتوں کا ذکر کرنا جن کو وہ سنے تو اُسے ناگوار گزرے۔”
پھر پوچھا گیا کہ “اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کو بیان کیا گیا ہے؟”
آپﷺ نے جواب دیا کہ ___ “اگر وہ عیب اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان (جھوٹا الزام) لگایا۔”
اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم کو بچائے۔ آمین!
ترے کردار پر دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
ترے اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
ماہر القادری
٭٭٭
7: آپﷺ میٹھے بول بولتے تھے
رسول اللہﷺ جب بھی کسی سے بات کرتے تو اس کے منصب اور ادب و احترام کا خیال رکھتے تھے۔ اس سے آپس کے تعلقات اچھے رہتے ہیں اور میل جول بڑھتا ہے۔ اچھی عادتوں میں سلام کرنا، شکریہ ادا کرنا، مزاج پوچھنا، نصیحت کرنا اور نیکی کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا “جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ زبان سے اچھی بات نکالے ورنہ چپ رہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بد کلامی اور ایسی باتوں سے بچنا چاہیے جس سے دوسروں کا دل دُکھے۔
ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” اچھی بات صدقہ ہے یعنی میٹھی زبان استعمال کر کے دوسروں کے دل جیت لینا بہت بڑی نعمت ہے۔
ایک صحابی نے دریافت کیا کہ “یا رسول اللہ ! نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟”۔۔۔۔۔
آپﷺ نے فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو۔ “یعنی پہلے تولو پھر بولو۔ تاکہ تمہاری باتوں سے کسی کا دل نہ دکھنے پائے اور تمہاری زبان سے ایسے کلمے نہ ادا ہوں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔
ایک دفعہ آپﷺ نے جنت کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ ایک صحابی بے تاب ہو کر بولے:
یا رسول اللہ ! یہ جنت کس کو ملے گی؟” حضورﷺ نے فرمایا “جس نے اپنی زبان سے بری باتیں نہیں نکالی ہوں گی۔”
دیکھیے جنت حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی زبان سے کوئی بری بات نہ نکالیں۔
٭٭٭
8: آپﷺ مذاق بھی کرتے تھے
پیارے نبیﷺ مذاق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں بھی آپ (صلی اللہ ولیہ وسلم) کبھی غلط بات زبان سے نہیں نکالتے تھے۔
ایک بار ایک بوڑھی عورت آپﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے دعا کیجئے اللہ مجھے جنت عطا فرمائے۔ “حضورﷺ نے ارشاد فرمایا “مائی مجھے افسوس ہے کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔” یہ سن کر وہ بڑھیا زار و قطار رونے لگی۔ آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ” بے شک کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جانے پائے گی البتہ اللہ تعالیٰ ان کو جوان بنا دے گا پھر وہ جنت میں جائیں گی۔” یہ سنتے ہی بڑھیا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
ایک شخص نے حضورﷺ سے سواری کے لیے اونٹ مانگا۔ آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
“ہم تمہیں اونٹنی کا ایک بچہ دیں گے۔” اس نے حیرت سے کہا “میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ مجھے تو سواری کے لئے ایک اونٹ چاہئے۔” آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا “ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔” سب ہنس پڑے۔
ایک دفعہ کھجوریں کھائی جا رہی تھیں۔ حضورﷺ مذاق کے طور پر اپنی گٹھیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈالتے رہے۔ آخر میں فرمایا کہ “علی نے سب سے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں۔” انھوں نے جواب دیا کہ “آپ نے تو گٹھلیوں سمیت کھائی ہیں۔”
٭٭٭
9 : آپﷺ کس طرح کھاتے پیتے تھے؟
کھانے پینے کا سلسلے میں آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ جو چیز سامنے رکھ دی جاتی، آپﷺ ہنسی خوشی تناول فرما لیتے، بشرطیکہ وہ پاک و حلال ہو۔ اگر طبیعت کراہت محسوس کرتی تو ہاتھ روک لیتے مگر دسترخوان پر کھانے کی برائی نہ فرماتے۔
ہاتھ دھو کر کھانا شروع کرتے اور پلیٹ کے کنارے سے کھاتے۔ بیچ میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ اگر پلیٹ میں کچھ بچ جاتا تو آپ اسے پی لیتے یا انگلی سے چاٹ لیتے۔ کھانے سے فارغ ہو کر آپﷺ انگلیاں چاٹتے اور پھر ہاتھ دھو لیتے۔ ٹیک لگا کر کھانے سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔
پانی ہمیشہ بیٹھ کر پیتے۔ آپﷺ نے فرمایا “پانی پیوں تو چوس کر پیو، برتن میں سانس مت لو بلکہ برتن ہٹا کر سانس لے لو۔ ایک ہی سانس میں پانی نہ پیو، دو یا تین دفعہ کر کے پیو۔ اس طرح پینا مفید ہے۔”
آپﷺ بسم اللہ کہہ کر کھانا پینا شروع فرماتے۔ جب کھا پی چکتے تو الحمد اللہ فرماتے یا پھر یہ دعا پڑھتے:
الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین
ترجمہ: ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔
٭٭٭
10: آپﷺ بہت شرمیلے تھے
شرم و حیا انسان کی قدرتی خا صیت ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس سے ہم میں بہت سی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور پرورش پاتی ہیں اور ہم بہت سی برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ “حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔” جس میں شرم و حیا نہیں وہ ایماندار نہیں۔
پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ ننگے ہونے سے بچو کیوں کہ تمہارے ساتھ ہر وقت اللہ کے فرشتے رہتے ہیں البتہ جب تم پیشاب پاخانے کو جاتے ہو تو وہ الگ ہو جاتے ہیں تو تم ان سے شرم کرو اور ان کا خیال رکھو۔
آپ کو رسولﷺ کے بچپن کا واقعہ تو یاد ہو گا جب کعبہ کی دیوار کی مرمت ہو رہی تھی۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی پتھر کندھوں پر رکھ کر لا رہے تھے۔ پیارے نبیﷺ بھی ان میں شریک تھے۔ جب کندھے دکھنے لگے تو لڑکوں نے تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لیے۔ حضورﷺ کے چچا نے آپﷺ سے ایسا ہی کرنے کو کہا۔ جب بہت اصرار کیا تو مجبوری کی حالت میں آپﷺ نے تہبند کھولنا چاہا تو مارے شرم کے بے ہوش ہو گئے۔ جب چچا نے یہ دیکھا تو منع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھا آپ نے ہمارے نبیﷺ کتنے حیا دار تھے۔ آئیے ہم بھی بے شرمی کی باتوں سے بچیں تاکہ ہمارا اللہ ہم سے خوش ہو۔
٭٭٭
11: آپﷺ بہت رحمدل تھے
اچھے اخلاق کی بنیادی صفتوں میں سے ایک صفت رحمدلی ہے۔ رحم کا جذبہ ہمیں نیکی کرنے پر ابھارتا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں دوسروں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے اور اچھے سلوک کرنے پر ابھارتا ہے، بدسلوکی سے بچاتا ہے۔
پیارے نبیﷺ نے فرمایا “جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔”
صرف انسانوں ہی کے ساتھ نہیں بلکہ بے زبان جانوروں پر بھی رحم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تفریح کے طور پر جو لوگ جانوروں کو لڑاتے ہیں جس سے وہ لہو لہان ہو جاتے ہیں، رسول اللہﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ ذبح کرنے سے پہلے جانور کو پانی پلانے اور چھری تیز کر لینے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ایک دفعہ ایک صحابی چڑیا کے بچوں کو پکڑ لائے۔ چڑیا چوں چوں کرتی ان کے پیچھے پیچھے آئی۔ حضورﷺ نے جب یہ دیکھا تو صحابی سے فرمایا کہ بچے اس گھونسلے میں رکھ آؤ۔
آئیے ہم بھی عہد کریں کہ ہم ہر ایک کے ساتھ بھلائی اور رحمدلی کا برتاؤ کریں گے۔
تمہیں یتیموں کے چارہ گر ہو، تمہیں شکستہ دلوں کے پُرساں
سبھی کے ہمدم، سبھی کے یارو، سلام تم پر درود تم پر
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
12 : آپﷺ بہت تیز چلتے تھے
حضورﷺ کی چال بہت تیز تھی۔ آپ چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں قدم گھسیٹ کر نہ چلتے۔ بدن سمٹا ہوا رہتا۔ قوت سے آگے قدم بڑھاتے۔ آپﷺ کا جسم مبارک بہت تھوڑا سا آگے جھکا ہوا رہتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اونچائی سے نیچے کی طرف آ رہے ہوں۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ “آنحضرتﷺ جب چلتے تو اس طرح چلتے کہ جیسے ڈھلوان پہاڑی پر سے اتر رہے ہوں۔”
آپﷺ کی چال شرافت، عظمت اور احساس ذمہ داری کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ آپﷺ کے چلنے کا ڈھنگ ہمیں یہ پیغام دیتا تھا کہ “زمین پر گھمنڈ کی چال نہ چلنا چاہئے۔”
آپﷺ کی رفتار کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہما) فرماتے ہیں کہ “آپ معمولی رفتار سے چلتے تب بھی ہم مشکل ہی سے ساتھ دے پاتے تھے۔”
آپﷺ کا دستور تھا کہ جب صحابہ ساتھ ہوتے تو آپﷺ ان کو یا تو ساتھ کر لیتے یا آگے کر دیا کرتے تھے۔
نسیمِ وادی و صحرا ہویا شمیم چمن
ہر اک انہیں ﷺ سے ادائے سبک روی مانگے
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
13: آپﷺ بالوں کا خیال رکھتے تھے
رسول اللہﷺ کے بال بکھرے ہوئے اور پریشان نہیں رہتے تھے کہ جنھیں دیکھ کر وحشت پیدا ہو۔ آپﷺ ان میں اکثر تیل ڈالا کرتے تھے اور کنگھا فرماتے تھے۔آخر زمانہ میں آپﷺ مانگ بھی نکالنے لگے تھے۔ آپﷺ کی داڑھی کے بال بھی پریشان نہیں رہتے تھے بلکہ ان میں بھی آپ کنگھی کرتے تھے۔
ایک بار آپﷺ نے ایک شخص کے بال بہت پریشان دیکھے تو فرمایا کہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ بالوں کو درست کر لے۔
آپﷺ دانتوں کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ پنج وقتہ وضو کرتے ہوئے آپ مسواک ضرور فرماتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ “مسواک منہ کی صفائی اور پروردگار کی خوشنودی ہے۔”
ہر برائی کو دیا دیس نکالا جس نے
ڈگمگاتے ہوئے انساں کو سنبھالا جس نے
آدمیت کو نئے طرز پہ ڈھالا جس نے
کر دیا مشرق و مغرب میں اجالا جس نے
اسی انسان کو محبوبِ خدا کہتے ہیں
نام سنتے ہیں تو سب صل علی کہتے ہیں
(ماہر القادری)
٭٭٭
14: آپﷺ کا لباس کیسا تھا؟
لباس کے بارے میں حضورﷺ کی سنت یہ تھی کہ آپ کسی خاص وضع قطع کے کپڑے کے پابند نہ تھے بلکہ ہر وہ کپڑا جو ستر کو پوری طرح ڈھانک سکے آپﷺ نے استعمال فرمایا ہے۔ آپ نے اچھے سے اچھے کپڑے بھی پہنے ہیں اور معمولی سے معمولی بھی، یہاں تک کہ پیوند لگے کپڑے بھی پہنے ہیں۔ جو لوگ تقویٰ کے خیال سے اچھے کپڑے اور اچھے کھانے کو منع کرتے ہیں، یا جو لوگ موٹے جھوٹے کھانے کپڑے کو غرور کی وجہ سے نا پسند کرتے ہیں، دونوں کا رویہ پیارے نبیﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ حضورﷺ ہمیشہ درمیانی راستہ اختیار فرماتے تھے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا “جو کوئی دنیا میں اپنی شہرت کے لیے لباس پہنے گا (خواہ عمدہ لباس ہو یا پھٹا پرانا ہو) آخرت میں خدا اُسے ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا۔” آپﷺ نے یہ بھی فرمایا “جس کسی نے غرور سے اپنے لباس کا دامن بڑا رکھا، قیامت کے دن خدا اس کی طرف نہ دیکھے گا۔”
ایک صحابی نے دریافت کیا “یا رسول اللہ! میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ میرا لباس اچھا ہو، میرا جوتا اچھا ہو، کیا یہ غرور ہے؟” آپﷺ نے وضاحت فرمائی “نہیں اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ غرور۔۔ حق کو ٹھکرانا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔”
٭٭٭
15: آپﷺ کپڑے کیسے پہنیں؟
پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہمیں ایسا لباس پہننا چاہیے جو پوری پوری ستر پوشی کر سکے اور جس سے ہم میں غرور نہ پیدا ہو سکے۔ عورتوں اور مردوں کے لباس میں فرق ضروری ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ “خدا نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں جیسے کپڑے پہنتے ہیں اور ان عورتوں پر بھی لعنت ہے جو مردوں کے لباس کی نقل کرتے ہیں۔”
آپﷺ نے مردوں کے لیے ریشمی کپڑا پہننا حرام قرار دیا ہے۔ آپﷺ کو سفید رنگ کا کپڑا بہت پسند تھا۔ آپﷺ نے فرمایا “سفید کپڑا سب سے بہتر ہے۔” اور سرخ کپڑا مردوں کے لئے ناپسند کیا ہے۔
رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “ٹخنوں سے اونچا پایجامہ اور لنگی رکھنے سے انسان ہر طرح کی نجاستوں سے پاک رہتا ہے۔” یعنی راستہ کی گندگی اور دل کی گندگی (غرور) سے بچا رہتا ہے۔
حضورﷺ نے سادہ، با وقار اور سلیقہ کا لباس پہننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپﷺ بے ڈھنگے پن کے لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
٭٭٭
16: آپﷺ چھینک اور جمائی کیسے لیتے تھے؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺ چھینک لیتے تو منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیتے جس سے آواز یا تو بالکل دب جاتی یا بہت کم ہو جاتی ایک اور حدیث میں ہے کہ “اونچی جمائی اور بلند چھینک شیطان کی طرف سے ہے، اللہ ان دونوں کو نا پسند فرماتا ہے۔”
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو آپﷺ کے سامنے چھینک آئی، آپ نے قاعدے کے مطابق “یرحمک اللہ” کہا۔ ذرا دیر بعد اُسے پھر چھینک آئی تو آپﷺ نے کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا “اسے زکام ہے۔”
صحیح حدیث میں ہے کہ “اللہ تعالیٰ چھینک کو دوست رکھتا ہے اور جمائی سے نفرت کرتا ہے (کیونکہ یہ کاہلی اور سستی کی نشانی ہے) جب چھینک آئے تو “الحمد للہ” کہو، دوسرے کو چھینکتے اور یہ کہتے سنو تو “یرحمک اللہ” کہو، پھر چھینکنے والا جواب میں “یھد یکم اللہ و یصلح بالکم” کہے۔ (بخاری)
٭٭٭
17: آپﷺ سلام کرنے میں پہل کرتے
رسول اللہﷺ کو سلام کرنے کی عادت بہت پسند تھی۔ آپ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا “تین باتیں جس کسی میں جمع ہو گئیں(سمجھ لو کہ) اس میں ایمان جمع ہو گیا۔
1۔ اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا
2۔ ہر جانے انجانے کو سلام
3۔ تنگی میں خدا کے نام پر خرچ کرنا۔ (بخاری)
آپﷺ کی سنت تھی کہ جب کہیں آپﷺ جاتے سلام کرتے۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر کوئی سلام سے پہلے کچھ پوچھے تو جواب مت دو۔”
ایک مرتبہ کچھ لڑکے کھیل رہے تھے، ان کے پاس سے آپﷺ کا گزر ہوا تو آپﷺ نے ان کو سلام کیا۔(مسلم)
آپﷺ سلام کا جواب ہمیشہ زبان سے دیا کرتے تھے۔ ہاتھ یا انگلی کے اشارے یا صرف سر ہلا کر کبھی جواب نہیں دیتے۔ جب کوئی کسی دوسرے کا سلام آ کر پہنچاتا تو آپﷺ سلام کرنے والے اور پہنچانے والے دونوں کو جواب دیتے۔ فرماتے “علیہ وعلیکم السلام۔”
ہم چھوڑ کے در ان کا برباد ہوئے کیا کیا؟
اس در سے لپٹ جائیں پھر ان کے کرم دیکھیں
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
18: آپﷺ کو صفائی و سادگی پسند تھی
رسول اللہﷺ صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔ اسی لئے تو آپﷺ نے فرمایا ہے۔
“صفائی آدھا ایمان ہے”
ایک دفعہ ایک شخص بہت ہی میلے کپڑے پہن کر آپ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا “کیا یہ آدمی اپنے کپڑے دھونے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا؟”
ایک بار ایک خوشحال شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بہت ہی گھٹیا درجہ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا “اللہ تعالیٰ نے تم کو مال و دولت دی ہے اس کا اظہار تمہاری ظاہری حالت سے بھی ہونا چاہئے۔”
مسجد کی دیواروں پر اگر تھوک وغیرہ کے نشانات دیکھتے تو آپ کو بہت برا معلوم ہوتا۔ آپ خود چھڑی سے کھرچ کر اُسے صاف کر دیتے۔ مسجد میں خوشبو کے لیے لوبان وغیرہ سلگانے کی ہدایت فرماتے۔
آپﷺ خود بھی سادہ زندگی گزارتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے، آپ اپنا کام خود کر لیا کرتے تھے۔
یہ راز اس کملی والے نے بتایا
سکوں کا راستہ بس سادگی ہے
(اقبال صفی پوری)
٭٭٭
19: آپﷺ نفاست پسند تھے
نبی اکرمﷺ کے زمانے میں عربوں میں نفاست پسندی بالکل نہ تھی۔ وہ جہاں چاہتے تھوک دیتے اور راستہ میں رفع حاجت کر لیا کرتے تھے۔ پیارے نبیﷺ اس عادت کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور اس سے منع کرتے تھے۔ احادیث میں کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ حضورﷺ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو راستوں میں یا درختوں کے سایہ میں پیشاب پاخانہ کرتے ہیں۔ امراء اپنی کاہلی کی وجہ سے کسی برتن میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ آپﷺ اس سے بھی منع فرماتے تھے۔ آپﷺ نے بیٹھ کر پیشاب کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
عرب میں پیشاب کر کے استنجا کرنے یا پیشاب سے کپڑوں کو بچانے کا کوئی دستور نہ تھا۔ حضورﷺ ایک دفعہ کہیں تشریف لیے جا رہے تھے، راستہ میں دو قبریں نظر آئیں، آپﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک پر اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچاتا تھا۔
اللہ اللہ یہ فیضانِ ختمِ رسلﷺ
جس کو کہتے تھے دنیا وہ دیں بن گئی (ماہر القادری)
٭٭٭
20: آپﷺ دوستوں کا خیال رکھتے تھے
نبی اکرمﷺ اپنے ساتھیوں سے بیحد محبت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے دوستوں سے سچی محبت کرے اور اس کے دوست اس سے محبت کریں۔ آپﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے ہمیں دوستی کے سلسلہ میں حسب ذیل ہدایت ملتی ہیں:
1۔ ہمیشہ نیک، شریف اور سچے شخص سے دوستی کرنا چاہئے۔
2۔ دوستی خلوص کے ساتھ کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی مطلب یا غرض شامل نہ ہو۔
3۔ دوستوں پر بھروسہ کرنا چاہئے، ان کے ساتھ خیر خواہی اور وفا داری سے پیش آنا چاہئے۔
4۔ ان کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہیں اور مسکراتے ہوئے ملیں۔
5۔ اگر وہ کسی معاملے میں مشورہ چاہیں تو نیک نیتی اور سچے دل سے مشورہ دیں۔
6۔ دوست کی طرف سے اگر کوئی بات طبیعت کے خلاف بھی ہو تو زبان پر قابو رکھیں اور نرمی سے جواب دیں۔
7۔ اگر کسی بات پر آپس میں اختلاف ہو جائے تو جلد ہی صلح صفائی کر لیں۔
8۔ اپنی اور اپنے دوست کی اچھے ڈھنگ سے اصلاح و تربیت کی کوشش کرتے رہیں۔۔۔۔۔۔ !
٭٭٭
21: آپﷺ حسنِ سلوک کے عادی تھے
رسول اکرمﷺ ہر ایک کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے، پاس بیٹھے ہوئے ہر شخص سے آپ اس طرح مخاطب ہوتے جیسے سب سے زیادہ آپ اسی سے محبت کرتے ہیں اور ہر شخص یہی محسوس کرنے لگتا کہ جیسے حضورﷺ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔
جب کوئی شخص کوئی بات دریافت کرتا تو آپﷺ مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے۔ جب کسی خاندان یا قبیلہ کا کوئی معزز آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا، اُس کے مرتبہ کے مطابق اس کی عزت فرماتے لیکن دوسروں کو نظر انداز بھی نہیں فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ آپﷺ حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کو گود میں لیے پیار کر رہے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا “یا رسول اللہ ! میں تو اپنی اولاد کا بوسہ نہیں لیتا۔” آپﷺ نے فرمایا “اگر اللہ تمہارے دل سے محبت کو چھین لے تو میں کیا کروں۔”
جب آپ صحابہ کی مجلس میں بیٹھتے تو کبھی ان کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے۔ آپﷺ مشورہ کے محتاج نہ تھے پھر بھی صحابہ سے برابر مشورہ فرماتے تھے۔
٭٭٭
22: آپﷺ دوسروں کے کام آتے تھے
دوسروں کے آڑے وقت میں کام آنا، ان کی مدد کرنے کے لئے تیار رہنا، یہ پیارے نبیﷺ کی ایک صفت تھی، آپﷺ خدمت خلق کے پیکر تھے۔
ایک مرتبہ حضرتِ خباب بن ارت(رضی اللہ عنہ) کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ ان کے گھر میں کوئی اور مرد نہ تھا۔ عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا۔ آپﷺ روزآنہ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور دودھ دوہ آیا کرتے تھے۔
ایک بار آپﷺ نماز کی نیت باندھے جا رہے تھے کہ ایک بدو آیا۔ آپﷺ کا دامن پکڑ کر بولا “میری ایک معمولی سی ضرورت رہ گئی ہے میں بھول جاؤں گا، اُسے اِسی وقت پورا کر دیجئے۔” آپﷺ فوراً اس کے ساتھ تشریف لے گئے، اس کا کام کر دیا اور پھر واپس آ کر نماز ادا کی۔
بیواؤں اور یتیموں، مسکینوں اور معذوروں کی مدد کرنا نہ آپ کوئی عار سمجھتے تھے اور نہ تھکتے تھے بلکہ ان کی خدمت کر کے آپﷺ اطمینان، سکون اور خوشی محسوس فرماتے تھے۔ صحابہ کو بھی آپﷺ اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ٭٭٭
23: آپﷺ معاملے کے کھرے تھے
رسول اللہﷺ کی امانت داری اور معاملات کی صفائی کا ذکر بیان سے باہر ہے یہ اوصاف آپﷺ کی ذاتِ مبارک میں اس طرح نمایاں تھے کہ آپﷺ کے دشمن بھی ان کا انکار نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ “صادق” اور “امین” کے لقب آپ کو اہلِ خاندان نے نہیں، دوستوں نے نہیں بلکہ آپﷺ کے دشمنوں نے دیا تھا اور اسی لقب سے آپ کو پکارا کرتے تھے۔
مشرکینِ مکہ کے دل آپﷺ کی طرف سے بغض و کینہ اور نفرت و عداوت سے بھرے ہوئے تھے مگر اپنی امانتیں وہ آپﷺ ہی کے سپرد کر کے مطمئن ہوتے تھے۔ آپﷺ کے مقابلے میں وہ کسی دوسرے کا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہجرت کرتے وقت بھی رسول اللہﷺ نے کفار مکہ کی امانتوں کا کتنا معقول انتظام فرمایا تھا۔
ایک دفعہ آپﷺ نے کسی سے ایک اونٹ قرض لیا۔ جب واپس کیا تو اس سے بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا “سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کو خوش معاملگی سے ادا کرتے ہیں۔”
٭٭٭
24: آپﷺ بہت سخی تھے
نبی اکرمﷺ سخاوت کے دریا تھے۔ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس کرنا آپﷺ جانتے ہی نہ تھے۔ اگر اس وقت آپﷺ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آئندہ اُسے دینے کا وعدہ فرما لیتے۔
ایک روز عصر کی نماز پڑھ کر معمول کے خلاف آپﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر فوراً واپس بھی آ گئے۔ صحابہ کو بہت تعجب ہوا۔ آپﷺ نے ان کی حیرت کو دور کرنے کے لیے فرمایا “کچھ سونا گھر میں پڑا رہ گیا تھا۔ رات ہونے کو آئی اس لیے اُسے خیرات کر دینے کو کہنے گیا تھا۔”
ایک بار بحرین سے خراج آیا۔ اس میں اتنی زیادہ رقم تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ حضورﷺ نے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر تقسیم کرنا شروع کر دی۔ شام ہونے سے پہلے ہی آپﷺ دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
آپﷺ کے پاس کوئی بھی کھانے پینے کی چیز آتی، آپﷺ اسے تنہا نہیں کھاتے بلکہ تمام صحابہ کو جو وہاں موجود ہوتے اس میں شریک فرما لیتے تھے۔
٭٭٭
25: آپﷺ بہت انکسار پسند تھے
رسول اللہﷺ کبھی سر اٹھا کر مغرورانہ انداز میں نہیں چلتے تھے، آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔ جب دوسروں کے ساتھ چلتے تو خود پیچھے چلتے اور دوسروں کو آگے کر دیتے۔ آپﷺ بڑے خاکساری کے ساتھ بیٹھتے، کھانا کھاتے وقت غلاموں کی طرح بیٹھتے۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے “میں اللہ کا فرمانبردار بندہ ہوں اور اس کے غلاموں کی طرح کھانا کھاتا ہوں۔
جب کسی مجلس میں پہنچتے تو بیٹھے ہوئے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے نہیں گزرتے تھے، بلکہ پیچھے کی صف میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ جب آپﷺ کو آتا دیکھ کر صحابہ کرام تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے تو آپ فرماتے “میری تعظیم کے لیے کھڑے ہو کر عجمیوں کی نقل نہ کرو۔”
فتح مکہ کے موقع پر جب آپ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو عاجزی اور انکساری کے طور پر سرِ مبارک کو اس قدر جھکا لیا تھا کہ وہ اونٹ کے کجاوے کو چھو رہا تھا۔ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی رعب دار شخصیت کو دیکھ کر کانپنے لگا۔ آپﷺ اس کے قریب گئے اور فرمایا “میں تو اس غریب قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھاتی تھی۔”
٭٭٭
26: آپﷺ کو غرور پسند نہ تھا
انسان میں جب کوئی خاص صفت یا کمال پیدا ہو جاتا ہے تو قدرتی طور پر وہ اترانے لگتا ہے۔ یہ کوئی بری عادت نہیں ہے بلکہ اِسی کو فخر کرنا کہتے ہیں لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو جن میں یہ صفت یا کمال نہیں ہوتا، اپنے سے ذلیل یا کم درجہ کا سمجھنے لگتا ہے تو اسی کو غرور کہتے ہیں۔ غرور کی عادت کو اللہ تعالیٰ بالکل پسند نہیں فرماتا۔
نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک خوبصورت شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے خوبصورتی پسند ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ خوبصورتی میں کوئی بھی مجھ سے بازی لے جائے۔ کیا یہ غرور ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا “نہیں یہ غرور نہیں ہے غرور تو یہ ہے کہ تم دوسروں کو اپنے سے حقیر(کم درجہ) سمجھو۔”
ایک اور موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ “جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہو گا، وہ جنت میں نہ جائے گا”۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بری عادت سے محفوظ رکھے۔
٭٭٭
27: آپﷺ بہت مہمان نواز تھے
رسول اللہﷺ مہمانوں کا بہت خیال کرتے تھے اس کام کے لیے آپﷺ نے حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو خاص طور پر مقرر فرمایا تھا تاکہ مہمان کی خاطر تواضع ٹھیک سے ہو سکے۔ باہر سے جو وفد آتے آپﷺ خود ان کی خاطر مدارات فرماتے تھے۔ اگر ان کو کوئی مالی ضرورت ہوتی تو آپ اس کا بھی انتظام فرما دیتے۔ آپﷺ کی خاطرداری کافر اور مسلمان دونوں کے لیے عام تھی۔ کوئی غیر مسلم بھی آپﷺ کے یہاں آ جاتا تو اس کی تواضع بھی مسلمان مہمان کی طرح سے ہوتی۔
اکثر ایسا ہوتا رہتا کہ گھر میں کھانے پینے کا جو سامان ہوتا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا اور آپﷺ اور آپﷺ کے گھر والے فاقہ سے رہ جاتے۔
ایک دن اصحابِ صُفّہ کو لے کر آپﷺ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر پہنچے (خود آپﷺ کے یہاں کچھ نہ تھا) اور کھانا لانے کے لئے فرمایا۔ چونی کا پکا ہوا کھانا لایا گیا، پھر چھو ہارے کا حریرہ آیا اور آخر میں ایک بڑے پیالے میں دودھ۔ یہی کل کھانا تھا۔
راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ مہمانوں کی خبر گیری فرماتے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
“مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے۔”
٭٭٭
28: آپﷺ بہت خود دار تھے
سوائے اس کے جب کسی کی ضرورت اسے ہاتھ پھیلانے پر بالکل مجبور کر دے، آپﷺ سوال کرنے اور بھیک مانگنے کو بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ “اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اور بیچ کر اپنی آبرو بچائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔”
ایک دفعہ ایک انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کچھ سوال کیا۔ آپﷺ نے دریافت کیا:
تمہارے پاس کچھ ہے؟۔” وہ بولے بس ایک بچھونا اور ایک پیالہ ہے۔ آپﷺ نے انہیں لے کر فروخت کیا اور رقم ان انصاری کو دے کر فرمایا “ایک درہم کا کھانا لا کر گھر میں دے آؤ اور دوسرے سے رسی خرید کر جنگل جاؤ۔ لکڑی باندھ کر لاؤ اور شہر میں بیچ لو۔”
15 روز کے بعد وہ انصاری آئے ان کے پاس کچھ درہم جمع ہو گئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا” یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرے پہ گداگری کا داغ لگا کر جاتے۔”
آپﷺ نے فرمایا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف 3 شخصوں کے لیے مناسب ہے۔
1۔ وہ شخص جو بہت زیادہ قرضدار ہو۔
2۔ وہ شخص جس پر ناگہانی مصیبت آ پڑی ہو۔
3۔ وہ شخص جو کئی فاقوں سے ہو۔
ان کے علاوہ اگر کوئی کچھ مانگتا ہے تو حرام کھاتا ہے۔”
٭٭٭
29: آپﷺ برابری کا برتاؤ کرتے
رسولﷺ کی نظر میں امیر غریب، چھوٹے اور بڑے، غلام اور آقا سب برابر تھے۔ آپﷺ سب کے ساتھ برابر کا سلوک کیا کرتے تھے۔ آپ جب صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور کوئی چیز وہاں لائی جاتی تو بغیر کسی امتیاز کے دائیں، طرف سے اس کو بانٹنا شروع کر دیتے۔ آپﷺ اپنے لئے بھی کسی قسم کا کوئی امتیاز پسند نہ فرماتے تھے۔ آپﷺ ہمیشہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتے۔ دوسروں سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بھی پسند نہ کرتے تھے۔
آپﷺ سب کے ساتھ مل جل کر کام کیا کرتے تھے یا ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔
دیکھ لیجئے احزاب کی جنگ کے لئے تیاری ہو رہی ہے، مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کھودی جا رہی ہے۔ تمام صحابہ خندق کھود رہے ہیں اور مٹی لا لا کر پھینک رہے ہیں، وہ دیکھئے رسول اکرمﷺ بھی سب کے ساتھ برابر کے شریک ہیں جسم مبارک گرد سے اَٹا ہوا ہے۔ 3 دن کا فاقہ ہے مگر پھر بھی مستعدی میں کوئی فرق نہیں۔ یاد ہو گا کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی آپﷺ مزدوروں کی طرح سب کے ساتھ شریک رہے تھے۔
٭٭٭
30: آپﷺ ایثار کے عادی تھے
سخاوت کا سب سے اونچا درجہ ایثار کہلاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ضرورت روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کر دینا۔ خود بھوکا رہے اور دوسروں کو کھلائے، خود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچانے کی کوشش کرے، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔
رسولﷺ کی مبارک زندگی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایک دفعہ ایک مسلمان عورت نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بُن کر حضورﷺ کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کی۔ اس وقت آپﷺ کو چادر کی سخت ضرورت تھی۔ آپﷺ نے اس تحفہ کو قبول فرما لیا۔ اسی وقت ایک صحابی نے عرض کیا “یا رسول اللہ ! یہ چادر تو بہت خوبصورت ہے، مجھے عنایت فرما دیں تو بڑا اچھا ہو۔” پیارے نبیﷺ نے ایثار سے کام لیا اور فوراً وہ چادر ان صحابی کو دے دی حالانکہ آپ کو خود ضرورت تھی مگر آپ نے ان کی ضرورت کو مقدم سمجھا۔
ایسی ہی مثالیں ہمارے لئے اندھیرے کا چراغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭
31: آپﷺ بڑے بہادر تھے
انتہائی نرم دل اور رحم دل ہونے کے باوجود نبی اکرمﷺ بہت ہی نڈر اور بہادر تھے۔ اللہ کے ڈر کے سوا اور کسی کا خوف آپﷺ کے دل میں نہ تھا۔ انتہائی بے خوفی کے ساتھ آپ مقابلے کے لیے نکل آتے تھے۔
ایک مرتبہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں کچھ شور ہوا۔ مدینہ والے گھبرا گئے۔ سمجھے کہ قریشِ مکہ نے اچانک حملہ کر دیا ہے۔ کسی کو ہمت ہی نہ ہوئی کہ باہر نکل کر حالات معلوم کرے، آخر کار کچھ لوگوں نے ہمت کر کے باہر جانے کا ارادہ کیا۔ مگر دیکھتے کیا ہیں کہ رسول اللہﷺ تن تنہا واپس تشریف لا رہے ہیں اور سب کو تسلی دیتے جاتے ہیں کہ “گھبراؤ نہیں، میں مدینہ سے باہر جا کر دیکھ آیا ہوں، کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے۔”
غزوہ حنین میں جب مشرکین نے چاروں طرف سے گھیراؤ کر لیا تھا تو ناقہ سے اتر کر آپﷺ نے حملہ آوروں کا جس بہادری سے مقابلہ کیا تھا اسے دیکھ کر صحابہ دنگ رہ گئے تھے۔
مشرکین عرب کا مشہور پہلوان رکانہ جب اسلام قبول کرنے کی یہ شرط رکھتا ہے کہ “محمدﷺ کشتی میں مجھے پچھاڑ دیں گے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔” تو دیکھنے والی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک دو بار نہیں بلکہ مسلسل 3 دفعہ آپﷺ نے اس کو شکست دی۔ آخر کار رُکانہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔
٭٭٭
32: آپﷺ معاف کر دیا کرتے تھے
رسول اللہﷺ کی صفات حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت صبر کرنا اور معاف کر دینا بھی ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ “آنحضرتﷺ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں بدلہ نہیں لیا۔”
قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دی، راستہ میں کانٹے بچھائے، جسم مبارک پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر دم گھونٹنے کی کوشش کی، آپﷺ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کیں، توبہ توبہ ! آپﷺ کو پاگل، جادوگر اور شاعر کہا مگر آپﷺ نے کبھی اُن کی اِن حرکتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ معاف فرما دیا۔
اور تو اور طائف والوں نے آپﷺ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ آپﷺ لہو لہان ہو گئے، آپﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ اگر تم چاہو تو طائف والوں کو اِن حرکتوں کے بدلہ میں پیس کر رکھ دوں۔
تو یاد ہے آپﷺ نے کیا جواب دیا تھا، آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے اور فرمایا تھا “اے اللہ ان کو معاف فرما دے، یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ اِن کی اولاد اِسلام قبول کر لے۔”
٭٭٭
33: آپﷺ بیماروں کی عیادت کرتے تھے
رسولﷺ جب بھی کسی کی بیماری کی خبر سنتے تو اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے، بڑے چھوٹے اور امیر و غریب میں کوئی فرق نہ کرتے۔
آپﷺ مریض کے پاس تشریف لے جاتے، اس کے سرہانے بیٹھتے، سر اور نبض پر ہاتھ رکھتے، حال دریافت فرماتے، اُسے تسلی دیتے اور پھر صحت کے لئے 7 بار یہ دعا فرماتے:
اسأل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک
“میں بڑائی والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے، سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔”
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شور و غل نہ کرنا سنت ہے۔”
نبی کریمﷺ نے فرمایا “قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا اور تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ عرض کرےگا” پروردگار! آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟”۔ اللہ تعالی فرمائے گا:
“میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔” (یعنیٰ تجھے میری خوشنودی اور رحمت حاصل ہوتی)۔۔ (مسلم)
٭٭٭
34: آپﷺ غیر مسلموں کی بھی عیادت کرتے
صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی آپﷺ کا یہ طرز عمل نہ تھا بلکہ غیر مسلم اور دشمنوں کے ساتھ بھی آپﷺ کا ایسا ہی برتاؤ تھا۔
آپ نے پڑھا ہو گا کہ جس راستہ سے حضور اکرمﷺ کا گزر ہوتا تھا وہیں پر ایک یہودی کا گھر تھا۔ وہ آپﷺ کو بہت ستایا کرتا تھا۔ جب آپﷺ اس راستے سے گزرتے وہ آپ پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا کرتا تھا۔ آپﷺ اس سے کچھ نہ کہتے تھے۔ کپڑے جھاڑ کر مسکراتے ہوئے گزر جاتے۔ اتفاق کی بات ہے ایک دن اس نے آپ پر کوڑا نہیں پھینکا۔ حضورﷺ کو تعجب ہوا۔ لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپﷺ اس کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ اس نے جو آپﷺ کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ آپﷺ کے اس برتاؤ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
ایک یہودی لڑکا حضورﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار پڑا۔ آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے سرہانے بیٹھے، تسلی دی اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔ حضورﷺ یہ کہتے ہوئے واپس آئے:
“خدا کا شکر ہےجس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔”
٭٭٭
35: آپﷺ بہت عبادت گزار تھے
رسول اللہﷺ پر خوفِ خدا ہر وقت طاری رہتا تھا۔ آپﷺ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اللہ کو یاد کرتے اور کسی وقت بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہ رہتے۔ رمضان شریف کا مہینہ تو آپﷺ کی عبادت کا موسمِ بہار ہوتا تھا۔
جب بھی آپﷺ قرآن شریف پڑھتے یا دوسرے کی زبان سے سنتے تو اللہ کی محبت اور اس کے خوف کے سبب آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔
فرض نمازوں کے علاوہ آپﷺ اس کثرت سے نوافل ادا کرتے کہ پائے مبارک وَرم کر آتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ “نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور مومنوں کے لیے معراج ہے۔”
آپ راتوں کو سوتے سوتے اٹھتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ نماز میں صفیں سیدھی رکھنے کا بہت اہتمام فرماتے۔
رمضان شریف کے علاوہ بھی آپﷺ کثرت سے روزے رکھتے۔ آپﷺ اپنے گھر جا کر کوئی چیز کھانے کے لئے طلب کرتے، جواب ملتا کوئی چیز نہیں ہے۔” تو آپ فرماتے: “آج ہمارا روزہ رہے گا۔”
جب بھی آپﷺ کے پاس کوئی رقم آتی، اسے جب تک ضرورتمندوں میں تقسیم نہ کر دیتے آپﷺ کو چین نہ آتا۔ خود فاقہ کر لیتے مگر دوسروں کا پیٹ بھرنا آپ اپنے لیے لازمی سمجھتے تھے۔
٭٭٭
36: آپﷺ کو تلاوت کا بہت شوق تھا
رسول اللہﷺ نے قرآن شریف پڑھنے کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس کے علاوہ بھی ہر وقت آپ کی زبانِ مبارک تلاوتِ قرآن سے تر رہتی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، غرض ہر حال میں آپﷺ تلاوت فرماتے رہتے۔ آپ بڑی پیاری آواز میں تلاوت فرماتے تھے۔ آپ کی ہدایت تھی کہ “قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو، جو ایسا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ “
آپﷺ دوسروں کی زبان سے بھی قرآن شریف سننے کے بہت شوقین تھے۔ صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کا حکم دیا۔ انھوں نے بڑی خوش الحانی سے تلاوت شروع کی۔ آپﷺ اتنے متاثر ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
تلاوتِ قرآنِ پاک کے سلسلے میں ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں:۔
1۔ وضو کر کے تلاوت کرنا چاہئے اور جس جگہ بیٹھ کر تلاوت کریں وہ جگہ پاک و صاف ہونا چاہئے۔
2۔ تلاوت کے وقت کعبہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا چاہئے اور دل لگا کر توجہ کے ساتھ تلاوت کرنا چاہئے۔
3۔ تلاوت درمیانی آواز سے کرنا چاہئے۔
٭٭٭
37: آپﷺ کیسے سوتے تھے؟
رسول اکرمﷺ عشا کی نماز سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے اور نماز کے بعد سونے کی تیاری کرتے تھے۔ آپﷺ رات میں جلد سوتے اور جلد اٹھتے تھے۔ سونے سے پہلے آپﷺ بستر اچھی طرح جھاڑ لیتے تھے۔ بستر پر پہنچ کر آپﷺ قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا “جو شخص سونے سے پہلے قرآن کی کوئی سورت پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو جاگنے کے وقت تک اس کی حفاظت کرتا ہے”۔
جب آپﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو دایاں ہاتھ اپنے بائیں رخسار کے نیچے رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹتے۔ پَٹ یا بائیں کروٹ پر لیٹنے سے آپﷺ نے منع کیا اور فرمایا کہ اس طرح لیٹنا اللہ کو نا پسند ہے۔”
سونے سے پہلے آپ یہ دعا پڑھتے:۔
اللھم باسمک اموت واحییٰ۔
“اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے جیوں گا۔”
جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:۔
الحمد للہ الذی احیانا بعدما اما تنا والیہ النشور۔
” ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف جانا ہے۔”
٭٭٭
38: آپﷺ ایسے تھے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ نبی اکرمﷺ کا برتاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ۔۔۔۔۔۔ آپﷺ
* ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔
* بہت نرم مزاج تھے اور طبیعت میں سختی نہ تھی۔
* سہولت آسانی کو پسند فرماتے تھے۔
* کبھی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالتے تھے۔
* کسی کے عیب نہیں نکالا کرتے تھے۔
* غرور سے بہت دور رہتے تھے۔
* فضول اور بےکار باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔
* نہ کسی کی برائی کرتے تھے اور نہ اسے نیچا سمجھتے تھے۔
* کسی کے چھپے ہوئے عیبوں کو ظاہر کر کے اسے شرمندہ نہیں کرتے تھے۔
* مال و دولت کی لالچ نہیں کرتے تھے۔
اور
* اگر آپﷺ کو کوئی چیز پسند نہ آتی تو اسے چھوڑ دیتے۔ نہ اس کی برائی کرتے اور نہ رغبت ظاہر فرماتے۔
کتنے اچھے تھے پیارے نبیﷺ !
٭٭٭
39: آپﷺ کی دعائیں
* دعا صرف اللہ سے مانگئے۔ ہماری حاجتیں صرف وہی پوری کر سکتا ہے۔
* دعا عبادت کا جوہر ہے اور عبادت کا حقدار صرف اللہ ہے۔
* جب آپﷺ بستر پر تشریف لے جاتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ لیتے اور سورۂ اخلاص، الفلق، اور الناس پڑھ کر ان کو پھونکتے اور جسم پر جہاں تک ہوسکتا پھیر لیا کرتے تھے۔ ابتدا سر۔ چہرے اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے۔ یہ عمل 3 بار فرماتے۔
* آپ کو جب پاخانہ جانا ہوتا تو جوتا اور ٹوپی پہن لیتے اور یہ دعا پڑھتے۔
اللھم انی اعوذبک من الخبث و الخبائث۔
“اے اللہ! میں گندگی اور گندی چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں”۔
* جب پاخانہ سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے۔
غفرانک اللھم۔
“اے اللہ! تیری مغفرت چاہتا ہوں”
* آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر وضو شروع فرماتے۔
*وضو کرتے وقت یہ دعا پڑھتے۔
1۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔
“میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔”
2۔ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔
“اے اللہ مجھے بار بار توبہ کرنے والا اور پاکیزہ زندگی اختیار کرنے والا بنا دے۔”
٭٭٭
(مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور، انڈیا)