309

جنوری کی سرد رات اور بارش میں وہ 35 سال بعد اپنے گھر جا رہا تھا۔ سب کچھ بدل چکا تھا مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جنوری کی سرد ترین رات تھی۔ بارش نے پوری سڑک کو بھگو کر رکھ دیا تھا، مگر وہ ارد گرد سے بے نیاز برساتی میں خود کو چھپائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔

شام سے چھاجوں مینہ برس چکا تھا، مگر اب تک اس کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ سڑک پر جا بجا پانی تالاب کی صورت اختیار کر چکا تھا اور جب وہ اپنے بھاری بھرکم جوتوں سے پانی کو دھکیل کر آگے بڑھتا تو شڑاپ شڑاپ کی آواز پیدا ہوتی۔ پانی اُس کی برساتی سے پھسل پھسل کر نیچے گر رہا تھا۔ سڑک سنسان پڑی تھی، حالانکہ اس وقت رات کے سات بجے تھے مگر اس چھوٹے سے دیہاتی علاقے میں موسم سرما میں کاروبار دن کے تین بجے ہی بند ہو جایا کرتے تھے۔ لوگ عموماً رات کے وقت گھروں سے باہر نہیں نکلا کرتے تھے۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی ٹارچ تھی، جس کی روشنی سڑک پر بہتے پانی پر پڑتی تو اس کی سطح چمکتی محسوس ہوتی۔ وہ کافی دیر چلنے کے بعد ایک کچے مکان کے پاس رک گیا۔
وہ برسوں بعد یہاں آیا تھا اور ارد گرد کا نقشہ تقریباً بدل چکا تھا۔ وہ اس دروازے کی کنڈی کھٹکھٹانے سے پہلے ذرا سی دیر کو ہچکچایا، کیا پتہ وہ یہ گھر نہ ہو؟ مگر ایک لمحے کو بھی اس کو خیال نہیں آیا کہ کیا پتہ وہ مکین ہی نہ ہوں۔ پھر اس نے لرزتے ہاتھوں سے زنجیر ہلائی۔ کافی دیر تک اندر سے کسی ہلچل کے آثار محسوس نہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد کسی کے لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آہٹ سنائی دی اور دروازہ کھل گیا۔

۔۔۔*۔۔۔

اُ س کا نام مسعود تھا، دس بارہ سال کا یہ ننھا منا سا بچہ اپنی دادی اور بڑی بہن کے ساتھ اس کچے مگر وسیع و عریض مکان میں رہا کرتا تھا۔ اس کی دادی بہت مہربان تھیں، اس سے اور اس کی بڑی بہن سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ اکثر اوقات دادی سے پوچھتا کہ اس کے امی ابو کہاں ہیں؟ تو وہ بتاتیں کہ وہ بہت عرصہ پہلے اللہ کے پاس چلے گئے ہیں۔ وہ اکثر بہت حیران ہوا کرتا کہ وہ اپنے بچوں اور اماں کو چھوڑ کر اللہ کے پاس کیوں گئے؟ مگر اس نے یہ حیرت اپنی دادی سے کبھی نہیں کہی۔ وہ روز چند بھیڑیں اور بکریاں لے کر چراہ گاہ کی طرف نکل جاتا اور ان کو چراتا، جب دوپہر گئے انہیں لے کر لوٹتا تو دادی اپنے ہاتھوں سے مکئی کی روٹی دودھ کے ساتھ کھلاتیں۔ اسے یہ دنیا کا لذیذ ترین کھانا محسوس ہوتا۔
جب وہ برآمدے میں بیٹھا دادی کے ہاتھ سے کھانا مزے لے لے کر کھا رہا ہوتا، اسی وقت ان کے گھر کے پاس سے ہمسایوں کے بچے گلے میں بستہ لٹکائے اسکول سے گھر لوٹتے۔

وہ تقریباً روزانہ ہی دادی سے پوچھتا کہ وہ اسکول کیوں نہیں جاتا؟

اور دادی کا وہی رٹا رٹایا جملہ ہوتا’’کیونکہ وہ غریب ہے،اس لیے‘‘۔

اس کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ سجاد اور جواد سے زیادہ غریب ہے تو اس کا گھر ان کے گھر سے زیادہ بڑا کیوں ہے؟
وہ رات کو بستر میں لیٹا اکثر سوچا کرتا کہ کیا وہ ساری عمر بکریاں چراتا رہے گا؟ آخر و ہ بڑاہو کر کیا کرے گا؟ اسے نہیں پتہ تھا کہ جواد اور سجاد بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟ وہ کتابوں سے دور رہنے والا بچہ تھا، جس نے اپنے دیہات سے باہر کچھ نہیں دیکھا تھا سچ تو یہ تھا کہ اس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ انسان بکریاں چرانے کے سوابھی کچھ کر سکتا ہے؟ اس کے علاوہ اس کے ذہن میں تین ہی تصور تھے یا تو انسان اسکول جاتا ہے پڑھنے، یا استاد ہوتا ہے یا کسان۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ سجاد اور جواد اس سے بہترکام کر رہے ہیں۔

اکثر بکریاں چراتے چراتے اسے خیال آتا کہ کتابیں کیسی ہوتی ہیں؟ وہ کتاب کو کھول کر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔اپنے اسی خیال کو عملی جامع پہنانے کی خواہش لیے ایک روز وہ سجاد اور جواد کے گھر پہنچ گیا۔ وہ صحن میں چارپائی پر بیٹھے پڑھائی میں مصروف تھے۔ جب انہوں نے مسعود کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ناگواری سے ناک بھنویں چڑھائیں۔ وہ دونوں گاؤں کے ان بچوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو اسکول جانے کے بجائے مویشی چراتے۔
مسعود ان کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے چپکے سے ایک کتاب اٹھا کر کھولی اور اس کے ملائم صفحے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا مگر اسے اس کتاب سے بہت محبت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار کتاب کو چھو رہا تھا۔اس کا دل انجانی خوشی سے سرشار ہو گیا، وہ خواہش کرنے لگا کہ یہ لمحے امر ہو جائیں، مگر ۔۔۔ اچانک سجاد کی نظر اس پر پڑی اور اس نے چیختے ہوئے کتاب اس سے چھین لی۔’’ تم گندے لڑکے، تم نے اپنے گندے ہاتھوں سے میری کتاب گندی کر دی‘‘۔

مسعود ہکّا بکّا اس کے لال بھبوکا ہوتے چہرے کو دیکھتا رہا۔
’’ تمہیں ہمت کیسے ہوئی؟ تم بکریاں چرانے والے، تمہیں کتاب سے کیا کام ؟ تمہیں کتاب کی کیا قدر؟‘‘ اب جواد بھی میدان میں اتر آیا تھا۔

مسعود کو اپنا آپ ذلت کی گہرائیوں میں اترتا محسوس ہوا، اسے پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ وہ کتنا برا لڑکا ہے۔ وہ دونوں بھائی نہ جانے کیا کیا کہتے رہے، اس نے کچھ نہیں سنا۔ اس کے کانوں میں تو بار بار ایک ہی جملے کی باز گشت سنائی دے رہی تھی۔’’تمہیں ہمت کیسے ہوئی ؟ تم بکریاں چرانے والے، تمہیں کتاب کی کیا قدر؟‘‘ اور جب یہ باز گشت اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تو وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔

سارا دن وہ چراگاہوں اور ندی نالوں میں بے وجہ گھومتا رہا۔ اسے ہر چیز پیڑ، پھول، ندی نالے، پانی غرض یہ کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں بھی اپنا مذاق اڑاتی ہوئی محسوس ہوئیں۔’’تم گندے لڑکے ہو، تمہیں کتاب سے کیسے محبت ہو سکتی ہے؟ ‘‘یہ آوازیں اس کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ شام گئے جب وہ گھر واپس لوٹا تو اس نے دادی کے چہرے کی پریشانی پر بھی توجہ نہیں دی۔
’’دادی!‘‘ اس نے چولہے کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی!‘‘
’’کیا میں گندا لڑکا ہوں؟‘‘ دادی کے چولہے میں لکڑیاں ڈالتے ہاتھ ایک لمحے کو رکے۔
’’ نہیں تم تو بہت اچھے لڑکے ہو‘‘ دادی کے لہجے میں شیرینی تھی۔
’’ نہیں میں گندا ہوں، بہت زیادہ گندا، میں اچھا ہوتا تو اسکول جاتا، میں تو اتنا گندا ہوں کہ میں کتاب سے بھی محبت نہیں کر سکتا، میرے چھونے سے کتاب گندی ہو جاتی ہے‘‘۔ وہ پہلے تو غصے سے پھٹ پڑا اور پھر دکھ سے رونے لگا۔
دادی اور اس کی بہن اسے سمجھاتی رہیں مگر اس کے دکھ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ساری رات وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا رہا کہ اس نے اسے غریب بنایا، برا بنایا، اتنا برا کہ وہ کتاب سے بھی محبت نہیں کر سکتا۔ وہ اتنا گندا ہے کہ کتاب کو چھو بھی نہیں سکتا۔

آدھی رات اس نے گلے شکوؤں میں گزار دی اور باقی آدھی رات اس نے ایک منصوبہ بنانے میں۔ اگلی صبح وہ تھوڑا ساپرسکون تھا۔ دادی نے حسب معمول اسے پیار سے ناشتہ کرایا۔ دادی کے منع کرنے کے باوجود اس نے بکریاں لیں اور چراگاہ کی طرف نکل گیا۔

جب بکریاں چراگاہ میں ادھر اُدھر پھیل گئیں تو وہ چپکے سے بھاگ کھڑا ہوا؟ اس کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اسے کہاں جانا ہے؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا؟ اسے بس ایک ہی خیال لئے جا رہا تھا کہ اسے اس قابل بننا ہے تاکہ وہ کتاب سے محبت کر سکے، کتاب کو چھو سکے۔

اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیسے شہر پہنچا اور قسمت کی مہربانی سے اسے ایک ہوٹل میں کام بھی مل گیا۔ اس دوران اس نے کبھی اپنے مشن کو اوجھل نہیں ہونے دیا۔ وہ بہت کم رقم استعمال کرتا تھا اور زیادہ تر بچا کر رکھتا تھا۔ ایک دن اسے نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہوٹل کے مالک سے اپنی خواہش کا اظہار کر ہی دیا اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ مالک کچھ لمحے تو اسے حیرت سے دیکھتا رہا پھر اسے سینے سے لگا لیا۔ یوں وہ دن کو اسکول جاتا، شام کو کام کرتا اور رات کتابوں کے ساتھ گزارتا۔

کتابوں کو چھونا، ان کو محسوس کرنا اس کے لیے ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ سب سے زیادہ خوشی اسے یہ احساس دیتا کہ اب کوئی اس سے کتاب چھینے گا نہیں۔ وہ اکثر اوقات اپنی دادی اور بہن کے بارے میں سوچتا۔ اسے احساس تھا کہ وہ پریشان ہوں گی مگر یہ سوچ اسے مطمئن کر دیتی کہ جب کچھ عرصہ بعد وہ ان سے ملے گا تو وہ یہ دیکھ کر کتنی خوش ہوں گی کہ اب وہ گندا لڑکا نہیں، اب وہ کتاب پڑھنے اور چھونے کے قابل ہے۔

ماہ سالوں میں ڈھلے اور اور سال عشروں میں۔ ایک کے بعد دوسرا دروازہ کھلتا چلا گیا۔ اس نے نہ تو کبھی محنت سے جی چرایا اور نہ ہی کبھی اپنے مقصد کو چھوڑا۔ اس نے نادار بچوں کے لیے اسکول کھولے۔ لائبریریاں بنوائیں، ان میں کتابیں بانٹیں۔ وہ جہاں بھی جاتا بچوں کو کتابوں سے محبت پر اکساتا۔ آج 35سال 5ماہ اور 22دن بعد ڈاکٹر مسعود احمد ایک فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا۔

۔۔۔*۔۔۔

دروازہ کھلا تو اس کی مدھم روشنی میں اپنے سامنے ایک عورت کو کھڑا پایا۔ اگرچہ روشنی بہت کم تھی، مگر اس میں بھی وہ دیکھ سکتا تھا کہ عورت کوئی اجنبی ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ وہ غلط جگہ آ گیا ہے، مگر یہ راستے تو اسے ازبر تھے، کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے دس سال یہاں گزارے تھے۔
’’کون؟‘‘ عورت کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
کچھ لمحوں کے لیے تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔ اپنا تعارف کیسے کرائے مگر پھر غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے اپنا نام نکلا۔
’’مسعود۔۔۔‘‘
عورت کچھ دیر تک تو سکتے کے عالم میں کھڑی رہی پھر بے یقینی سے تصدیق چاہنے والے لہجے میں پوچھا
’’مسعود۔۔۔میرا بھائی مسعود۔۔۔‘‘
اور وہ پہچان گیا۔۔۔ وہ اس کی بہن تھی۔
تم کہاں چلے گئے تھے؟
’’ میں اندر آ جاؤں؟‘‘ اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ عورت نے اسے ایک صاف ستھرے بستر پر بٹھایا۔ مسعود نے اسے اپنے گزرے ماہ و سال کی کہانی سنائی اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ اب وہ کامیاب ہو کرلوٹا ہے ۔
’’ دادی تمہارے غم میں زیادہ نہ جی سکیں، مگر انہیں مرنے سے پہلے تک یقین تھا کہ تم لوٹ کر آؤ گے‘‘۔
مسعود بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔
’’ہاں انہوں نے مجھے ایک ذمہ داری سونپی تھی ‘‘ بہن نے بتایا۔
مسعود اب بھی کچھ نہ بولا۔
’’ ان کا ایک تحفہ تم تک پہنچانا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تم جب بھی لوٹو تم تک پہنچا دوں‘‘۔
بہن کمرے میں رکھے ایک طرف چوبی صندوق کی طرف گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ اس میں سے کچھ نکال رہی ہیں۔
’’یہ۔۔۔‘‘ بہن نے مسعود کو ایک تھیلا تھمایا۔ مسعود نے لرزتے ہاتھوں سے اسے پکڑا۔ وہ کھدر کا بستہ نما تھیلا تھا جسے ہاتھ سے سیا گیا تھا۔ وقت نے اس کے سفید رنگ کو بد نما کر دیا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے کھول کر دیکھتے ہی اس کی پلکوں پر اٹکے ہوئے آنسو بے اختیار اس کے رخساروں پر بہنے لگے۔
اس بستے میں ایک بوسیدہ قاعدہ تھا جسے 35 سال کی گرد گہنا چکی تھی۔..

اپنا تبصرہ بھیجیں