منشی منقی تھے تو ڈیڑھ پسلی کے ، دھان پان انسان کہ پھونک مارو تو ہوا میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہرائیں لیکن اکڑ باز اتنے کہ رستم زماں گاماں پہلوان سے بھی کشتی لڑنے کو تیار، شیخ چلی فوجی اور اسپین کے ڈان کیو ہوٹے کی تو کہانیاں ہی پڑھی تھیں لیکن منشی منقی کا سا شیخی باز جیتا جاگتا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ شاید کبھی دیکھنا نصیب ہو۔
اب یہ تو خدا ہی کو پتا ہو گا کہ منشی جی کس نسل اور کس ذات کے تھے لیکن وہ خود اپنے آپ کو مغل بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ دنیا میں صرف دو ہی آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کی رگوں میں مغلوں کا خالص خون دوڑ رہا ہے ، ایک تو قصبہ فتح پور کے جاگیردار نواز مرزا جہاں دار اور دوسرے خود منشی منقی، نواب صاحب خاندان مغلیہ کا آخری چراغ کہلاتے تھے اس لیے لوگوں نے منشی منقی کا لقب خاندان مغلیہ کی آخری موم بتی رکھ دیا تھا۔
منشی صاحب کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن وہ قصبے بھر میں منشی منقی کے نام سے مشہور تھے شاید اس لیے کہ ان کی شکل منقی سے ملتی جلتی تھی، یا پھر یہ ان کی چڑ تھی، وہ محکمہ جنگلات میں منشی تھے اور میرے چچا جان کے ماتحت، لیکن منشی جی سے ہمارے خاندان کے بہت پرانے تعلقات تھے ، اس لیے ان دونوں میں افسری اور ماتحتی کی کوئی تمیز نہ تھی، منشی جی اتوار کے اتوار ہمارے گھر آتے ، بیٹھک میں محفل جمتی، چائے پانی چلتا اور ساتھ ہی منشی جی کی زبان ایسے فراٹے بھرتی کہ رکنے کا نام نہ لیتی، وہ اپنے خاندان کی جرات اور دلیری کے وہ وہ کارنامے سناتے کہ سننے والوں کی عقل چکرا کر رہ جاتی۔
ایک ایسی ہی محفل میں، ایک دن، منشی جی مغلوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سنا رہے تھے کہ ایک دم جلال میں آ گئے اور بولے ، ارے میاں، بابر کے ساتھ میرے دادا کے دادا کے دادا نہ ہوتے تو پانی پت کے میدان میں اسے ابراہیم لودھی کے مقابلے میں ہرگز فتح نہ ہوتی۔
وہ کیسے منشی جی، چچا جان نے پوچھا۔
وہ ایسے منشی جی بولے ، کہ جوں ہی ابراہیم لودھی کی فوج نے مغل فوج پر حملہ کیا، میرے دادا کے دادا کے دادا نے ایک دم مشین گن کا فائر کھول دیا اور پلک جھپکتے میں لودھی کی فوج کے دس ہزار جوانوں کو بھون کر رکھ دیا۔
میں اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ بابر کے زمانے میں توپ تو ایجاد ہو چکی تھی اور انہی توپوں کی مدد سے اس نے صرف بارہ ہزار فوج سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی، لیکن مشین گن ایجاد نہیں ہوئی تھی، چچا جان اور ان کے دوست تو خاموش رہے مگر میں بول پڑا۔
لیکن منشی جی، اس وقت مشین گن تھی کہاں، مشین گن تو امریکا کے ایک شخص گیٹلنگ نے 1861ء میں ایجاد کی تھی اور بابر اس سے تین سو سال پہلے ہی مرگیا تھا۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اب بتاؤ کہیں بحر یعنی سمندر میں گوڑے دوڑ سکتے ہیں، اقبال جیسا لائق شاعر ایسی بات ہرگز نہیں کر سکا اصل میں اس سے مراد بھاپ سے چلنے والے جہاز ہیں، جہاز۔ کیا سمجھے۔ چچا جان نے ہنسی روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ان کے ہونٹوں کا بند توڑ کر نکل ہی گئی، دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے ، میں نے مسکرا کر گردن جھکا لی۔
تو یہ تھے منشی منقی اور یہ تھیں ان کے مزے دار باتیں اب سنیے ، انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے آس پاس کی ساری بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، ہمارے قصبے سے چار پانچ میل پرے جنگل شروع ہو جاتا تھا اور اس کے اردگرد بہت سے چھوٹے موٹے گاؤں آباد تھے ، اس جنگل میں خدا جانے کہاں سے ایک بھوکا ننگا شیر آ گیا اور لگا گاؤں والوں کے ڈھور ڈنگروں پر ہاتھ صاف کرنے۔ کسان ڈر کے مارے ، سر شام ہی ڈنگروں کو لے کر گھر لوٹ آتے تھے اور بڑے سے بڑا جی دار جوان بھی رات کو باہر نکلنے کی جرات نہ کرتا تھا۔
جب شیر کسانوں کی بہت سی بھیڑ بکریاں اور گائیں ہڑپ کر گیا تو انہوں نے دہائی مچا دی اور ہوتے ہوتے یہ خبر علاقے کے ڈپٹی کمشنر تک پہنچی، انہوں نے چچا جان کو حکم دیا کہ ہفتے کے اندر اندر اس خبیث شیر کو زندہ یا مردہ ہماری خدمت میں پیش کیا جائے۔
یہ سن کر چچا جان کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی، انہوں نے کبھی خواب میں شیر کا شکار نہ کیا تھا، عمر بھر تیتر بٹیر یا زیادہ سے زیادہ خرگوش مارے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس وہ بندوق تھی ہی نہیں جس سے شیر کا شکار کیا جاتا ہے ، وہ بہت گھبرائے اور فوراً اپنے دوستوں کی میٹنگ بلائی، اس میٹنگ میں منشی منقی بھی تھے۔
منشی صاحب نے چچا جان کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر کہا کہ جنگل میں جگہ جگہ پھندے یا جال لگا دیے جائیں اور جب شیر کسی پھندے میں پھنس جائے تو اسے بوری میں بند کر کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھیج دیا جائے ، منشی جی نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ ملکہ نور جہاں کے پہلے شوہر، شیر افگن نے اسی ترکیب سے شیر مارا تھا اور یہ ترکیب اسے منشی جی نکے کسی دادا نے بتائی تھی، ترکیب تھی تو ٹھیک لیکن اس کے لیے بہت سے جالوں اور پھندوں کی ضرورت پڑتی اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شیر کو بوری میں کون بند کرتا، اس لیے چچا جان اور ان کے دوستوں نے منشی جی کی یہ ترکیب رد کر دی۔
جب منشی جی چلے گئے تو چچا جان نے دوستوں سے صلاح کی اور آخر طے یہ ہوا کہ ہم جنگل میں ضرور جائیں گے ، درختوں پر مچان بھی بنائیں گے لیکن شیر ہرگز نہیں ماریں گے کیوں کہ وہ ہم سے نہیں مرے گا، بس دو تین دن یوں ہی مچانوں پر بیٹھ کر واپس آ جائیں گے اور ڈپٹی صاحب سے کہہ دیں گے کہ جناب، یہ موذی شیر ہمارے بس کی بات نہیں، اسے مارنے کے لیے تو کینتھ اینڈرسن اور جم کاربٹ جیسے تجربہ کار شکاریوں کی ضرورت ہے ، لہٰذا انہیں تار دے کر انگلستان سے بلوا لیا جائے۔
یہ فیصلہ کر کے سب نے اطمینان کی سانس لی اور دوسرے دن صبح کو، بوریا بستر باندھ کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئے ، میری چھٹیاں تھی، میں نے چچا جان کی خوشامد کی کہ مجھے بھی لیے چلیے ، پہلے تو انہوں نے انکار کیا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں کون سا سچ مچ کا شکار کرنا ہے ، مان گئے ، برسات کا موسم تھا اس لئے منشی منقی نے اپنی چھتری، جس پر بھیانک رنگ کا کالا سیاہ کپڑا چڑھا ہوا تھا، ساتھ لے لی۔
ایک گھنٹے بعد ہم لوگ جنگل کے قریب ایک گاؤں میں پہنچے ، چچا جان نے دیہاتیوں کو بتایا کہ اب ہم آ گئے ہیں اور انشاء اللہ شیر کو مار کر ہی واپس جائیں گے ، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں، بس تم اتنا کرو کہ ہمیں تین چار ہٹے کٹے جوان دے دو جو جنگل میں جا کر ہمارے لیے مچان بنا دیں اور ایک موٹا تازہ بکرا بھی لادو تاکہ شیر اس کی بو سنگھ کر مچانوں تک آ جائے اور ہم اسے ڈز سے گولی مار دیں، ایک دیہاتی نے بتایا کہ اس نے شیر کو کل رات جنگل میں برساتی نالے کے پاس ٹہلتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ وہیں کہیں چھپا بیٹھا ہو گا لہٰذا اسی جگہ مچان بنائے جائیں۔
دیہاتی ہماری پارٹی کو جنگل میں اس جگہ لے گئے جہاں برساتی نالا تھا۔ اس نالے کے کنارے دو اونچے اونچے درخت تھے ، انہی درختوں پر انہوں نے ہمارے لیے مچان بنا دیے۔ منشی جی کی رائے تھی کہ بکرے کو باندھا نہ جائے کھلا چھوڑ دیا جائے ، وہ جنگل میں گھومتا پھرے اور شیر اس کی طرف لپکے تو وہ دوڑ کر مچان تک آ جائے اور ہم شیر کو گولی مار دیں لیکن افسوس چچا جان نے منشی جی کی یہ تجویز بھی نہیں مانی، کیوں کہ اس کے لئے بکرے کو ٹریننگ دینے کی ضرورت تھی اور اس ٹریننگ میں سال چھ مہینے لگ جاتے۔
خیر صاحب، بکرے کو ایک جھاڑی سے باندھ دیا گیا اور سب لوگ کھانا کھا کر مچانوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے ، چاندنی رات تھی، ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی، شمال کی طرف مچان پر چچا جان، ان کا ایک دوست اور میں بیٹھا تھا اور جنوب کی طرف والے مچان پر منشی منقی اور ایک صاحب براجمان تھے ، اسی مچان کے پاس بکرا بندھا ممیا رہا تھا۔
میرے خیال میں دس گیارہ کا وقت ہو گا کہ بکرا زور سے ممیایا، ساتھ ہی قریب کی ایک جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی۔ پھر جھاڑی میں سے کسی جانور کا سر نکلا، اس کے بعد دھڑ اور پھر دم، یہ شیر تھا، میری روح فنا ہو گئی، ڈرتے ڈرتے چچا جان اور ان کے دوست کی طرف دیکھا ان دونوں کی حالت بھی غیر تھی۔
شیر آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا بکرے کی جانب بڑھا، بے چارے بکرے کا خوف سے خون خشک ہو گیا تھا اور وہ بت بنا شیر کو دیکھ رہا تھا، شیر چند سیکنڈ بکرے کو دیکھتا رہا، پھر بڑے مزے سے جمائیاں لیتا ہوا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر منشی منقی بیٹھے تھے ، ابھی وہ درخت سے چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دھم کی آواز آئی، منشی منقی درخت سے لڑھک کر زمین پر گر پڑے تھے۔
میں اس وقت کا منظر بیان نہیں کر سکتا، شیر غصے سے دم ہلا رہا تھا اور اس سے دس بارہ گز کے فاصلے پر منشی منقی چھتری ہاتھ میں لیے مٹک مٹک کر اسے دھمکا رہے تھے ، دھت دھت، ابے دھت، انہوں نے چھتری شیر کی طرف اس طرح تان رکھی تھی جیسے وہ کوئی بندوق ہو۔ منشی جی کبھی دایاں پیر زمین پر مارتے اور کبھی بایاں، اس دوران میں ان کی چھتری کا رخ شیر کی طرف رہا اور وہ منہ سے دھت دھت کی آوازیں بھی نکالتے رہے۔
شیر پندرہ بیس سیکنڈ خاموش کھڑا دم ہلاتا رہا۔ منشی جی اسی طرح دھت دھت کرتے اور پینترے بدلتے بکرے کے پاس پہنچ گئے ، برے کی جان پر بنی ہوئی تھی اس نے گردن جھکا کر ٹکر جو مارے تو منشی جی پانچ فٹ اوپر اچھل پڑے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کمر بند ٹوٹ گیا، اب وہ ایک ہاتھ سے پاجامہ پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھتری، ساتھ ہی دھت دھت، ابے دھت، کہے جا رہے تھے ، اگر چچا جان میری کوکھ میں کہنی نہ ماتے تو میری ہنسی نکل گئی ہوتی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیر اب منشی منقی کے ناچ سے اکتا گیا تھا، وہ تھوڑی دیر تو کھڑا دم ہلاتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس کے منہ سے غوں غاں کی آواز بھی نکلی، پھر اس نے اگلے پنجوں سے مٹی کریدی، پچھلی ٹانگیں سمیٹیں اور ایک خوف ناک چیخ مار کر منشی منقی پر چھلانگ لگا دی۔ منشی جی بھی غافل نہیں تھے ، شیر ابھی آدھے ہی راستے میں تھا کہ انہوں نے کھٹاک سے چھتری کھولی اور اس کا رخ شیر کی طرف کر دیا۔
شیر نے ایسا خوفناک ہتھیار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، چھتری کے اچانک کھلنے اور اس کے کالے کپڑے سے وہ ایسا بوکھلایا کہ راستے ہی میں الٹی قلابازی لگائی اور دل ہلا دینی والی چیخیں مارتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا، اس کی پہلی دہاڑ ایک فرلانگ کے فاصلے پر سنائی دی، پھر دو فرلانگ پر اور اسی طرح دور ہوتے ہوئے بالکل غائب ہو گئی۔
ہم اپنی اپنی جگہ سہمے بیٹھے تھی، لیکن منشی جی برابر ہنکارے جا رہے تھے ، ابے ، ایک ہی جھونک میں بھاگ گیا، مرد ہے تو میدان میں آ، قسم ہے دادا جان کی، وہ خبر لوں گا کہ عمر بھر یاد رکھے ، مغل بچہ ہوں مغل بچہ، مذاق نہیں۔
پہلے چچا جان مچان سے اترے اور پھر دوسرے لوگ، انہوں نے منشی جی کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گاؤں میں آئے۔
اس دن سے شیر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، ہم دو تین روز گاؤں میں رہے اور پھر گھر واپس آ گئے جب ایک ہفتے تک کسی کا ڈھور ڈنگر غائب ہونے کی خبر نہ آئی تو چچا جان نے ڈپٹی صاحب کو کہلا بھیجا کہ شیر زخمی ہو کر جنگل سے بھاگ گیا ہے ، لہٰذا اب تشویش کی کوئی بات نہیں۔
اس واقعے کے بعد منشی منقی کی اکڑ اور بڑھ گئی، وہ سارے شہر میں اینڈے اینڈے پھرتے اور سینہ پھلا کر بڑے فخر سے کہتے ، یوں ہی تو نہیں کہتا تھا کہ مغل بچہ ہوں، میرے ایک ہی گھونسے نے شیر کا کچومر نکال دیا، اب وہ کبھی ادھر نہیں آئے گا، اگر آ گیا تو میرا نام بدل دینا۔ اور سچ مچ شیر اس جنگل میں پھر کبھی نہیں آیا اور نہ لوگوں کو منشی جی کا نام بدلنے کی ضرورت پڑی وہ بدستور منشی منقی ہی کہلاتے رہے۔
٭٭٭