281

یقین ہے یہ گماں نہیں ہے۔ وجود تیرا کہاں نہیں ہے۔


یقین ہے یہ گماں نہیں ہے
وجود تیرا کہاں نہیں ہے

یہاں نہیں یا وہاں نہیں ہے
کہاں کہاں تو عیاں نہیں ہے

ہیں کور باطن ہمیں خدایا!
تو ہم سے ورنہ نہاں نہیں ہے

ہے ذرّے ذرّے پہ فیض تیرا
کرم سے خالی جہاں نہیں ہے

بشر ہی ٹھہرا حریص ورنہ
تو اُس پہ کب مہرباں نہیں ہے

زمیں، سمندر، پہاڑ، صحرا
کہاں خدا حکمراں نہیں ہے

ادا نہ ہو جس سے شکر تیرا
زباں وہ ہرگز زباں نہیں ہے

فراغؔ توصیف کیا کرے گا
زباں میں تابِ بیاں نہیں ہے

٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں