299

چچا تیز گام کو ڈینگی بخار ہوا۔

چچا تیز گام کے گھر کے سامنے لگے رش کو دیکھ کر گلو میاں اور پہلوان جی چونک اٹھے اور ان کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔
’’گلو میاں ! یہ لوگ چچا تیز گام کے گھر کے سامنے کیوں جمع ہیں ؟‘‘ پہلوان جی کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’مجھے تو معلوم نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ ‘‘ گلو میاں نے کہا۔

’’کیوں بھائی شبراتی! یہ چچا تیز گام کے گھر کے سامنے اتنا رش کیوں لگا ہوا ہے؟‘‘ گلو میاں نے چچا تیز گام کے گھر کے سامنے کھڑے ان کے پڑوسی سے پوچھا۔
’’آپ کو نہیں پتہ!‘‘ شبراتی نے حیرت سے اُن دونوں کی طرف دیکھا۔
’’اگر پتہ ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتے۔ ‘‘ پہلوان جی بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
’’حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے، مگر دوست ہونے کے باوجود آپ کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ ‘‘ شبراتی نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’ہم دونوں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ آج ہی واپس آئے ہیں۔ ویسے چچا تیز گام کو ہوا کیا ہے؟‘‘ پہلوان جی نے پوچھا۔
’’بے چارے چچا تیز گام کو ڈینگی بخار ہو گیا ہے۔ یہ سب لوگ اُن کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ شبراتی نے بتایا۔
’’کیا۔۔‘!‘ پہلوان جی اور گلو میاں یک زبان ہو کر بولے۔
کچھ دیر پہلوان جی اور گلو میاں چچا تیز گام کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کمرے کے بالکل درمیان میں بچھے پلنگ پر ایک بڑی سی مچھر دانی لگی ہوئی تھی۔ پلنگ کے چہار اطراف جلتی ہوئی مچھر مار کوائل کا دھواں کمرے میں پھیلا ہوا تھا۔ جیسے ہی گلو میاں اور پہلوان جی کمرے میں داخل ہوئے دھوئیں سے اُن کو اپنا دم گھٹا ہوا محسوس ہوا۔ پلنگ کے دائیں طرف جمن دنیا و مافیھا سے بے نیاز سیب کا جوس بنانے میں مشغول تھا۔ اُس کے پاس ہی سیب کی پانچ چھ پیٹیاں رکھی ہوئی تھیں اور بائیں جانب استاد انار کی چھ سات پیٹیاں رکھے انار کا عرق کشید کرنے میں مصروفِ عمل تھا۔ پلنگ کے ساتھ رکھی میز پر پپیتے کی قاشیں اور پپیتے کے پتوں کا قہوہ تھرماس میں رکھا ہوا تھا اور تھرماس کے ساتھ ہی پینا ڈول کی گولیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ اُس وقت چچا تیز گام پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں سیب کے جوس کا گلاس جب کہ دُوسرے ہاتھ میں انار کے جوس کا گلاس تھا۔ چچا تیز گام وقفے۔۔ وقفے سے جوس کی چسکیاں لے رہے تھے۔
’’آؤ۔۔ آؤ۔۔ میرے دوستو۔۔! میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا۔ ‘‘ چچا تیز گام نے پہلوان جی اور گلو میاں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی تیز گام! ہم تو تمہیں اچھا بھلا چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ ڈینگی بخار تمہیں کیسے گیا؟‘‘ پہلوان جی بولے۔
’’ارے بھئی کیا بتائیں۔ کل شام ہم صحن میں عروج فاطمہ اور محمود کے ساتھ بیٹھے ان کا ہوم ورک چیک کر رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے ہاتھ پر چبھن کا احساس ہوا۔ ہم نے دیکھا تو ایک مچھر ہمارے ہاتھ پر بیٹھا ہوا تھا، ہم صبح اٹھے تو تیز بخار سے پورا بدن تپ رہا تھا۔ سانپ کا ڈسا تو صرف پانی نہیں مانگتا جب کہ ڈینگی مچھر کا کاٹا ہوا تو کچھ بھی نہیں مانگتا۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنی داستانِ ڈینگی سناتے ہوئے بولے۔
’’تو پھر آپ نے کوئی دوا وغیرہ بھی لی ہے یا نہیں۔ ‘‘ گلو میاں نے پوچھا۔
’’یہ دوا ہی تو ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سیب اور انار کے جوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
’’اس کے علاوہ ہم پینا ڈول کی گولیاں بھی کھا رہے ہیں۔ ‘‘
’’سنا ہے اس ڈینگی بخار میں تو جسم کا ایک ایک جوڑ درد کرتا ہے۔ ‘‘ عیادت کے لیے آئے ہوئے چچا تیز گام کے پڑوسی شیخ طیب قاسمی بولے۔
’’ہاں بھئی واقعی۔ اسی لیے تو اسے ہڈی توڑ بخار کہا جاتا ہے۔ ‘‘ شبراتی حلوائی بول اٹھے۔
’’آ۔۔ہ میں بھی تو کہوں میرا پورا جسم کیوں درد کر رہا ہے۔ جمن۔۔! او جمن۔۔! استاد۔۔! کہاں مر گئے ہو تم دونوں۔۔ میرے ہاتھ پاؤں دباؤ۔۔‘‘ چچا تیز گام یہ باتیں سن کر چلّائے۔ جمن اور استاد جوس بنانا چھوڑ کر فوراً چچا تیز گام کی طرف لپکے اور انہیں دبانے لگے۔
’’چچا تیز گام۔۔! آپ پپیتے کے پتوں کا قہوہ بنا کر پئیں۔ ‘‘ پہلوان جی نے مشورہ دیا۔
’’وہ تو ہم پی ہی رہے ہیں۔ اُف کتنا کڑوا ہوتا ہے پپیتے کے پتوں کا قہوہ۔ ہم تو کریلا اور نیم چڑھا کہا کرتے تھے، لیکن پپیتے کے پتوں کا قہوہ پی کر لگتا ہے محاورہ بھی بدلنا پڑے گا کریلا اور پپیتا چڑھا۔۔ اے۔۔ ہے۔۔ ایک۔۔ منٹ۔۔ ایک منٹ خبردار۔ پہلوان جی اپنی جگہ سے ہلنا مت۔ ‘‘ اچانک چچا تیز گام چلا اٹھے اور ایک جھٹکے سے یوں اٹھ بیٹھے جیسے انہیں کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ پھر انہوں نے ایک زور دار چپت پہلوان جی کی چمکتی ہوئی چندیا پر جڑ دی۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا کہ سب ہکا بکا رہ گئے۔ غصے کے مارے پہلوان جی کا چہرہ سرخ ہو ر ہا تھا۔
’’چچا تیز گام یہ تم نے کیا کیا!‘‘ پہلوان جی دھاڑے۔
’’اوہو۔۔ پہلوان جی آپ تو غصے ہو رہے ہو، ارے بھائی آپ میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ میں نے آپ کو ڈینگی سے بچا لیا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’ڈینگی سے بچا لیا! کیا مطلب؟‘‘
’’یہ دیکھو۔ یہ نامراد ڈینگی مچھر تمہاری چندیا پر کاٹ رہا تھا۔ وہ تو شکر ہے ہم نے دیکھ لیا۔ ورنہ تمہاری حالت بھی ہمارے جیسی ہوتی۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھ میں پکڑے ہوئے مردہ مچھر کو پہلوان جی کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔
’’اوہ۔۔ تیز گام بھائی پھر تو واقعی آپ کا شکریہ۔ ‘‘ پہلوان جی اپنی چندیا کو سہلاتے ہوئے بولے۔
’’اچھا بھئی تیز گام۔۔! اب ہم چلتے ہیں۔ تم آرام کرو اور سیب انار کا جوس اور پپیتے کے پتو کا قہوہ پیتے رہو اور پینا ڈول گولی کھاتے رہو ان شاء اﷲ تم چند ہی دنوں میں ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ‘‘ پہلوان جی اٹھتے ہوئے بولے۔
پھر دونوں وہاں سے چلے گئے۔
چچا تیز گام کو ڈینگی بخار میں مبتلا ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ اس دوران چچا تیز گام برابر سیب اور انار کے جوس کا استعمال کرتے رہے۔ بیگم پپیتے کا قہوہ بنا کر جب کہ جمن اور استاد سیب اور انار کا جوس بنا بنا کر نڈھال ہو چکے تھے۔ ان اقدامات کے باوجود چچا تیز گام کا بخار تھا کہ اترنے میں نہیں آ رہا تھا۔ ڈینگی مچھر کی چچا تیز گام پر اتنی دھاک بیٹھ چکی تھی کہ وہ ایک پل کے لیے بھی مچھر دانی سے باہر نہ نکلتے تھے۔
’’ارے بھئی تیز گام! تمہیں ڈینگی بخار ہوا اور تم نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو شکر ہے۔ تمہارے محلے کا ایک مریض میرے پاس آیا تو مجھے پتہ چلا اور میں فوراً تمہارے پاس دوڑا چلا آیا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام کے دوست ڈاکٹر عمر فاروق کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
’’ڈاکٹر صاحب! کیا بتائیں۔ اس نگوڑے مارے ڈینگی بخار نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ‘‘ چچا تیز گام بے بسی سے بولے۔
’’تم نے کہیں سے چیک اپ بھی کروایا ہے یا نہیں ؟‘‘ ڈاکٹر عمر نے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب چیک اپ کیا کروانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے یہ سب کم بخت ڈینگی مچھر کی کارستانی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔
’’نہیں بھئی ٹیسٹ تو تمہیں ضرور کروانا چاہیے تھا۔ چلو میں اپنے کلینک سے لڑکے کو بھیجتا ہوں وہ تمہارے خون کا نمونہ لے جائے گا۔ میں لیبارٹری میں ٹیسٹ کر کے رپورٹ تمہیں بھجوا دوں گا۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر بولے۔
کچھ دیر بعد ایک لڑکا چچا تیز گام کے خون کا نمونہ لینے آ گیا۔ شام کو ڈاکٹر عمر رپورٹ ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’یار تیز گام! تمہارے جیسا تیز بندہ نہ دیکھا نہ سنا، بیمار ہونے میں بھی تم اپنی تیزی دکھانے سے بعض نہیں آئے۔ ‘‘
’’کیوں بھئی آخر ایسا کیا کر دیا ہم نے۔۔‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
’’یہ پوچھو کیا نہیں کر دیا۔۔! یہ اپنی رپورٹ دیکھ رہے ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر ہاتھ میں پکڑی رپورٹ اُن کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔
’’جی ہاں۔۔! لیکن رپورٹ میں کیا ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔
’’رپورٹ کے مطابق تمہیں ڈینگی بخار نہیں ہے، تم ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر پینا ڈول کی گولیاں کھاتے رہے ہو، یاد رکھو جب بھی طبیعت خراب ہو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرو اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرو۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر نے یہ بتایا تو چچا تیز گام نے جمن اور استاد کی طرف دیکھا وہ سیب اور انار کا جوس بنانے میں مصروف تھے۔
’’تم دونوں اب مزید جُوس مت بناؤ، ہمیں ڈینگی بخار نہیں ہے، ہم ٹھیک ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر چچا تیز گام نے مچھر دانی بھی اتار دی۔
یہ سن کر جمن اور استاد نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’یا اﷲ تیرا شکر ہے۔ ‘‘
دروازے میں کھڑی چچا کی بیگم نے بھی یہ باتیں سن لی تھیں۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پپیتے کا جوس بنا بنا کر بیگم کی حالت بھی جمن اور استاد سے مختلف نہ تھی۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں