پاراچنار کرم ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ جس کی سرحدیں شمال میں تورابورا، آچین، خوست اور شمال مشرق میں ننگرہار سے لگی ہوئی ہیں۔
پاراچنار شہر کی آبادی کا پچاسی فی صد شیعہ مسلمانوں پر مُشتمل ہے اور پندرہ فیصد آبادی سُنیوں کی ہے۔جو آج کل سنیوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاراچنار کے شیعہ متمول اور جائیداد والے تصور کئے جاتے ہیں۔جب کہ شہر میں کرائے پر بسنے والے سُنی ایک اقلیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔آس پاس کے دیہاتوں کی تشکیل بھی ایسے ہی ہے کہ اگر پڑوس میں ایک گاؤں شعیوں کا ہے، تو دوسرا گاؤں مکمل طور پر سُنیوں کا اور دونوں فریقین کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے پر انحصار نہ ہو۔یہاں شعیہ سُنی کی چپقلش قیام پاکستان سے پہلے کی ہے۔ 1927ء کی برٹش سرکار کے دور میں لکھنئو میں ایک ماتمی جلوس کی وجہ سے شعیہ سُنی فسادات ہوئے تو پارا چنار سے انتقاماً ایک لشکر لکھنؤ کے شیعوں کی مدد کیلئے روانہ کیا گیا۔جسے اُس وقت کی انگریز سرکار نے پارا چنار سے باہر نکلنے نہیں دیا۔ جواباً وہاں کے سُنیوں نے بھی ایک لشکر تشکیل دے کر شیعہ لشکر کا محاصرہ کرلیا۔جسے بڑی مُشکل سے ایک جنگ میں تبدیل ہونے سے انگریز سرکار نے بچا لیا۔
کہانی دراصل یہاں سے شروع ہوکر ارتقائی منازل طے کرتے کرتے اپنے جوبن پر پُہنچ کر ایران انقلاب تک جا پہنچی۔1979ء میں پاسدارانِ انقلاب ایران کے اثرات سے پارا چنار کا شعیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔کیونکہ فوجی آمر ضیاءالحق نے جب امریکہ کی جنگ جسےافغان جہاد کا نام دیا گیا،شروع کی تو کرم ایجنسی کے سُنیوں نے لبیک کہہ کر اس جہاد میں بھرپور حصہ لیا اور جہاد کے بہانے بھاری اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔پاسدارانِ انقلاب کے بعد وہاں کے مقامی شیعوں کو ایران کی شکل میں اپنی بقاء نظر آئی۔سو پارا چنار کے ایک مقامی گاؤں پیواڑ کے عارف الحسینی نے پاکستان میں فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی ۔جس کا اثر کرم ایجنسی کے سُنیوں نے لیا اور جواباً افغان جنگ کا اسلحہ ہر بندے کے ہاتھ میں آگیا۔ افغانستان کے وہ شیعہ جو جہاد کررہے تھے۔اُنھوں نے پارا چنار کے شیعوں کو اسلحہ کی بے تحاشہ ترسیل شروع کر دی اور یہی چنگاری ضیاءالحق کی موت کے دو دن بعد پارا چنار میں سُلگ اُٹھی۔اور وہاں کے شیعوں کی خوشی کی فائرنگ سے سارا پارا چنار گُونج اٹھا۔ مقامی سُنیوں نے اس فائرنگ کے شادیانوں کو طبلِ جنگ سمجھ لیا۔جس کی وجہ سے جھڑپیں شروع ہو گئیں مگر طاقت کے توازن کی وجہ سے ایک دوسرے کا بھاری نقصان نہیں کرسکیں۔
1996ء میں پارا چنار کے ایک سکول میں کچھ تبلیغی حضرات کا آنا جانا رہا۔جو کھانے کے وقفہ کے دوران وہاں کے مقامی چالیس پچاس سنی طلباء کو دعوت دیتے تھے۔ ان تبلیغی حضرات کے دوروں کی شیعہ طلباء نے مخالفت کی ،اور واضح طور پر سکول میں دو گروپس بن گئے۔اسی دوران سکول کے بلیک بورڈ پر کسی نے”کافر کافر شیعہ کافر” اور حضرت علی رضی کے بارے میں کُچھ نازیبا الفاظ لکھ دئیے۔ جس کی مذمت وہاں کے سُنیوں نے بھی کی۔ مگر اس کے باوجُود سکول کے پرنسپل سمیت دو شیعہ اور چھ سُنی مارے گئے اور وہاں کی فضاء کافی مُکدر ہوگئی۔ یاد رہے اس وقت پاکستان میں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور دوسرے جہادی تنظیموں کا طوطی بول رہا تھا۔ میں یہ سب اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ قاری کی غلط فہمی اس حوالے سے ختم ہو جائے، کہ پارا چنار میں کوئی ایک گروہ مظلوم ہے۔
کرم ایجنسی دو حصوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔
اپر کرم
لوئر کرم
اپر کرم میں شیعوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اپر کرم کا شہر پارا چنار ہے۔ جہاں شیعوں کی آبادی ساٹھ فی صد سے زیادہ ہے۔ لہٰذا وہاں کی سکیورٹی وغیرہ کُلی طور شیعہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پولٹیکل ایجنٹ کا مرکزی دفتر اپر کرم میں واقع ہے، جو شیعہ کی ذیلی تنظیموں کے ساتھ مکمل طور پر رابطے میں رہتا ہے۔ یہاں کی خواندگی کی شرح باقی تمام کرم ایجنسی سے زیادہ ہے۔ آرمی کی پوری رجمنٹ ہے اور ایف سی کا خصوصی یونٹ جو کرم سکاؤٹ کہلاتا ہے، انکے مرکزی یونٹ یہاں پر ہیں۔ یہاں مقامی یا غیر مقامی طالبان کا داخلہ اس لئے بھی کامیاب نہیں ہوسکا کہ ان کے ہمدرد سُنیوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ شیعہ کے مقابلے میں طالبان کو سپورٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا فوج اور ایف سی کا جُھکاؤ بھی لازمی طور پر شیعہ آبادی کی طرف تھا۔ کیونکہ وزیرستان شمالی و جنوبی، خیبر ایجنسی، باجوڑ، سوات مہمند ایجنسی اور فاٹا کی طویل پٹی پر قائم تحریک طالبان کے دھڑے ان کیلئے مسلسل درد سر بنے ہوئے تھے۔ لہذا شیعوں کی شکل میں پاک فوج کو وہاں مقامی طور ایک ایسی سپورٹ مل گئی جو افغان بارڈر کی محدود حفاظت میں ان کے مددگار تھی۔
لوئر کرم جن کا مرکز صدہ ہے۔ یہاں بلاشُبہ سُنیوں کی تعداد شیعوں سے زیادہ تھی اور شیعہ یہاں اقلیت کے طور پر موجود تھے۔ یہاں سُنیوں کی موجودگی میں تحریک طالبان کے کچھ دھڑے متحرک تھے اور اپنی عملداری قائم کررہے تھے۔ جس کی وجہ سے فوج بھی یہاں سُنی آبادی سے خوش نہیں تھی۔ لوئر کرم میں طالبان کی موجودگی نے اپر کرم میں اس خدشے کو جنم دیا کہ طالبان پارا چنار میں داخلہ دیں گے اور اپنے روایتی دشمن شیعوں کو سبق سکھائیں گے۔ لہٰذا پارا چنار اور گردونواح میں ایک افواہ پھیل گئی۔ جس میں سُنیوں سے طالبان نے درخواست کی کہ وہ (سنی) یہاں پاراچنار اور مُلحقہ علاقوں سے نکل جائیں۔ تاکہ طالبان شیعوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرسکیں۔ لہٰذا سُنیوں کی بڑی تعداد نے یہاں سے نقل مکانی کی اور ملک کے دوسرے شہروں میں اپنے کاروبار اورخاندان منتقل کردیئے۔ مگر آج تک اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی کہ یہ افواہ پھیلانے میں کس کا ہاتھ تھا؟ کیونکہ طالبان نے پاراچنار میں کبھی داخل ہونے کی کوشش تک نہیں کی۔ مگر جو بھی تھا سنیوں کو اس علاقے سے بےدخل ہونا پڑا۔ اور اپر کرم میں شیعوں کی عملداری بلا شرکت غیرے قائم ہوگئی۔
2007 میں پارا چنار کا ایک مقامی شیعہ جرگہ اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کیلئے کابل روانہ ہوا اور حامد کرزئی سے ملاقات میں شیعہ عمائدین نے اس نکتے پر زور دیا کہ شیعوں کی وجہ سے خوست والے سرحد سے پاکستان سے کسی قسم کا مسلح دھڑا سرحد پار نہیں کرسکتا۔ لہٰذا افغان حکومت کی طرف سے ان کی مدد کی گئی اور ساتھ میں طالبان نے جو ٹل کوہاٹ روڈ بند کی، تو پارا چنار کے رہائشیوں کو بلا ویزہ جلال آباد کابل کا رستہ دیا گیا۔ جس پر وہ آزادانہ سفر کرنے لگے۔ اسی اثناء اپریل 2007ء میں پاراچنار میں بچے کُچھے سُنیوں کےخلاف لشکر تشکیل دیا گیا اور پارا چنار میں قائم سُنی مسجد اور شیعہ امام بارگاہ میں دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف بھاری اسلحہ سمیت مورچہ زن ہوگئے۔ آرمی کو حالات کی نزاکت کا اندازہ ہوا۔ فوج نے امام بارگاہ اور مسجد کے محاصرے کی غرض سے اپنے بندے بھیجے،تو امام بارگاہ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک کپیٹن اور سات آرمی اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اور یہیں سے اس کھیل کا آغاز شروع ہوگیا۔ جس کی وجہ سے آج پارا چنار ایک میدان جنگ بن گیا ہے۔
(جاری ہے)
تعارف : بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک، مکالمہ ڈاٹ کام، یہ تحریر مصنف کی ذاتی تحقیق پر مبنی ہے۔