(منکِرینِ حدیث کے اشکالات پر طائرانہ نظر)
اسلام میں داخل ہونے کے لیے قرآن ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص حدیث کا انکار کر دے تو اس سے قرآن کا انکار لازم آتا ہے۔ مگر مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سے بعض مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
ان کے چند اہم اشکالات کا اجمالی خاکہ مع جوابات ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) اشکال: … قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی کیا ضرورت ہے ؟
ج: … قرآن کافی ہونے سے یہ مراد نہیں کہ حدیث و سنت کی ضرورت نہیں۔ قرآن نے خود حدیث و سنت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
(۱) اشکال: … قرآن میں وحی کی پیروی کرنے کا تذکرہ ہے اور وحی صرف قرآن ہے !
ج: … وحی صرف قرآن نہیں۔ قرآن کے علاوہ وحی کا ثبوت قرآن میں بھی ہے۔
(۳) اشکال: … قرآن میں کل شیء (ہر چیز) کی تفصیل اور وضاحت ہے لہٰذا حدیث کی کیا ضرورت ہے ؟
ج: … قرآن میں تمام شرعی اُمور کی تفصیل اور وضاحت نہیں ہے، مثلاً ارکانِ اسلام۔ کل شیء کا معنی و مفہوم سیاق و سباق سے متعین کیا جائے گا۔
(۴) اشکال: … قرآن کی تفسیر کے لیے اگر حدیث کی ضرورت ہو تو پھر قرآن کو حدیث کا محتاج ماننا پڑے گا!
ج: … قرآن سمجھنے کے لیے نہ صرف حدیث بلکہ دیگر وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ پر قرآن میں ہی یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ آپ قرآن کی وضاحت کریں اور قرآن کی تعلیم دیں۔
(۵) اشکال: … حدیثی تفسیر کو تسلیم کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ قرآن نبی کی خواہش کے مطابق نازل ہوا ہے !
ج: … آپ کی خواہش شریعت کے تابع تھی، کوئی غلط چیز یا شیطانی وسوسہ آپ پر اثرانداز نہ ہو سکا۔ آپ کی پسند کے مطابق حکم نازل ہونا قرآن سے بھی ثابت ہے۔
(۶) اشکال: … احادیث میں نبیﷺ کے بھولنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا حدیث پر اعتبار کیونکر ہو سکتا ہے ؟
ج: … انبیاء o کے نسیان سے دین و شریعت پر کوئی حرف نہیں آتا، یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تھا۔
(۷) اشکال: … قرآن کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ نے کی ہے جبکہ احادیث انسانوں کی تحریر کردہ ہیں اور سُن سُنا کر لکھی گئی ہیں !
ج: … حدیث کی بھی اُسی طرح حفاظت ہوئی جس طرح قرآن کی ہوئی ہے۔ قرآن کی حفاظت بھی انسانوں کے ذریعے کی گئی۔
(۸) اشکال: … بہت سی احادیث قرآن کے خلاف ہیں۔ احادیث کو قرآن پر پیش کیا جائے، جو قرآن کے مطابق ہوں وہ تسلیم کر لی جائیں اور دیگر کو مسترد کر دیا جائے۔
ج: … کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں۔ احادیث کو قرآن پر پیش کرنا ثابت نہیں۔ مسلمان ایسی بہت سی احادیث کو صحیح مانتے ہیں جو ظاہری طور پر قرآن کے خلاف دکھائی دیتی ہیں۔
(۹) اشکال: … احادیث کی بنا پر تفرقہ بازی پھیلتی ہے !
ج: … احادیث پر عمل کرنے سے اختلاف ختم ہوتا ہے جبکہ انہیں تسلیم نہ کرنے سے تفرقہ بازی پھیلتی ہے، کیونکہ دریں صورت ہر کوئی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے۔
(۱۰) اشکال: … احادیث اگر مِن جانب اللہ ہوتیں تو اِن میں تضاد نہ ہوتا!
ج: … صحیح احادیث میں باہمی کوئی تضاد نہیں۔ ظاہری تضاد تو قرآنی آیات میں بھی ہے۔
(۱۱) اشکال: … احادیث تو نبیﷺ سے صدیوں بعد لکھی گئی تھیں وہ حجت کیسے ہو سکتی ہیں نیز احادیث لکھنے سے منع کیا گیا تھا تو لوگوں نے احادیث کیوں لکھیں ؟
ج: … احادیث عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں بھی لکھی جاتی تھیں، مثلاً شرائطِ صلح حدیبیہ، خطوطِ نبوی، مسند ابو ہریرہ، صحیفہ صحیحہ وغیرہ۔
(۱۲) اشکال: … احادیث بالمعنی روایت کی گئی ہیں اِن پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے !
ج: … بعض احوال میں روایت بالمعنی کی اجازت ہے۔ روایت بالمعنی کا اُصول قرآن سے بھی ثابت ہے۔
(۱۳) اشکال: … احادیث اخبارِ آحاد بھی ہیں انہیں کیسے درست تصور کیا جا سکتا ہے ؟
ج: … خبرِ واحد کو تسلیم کرنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔ شخص با اعتبار ہو تو بسا اوقات اس کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اسی قسم کی کئی اور مغالطہ انگیزیاں اور اشکالات ہیں۔
مؤلف ایک ثقہ عالم دین ہیں۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت کے بعد میسور یونیورسٹی (ہندوستان) سے اردو میں ایم اے بھی کیا ہے۔ کئی زبانوں پر آپ کو دسترس حاصل ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں آپ کی شخصیت اور دینی خدمات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
شیخ جلال الدین قاسمی نے فتنہ انکارِ حدیث کے موضوع پر اختصار و جامعیت کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ اس کتاب میں ان اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جنہیں عام طور پر منکرین حدیث عوام میں بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کر کے انھیں گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے منکرینِ حدیث کی طرف سے پیش کیے جانے والے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کے تسلی بخش جوابات دیے ہیں۔ طالبِ حق کے لیے اس کتاب میں راہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ کتاب ان کے پیش کردہ اشکالات و شبہات کا قلع قمع کرنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو گی۔ ان شا ء اللہ
اس نسخے کو تخریج، تحقیق، تقدیم، اضافہ جات اور نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا ہے، تخریج و تحقیق مولانا محمد ارشد کمال نے کی ہے۔ جس سے کتاب کی افادیت اور استنادی حیثیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
اس تالیف کو پہلی بار برادرم عاصم عبداللہ، فیت والا پبلی کیشن ہاؤس(انڈیا) کی طرف سے شائع کیا گیا، لہٰذا اِس سلسلے میں خشت اول رکھنے کا سہرا اُنہی کے سر ہے۔
اس اشاعت کے فوراً بعد تخریج و تحقیق کے ساتھ اسے مکتبہ افکارِ اسلامی کی طرف سے شائع کیا گیا۔ اس اشاعت کی اضافی خوبیاں درجِ ذیل ہیں:
۱۔ کتاب کا نام مؤلف کی اجازت سے ’ حجیت حدیث در موقف انکارِ حدیث‘ کی بجائے ’منکرین حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات‘ رکھا گیا۔
۲۔ پروف ریڈنگ کی اغلاط کی تصحیح کی گئی، نیز الفاظ اسکو، اسکی، اسکے، انکو، انکی، ان کے، ہوں گے، جائے گا اور کیلئے وغیرہ کو بالترتیب اسے، اس کی، اس کے، انھیں، ان کی، ان کے، ہوں گے، جائے گا اور کے لیے وغیرہ کی شکل میں الگ الگ لکھا گیا۔
۳۔ آیات کی کمپوزنگ کی بجائے قرآن کی اصل کتابت لگائی گئی، کیونکہ کمپوزنگ میں بعض الفاظِ قرآنی صحیح نہیں لکھے جاتے نیز بڑی مد بھی کمپوزنگ میں نہیں آتی۔
۴۔ تمام آیات کے حوالہ جات درج کیے گئے، دیگر اضافی حوالہ جات بھی دیے گئے، نیز سورتوں کے نمبر شمار بھی لکھ دیے گئے۔
۵۔ بعض آیات و احادیث کا اردو ترجمہ نامکمل تھا جسے مکمل کیا گیا۔
۶۔ قولی احادیث پر اعراب لگائے گئے۔
۷۔ احادیث کی تخریج و تحقیق کی گئی۔
۸۔ بعض اہم تعلیقات لگائی گئیں اور کچھ مقامات پر معمولی حک و اضافہ بھی کیا گیا۔
۹۔ نبیﷺ پر جادو سے متعلق ایک اہم اضافہ بھی کیا گیا، یہ اضافہ راقم الحروف کے پی ایچ ڈی کے مقالے سے لیا گیا ہے۔
۱۰۔ ایک تقدیم (جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں )کا اضافہ کیا گیا، جس میں منکرین حدیث کے چند بنیادی اشکالات کو مختصر طور پر سوالاً جواباً پیش کیا گیا(جو کہ در اصل راقم الحروف کے ایک لیکچر کا خلاصہ ہے جو چند سال قبل بدوملہی ضلع نارووال میں دیا گیا تھا۔ )
۱۱۔ علامات (رضی اللہ تعالیٰ، رحمۃ اللہ علیہ، علیہ السلام، صلی اللہ علیہ و سلم) وغیرہ کو حتی الامکان مکمل اور طغروں کی شکل میں لکھا گیا۔
۱۲۔ بعض عنوانات کی ترتیب میں بھی معمولی تقدیم و تاخیر کی گئی۔
اس اشاعت کے مزید لفظی و معنوی محاسن کا اندازہ قارئین کرام ہی لگا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف، محقق، راقم الحروف اور جملہ معاونین کی اس محنت اور کاوش کو قبول کرے۔ آمین
ڈاکٹر حافظ محمدشہبازحسن
٭٭٭
تصدیر
تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت ہدایت اپنے بندوں کو عطا کرنے کے لیے جو انتظام کیا وہ ہمیشہ دو چیزوں پر مشتمل تھا: (۱) الرسول۔ (۲) الکتاب۔
دین کی مستقل تشریعی بنیادیں یہی دو ہیں۔ قرآن فضیلت اور تلاوت میں حدیث پر مقدم ہے، مگر حجیت میں کتاب و سنت مساوی اور متوازی ہیں۔ دونوں اصلوں کے حجت مستقلہ ہونے کے باوجود دونوں میں باہم اتنا ہی فرق ہے کہ کتاب اصل کلی ہے اور حدیث اس کا بیان ہے جس طرح عالم کی مراد علم آشنا اور صناع کی مراد صنعت آشنا ہی سمجھ سکتا ہے، اسی طرح کلام رب کو ایک رب آشنا ہی سمجھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو بات کہنی ہے اس کا واسطہ الرسول ہی ہے۔ الکتاب نے ہمیشہ بنیادی فکر پیش کی ہے اور الرسول نے اس فکر کے مطابق عملی زندگی کا مظاہرہ کیا۔ الکتاب نے بنیاد فراہم کی اور الرسول نے عمارت اٹھائی، ہدایت کے حصول کے لیے جتنی اہمیت الکتاب کی ہے اتنی ہی الرسول کی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے منفک نہیں کیا جا سکتا۔ نبیﷺ کا اسوہ (حدیث) ایک ایسا فانوس ہے جو ہزاروں مجلی آئینوں سے منعکس ہوتا ہوا ہمارے سامنے آتا ہے۔ آپﷺ کا اسوہ اختیار کرنے کے لیے سب سے آگے آپ کے صحابہ کرامؓ آئے۔ مبینِ کتاب کے اسوہ سے مزین یہ گلشنِ رسالت کے وہ عنادل تھے جنہوں نے اس طرز فغاں کا پورا ریکارڈ محفوظ کیا اور ہم تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مشن کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن اور اس کے رسولﷺ کی احادیث کو بعد کی نسلوں تک پہچانے کا مستند وسیلہ بنے۔
تدوین حدیث کا آغاز عہد رسالت ہی سے ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی کے بیان کے مطابق ۵۲ کے قریب صحابہ تھے جن کے پاس تحریری شکل میں احادیث موجود تھیں۔ پہلی صدی کے اواخر تک اسلام عجمی تصورات سے محفوظ رہا۔ دوسری صدی کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جہم بن صفوان ظاہر ہوا۔ اس نے صفات باری کا انکار کیا۔ پھر دوسری صدی میں خوارج نے حدّ رجم کا انکار کیا کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے !
انکارِ حدیث کے بارے میں پہلا فرقہ معتزلہ کا ہے۔ وہ وہی احادیث تسلیم کرتے تھے جو اُن کی عقل پر پوری اترتی تھیں۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ محمدﷺ قرآن پہچانے پر مامور کئے گئے تھے۔ انھوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لئے حجت نہیں۔ مگر یہ فتنہ کچھ عرصہ میں رو بہ زوال ہو گیا۔
تیرہویں صدی میں اس فتنہ نے پھر سر اٹھایا۔ پیدائش کی جگہ بر صغیر پاک و ہند تھی۔ سرسیداحمد خاں، عبداللہ چکڑالوی، احمد دین امرتسری، اسلم جیراجپوری اس کے علمبردار بنے اور غلام احمد پرویز نے اسے ایک منظم مکتب فکر کی بنیاد دی۔
رفتہ رفتہ علم فروش اور بے ضمیر علماء اور عقلیت کے چاک پر نو بہ نو پیکر تراشنے والوں اور تفقہ کی خراد پر شریعت کے مقاصد اور تقاضوں کو چھیلنے اور مخالفِ دین امور کو اِسلامی رنگ میں رنگنے والوں کی مارکیٹ کھل گئی۔
مستشرقین میں ولیم میور اور گولڈ ز یہر نے حدیثوں کو مشکوک بنانے کا بیڑا اُٹھایا۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ حدیث لکھنے کا کام نبیﷺ کی وفات کے نوے سال بعد شروع ہوا۔ منکرینِ حدیث نے کہا کہ حدیثیں دو سو برس بعد لکھی گئیں۔ لہٰذا احادیث حجتِ شرعیہ نہیں۔
علمائے ربانیین میں سب سے پہلے امام شافعیؒ نے اس فرقہ ضالہ کی طرف خصوصی توجہ کی اور الرسالۃ میں قرآن حکیم سے احادیث نبویہ کا مستند اور قابل حجت ہونا ثابت کیا اور دسویں صدی میں جلال الدین سیوطیؒ نے خاص اسی موضوع پر مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ کے نام سے مستقل کتابچہ تصنیف کیا۔ اس کے بعد بے شمار علماء نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ قرآن ایمان باللہ اور اس کے ساتھ ہی ایمان بالرسول کے حکم سے بھرا پڑا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بحق الوہیت اور نبی پر بحق نبوت و رسالت ایمان لانا فرض ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا فرض ہے اسی طرح رسولﷺ کے احکام کو ماننا بھی فرض ہے۔
منکرینِ حدیث منصب نبوت کی حقیقت و عظمت اور جلالت ہی سے بے خبر تھے، اسی وجہ سے انھوں نے احادیثِ رسول کی حجیت سے انکار کر دیا، ان کے نزدیک احادیث مفتریات کا انبار ہیں۔
یہ چودہ قرون کے محدثین و مفسرین کے استہزاء و تمسخر پر تلے ہوئے ہیں اور ان کی تحمیق و تجہیل میں ان کا قلم مسلسل رواں دواں ہے۔
زیر نظر کتاب کا مقصد احادیث کی حجیت کو ثابت کرنا اور منکرینِ حدیث کے اشکالات و اعتراضات کا ازالہ کرنا ہے۔
حافظ جلال الدین القاسمی
فاضل دارالعلوم دیوبند، ایم اے میسور یونیورسٹی
٭٭٭
حدیث کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت
جس طرح قرآن حکیم وحی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے۔
((عن المقدام بن معدیکرب عن رسول اللہﷺ انہ قال: (( اَلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَ مِثْلَہُ مَعَہُ۔ اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلیٰ اَرِیْکَتِہِ یَقُوْلُ: عَلَیْکُمْ بھِٰذَا الْقُرْاٰنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ، اَلَا لَایَحِلُّ لَکُمْ الْحِمَارُ الْاھَْلِیُّ وَلَا کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقْطَۃُ مُعَاھِدٍ اِِلَّا اَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنْھَا صَاحِبھَُا، وَ مَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیْھِمْ اَنْ یَقْرُوْہُ۔ فَاِنْ لَّمْ یَقْرُوْہُ فَعَلَیْہِ اَنْ یُعْقِبھَُمْ بِمِثْل قِرَاہُ))
(ابوداؤد، السنۃ، فی لزوم السنۃ، ح: ۴۶۰۴)
’’مقدام بن معد یکرب فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سنو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز (یعنی احادیث)بھی۔ سنو! قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا آدمی اپنے گاؤ تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے یہ کہے کہ تمھارے لئے قرآن کافی ہے، (حدیث کی ضرورت نہیں ) تو جو قرآن میں تم حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو قرآن میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ سنو !پالتو گدھا، نیش دار درندے اور کسی ذمی(کافر) کا گرا پڑا مال اٹھا لینا تمھارے لیے حلال نہیں الّا یہ کہ اس کا مالک اس سے بے نیاز ہو، اور جو کوئی کسی قوم کے پاس جائے تو اُن پر اس کی مہمان نوازی واجب ہے، اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اسے حق حاصل ہے کہ اپنی مہمانی کی مثل ان سے بذریعہ طاقت حاصل کر لے۔ ‘‘
یعنی پالتو گدھے کی حرمت قرآن سے منصوص نہیں، اس کی حرمت کا علم حدیث نبوی سے ہی ہو گا۔
جو لوگ حجیت حدیث کے منکر ہیں ان سے سوال کیا جائے گا کہ آپ قرآنِ مجید کو جو اللہ تعالیٰ کا کلام تسلیم کرتے ہیں تو اس کا کلام اللہ ہونا آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ اگر آپ کا جواب یہ ہو کہ اس کا کلام اللہ ہونا قرآن سے معلوم ہوا تو یہ مکابرہ ہے کیونکہ اس صورت میں جو دعویٰ ہے وہی دلیل ہے اور یہ صریح غلطی ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے آپﷺ پر سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ اس میں کون سی دلیل تھی کہ ان کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا۔ ورنہ پھر یہ تسلیم کر لیجئے کہ قرآن کا کلام اللہ ہونا حدیث سے معلوم ہوا…
در حقیقت جو شخص حدیث کا منکر ہو وہ قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کا بھی منکر ہے کیونکہ قرآن بغیر حدیث کے حجت نہیں بن سکتا۔ جس طرح کوئی شخص رسول کے بغیر اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح بغیر کلام رسول، کلام اللہ تک رسائی نا ممکن ہے۔
ہر شخص مانتا ہے کہ کلام کی بعض خصوصیات ہوتی ہیں جو کاغذ پر نہیں آ سکتیں بلکہ ان کا تعلق لب و لہجہ سے ہوتا ہے۔ اس کی مثال کے لیے اردو کا ایک جملہ سامنے رکھ لیں، وہ جملہ یہ ہے: ’’کیا بات ہے۔ ‘‘جملے کا لب و لہجہ بدلنے سے اس کا معنی بدل جائے گا۔ اس جملے کو کبھی استفسارِ حال کے لیے، کبھی تعجب کے لیے، کبھی تعظیم شان کے لیے اور کبھی تحقیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب اگر یہ جملہ کاغذ پر لکھ کر کسی شخص کو بھیج دیں تو کیا وہ شخص صرف اس جملے کو پڑھ کر متکلم کی مراد سمجھ لے گا؟ …ہرگز نہیں، بلکہ جو کچھ وہ سمجھے گا وہ اس کی اپنی مراد ہو گی۔
چنانچہ اگر یہ شخص تعجب کی حالت میں ہو گا تو اسے تعجب کے لیے سمجھے گا اور اگر استفسارِحال کا غلبہ ہو گا تو اسی کے لیے سمجھے گا۔ شاعر نے بہت اچھا کہا ہے ؎
گر مصور صورتِ آں دلستاں خواہد کشید
لیک حیرانم کہ نازش را چساں خواہد کشید
’’مصور تو محبوب کی صرف صورت بنا سکتا ہے لیکن محبوب کے ناز و انداز کو لفظوں میں کیسے ڈھال سکتا ہے ! ‘‘
اس کے علاوہ ایک اور چیز ’’عرف‘‘ بھی ہے یعنی کلام میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اہل زبان کے پاس ہی رہ کر سمجھا جا سکتا ہے۔
انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کے ایک شہر میں ایک صاحب ایک انگریز کلکٹر کے میر منشی تھے۔ کلکٹر اگرچہ انگریز تھا مگر اسے یہ زعم تھا کہ وہ اردو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ چنانچہ وہ میر منشی سے کہا کرتا کہ ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں تو بیچارے منشی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے کیونکہ ملازمت کا سوال تھا۔ ایک دن کلکٹر نے کسی بات پر جوش میں آ کر میز پر مکّا مارتے ہوئے کہا:
منشی جی! یقیناً ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں۔
اس بار منشی کو بھی جوش آ گیا، انھوں نے سوچ لیا کہ ملازمت رہے نہ رہے اسے جواب دے ہی دوں گا۔ انھوں نے بھی میز پر مکّا مار کر کہا:
صاحب بہادر! آپ اردو کی ابجد بھی نہیں جانتے۔
یہ سن کر انگریز کلکٹر بڑا حیران ہوا اور کہا: تم میرا امتحان لے لو۔
تو منشی جی نے کہا: اگر میں آپ کا امتحان لوں گا تو آپ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔
اب صاحب بہادر واقعی بغلیں جھانکنے لگا کہ اس کا کیا مطلب ہوا! بہت غور کیا مگر خاک سمجھ آتی۔ آخر اس نے کہا:
منشی جی! مجھے تین دن کی مہلت دو، میں اس کا مطلب بتا دوں گا۔
منشی جی نے کہا: تین دن نہیں سات دن کی مہلت لے لیجئے۔
الغرض اس نے اس لفظ کو لغت میں تلاش کیا۔ مگر لغت میں کیا ملتا۔ لغت میں ’’بغل‘‘ مل گیا ’’جھانکنا‘‘ مل گیا مگر مفہوم نہیں ملا۔ آخر سات دنوں کے بعد اس نے کہا:
اس کا مطلب ہے کہ ہاتھ کو اٹھا کر بغل کو دیکھ لیا جائے۔
میر منشی ہنس پڑے، تب کلکٹر نے پوچھا: پھر اس کا مطلب کیا ہے ؟
میر منشی نے کہا: اس کا مطلب آپ کو میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ اب آپ کبھی اردو دانی کا دعویٰ نہیں کریں گے۔
چنانچہ اس نے اقرار کیا تو منشی نے بتایا کہ در اصل یہ جملہ تحیر سے کنایہ ہے یعنی اگر کلکٹر کا میں امتحان لوں تو وہ حیرت میں پڑ جائیں گے۔
الغرض کلام کی بعض خصوصیات ایسی ہوتی ہیں جو عرف سے متعلق ہیں۔ غیر اہل عرف انھیں نہیں سمجھ سکتا، اسی طرح قرآن مجید میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھیں نبیﷺ کی صحبت نصیب ہوئی۔ لہٰذا وہ لوگ جو قرآن مجید کو سمجھنا چاہیں وہ اہل عرف کی طرف رجوع کریں۔ اس کی بہترین مثال سورۃ بنی اسراء یل کی یہ آیت ہے:
(۱۷؍بنی اسراء یل: ۲۹)
’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھیں اور نہ اسے بالکل ہی کھول دیں کہ پھر آپ ملامت کیے ہوئے درماندے ہو کر بیٹھ جائیں۔ ‘‘
آیت کریمہ میں ہاتھ کو گردن سے باندھنا بخل سے کنایہ ہے اور اسے بالکل ہی کھول دینا فضول خرچی سے کنایہ ہے۔
٭٭٭
حجیت حدیث کے دلائل
پہلی دلیل:
(۲؍البقرۃ: ۲۳۸-۲۳۹)
’’نمازوں کی حفاظت کرو بطور خاص درمیانی نماز کی، اور اللہ کے لیے ادب سے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر اگر تمھیں دشمن کا خوف ہو تو چلتے پھرتے یا سواری پر نماز ادا کر سکتے ہو، لیکن جب امن ہو جائے تو پھر اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اللہ نے تمھیں سکھایا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے۔ ‘‘
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ کوئی درمیانی نماز ہے مگر قرآن سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ درمیانی نماز کون سی ہے ؟ حدیث درج ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصر کی نماز ہے:
((عن علی قال: لما کان یوم الاحزاب قال رسول اللہV: ((مَلَأَ اللّٰہُ قُبُوْرَہُمْ وَبُیُوْتھَُمْ نَارًا، کَمَا حَبَسُوْنَا وَ شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطیٰ حَتّیٰ غَابَتِ الشَّمْسُ)) (مسلم، المساجد، الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطی ہی صلاۃ العصر، ح: ۶۲۷)
’’حضرت علی سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اللہ ان کی قبروں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے کیونکہ ان کی وجہ سے ہم درمیانی نماز نہ پڑھ سکے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ ‘‘
نیز آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت امن میں نماز کا کوئی خاص طریقہ ہے اور وہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے مگر پورا قرآن پڑھ جایئے، نماز کا طریقہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ معلوم یہ ہوا کہ نماز کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور ذریعے سے سکھایا ہے اور بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہی ذریعہ ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے۔
دوسری دلیل:
(۴؍النساء: ۱۱)
’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا، اگر صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو ان سب کو کل ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے نصف حصہ ملے گا…‘‘
آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اگر لڑکے نہ ہوں اور دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انھیں دو تہائی ملے گا اور ایک تہائی باقی بچ جائے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے نصف ملے گا اور نصف باقی رہے گا۔
آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ باقی بچا ہوا حصہ (یعنی پہلی صورت میں ایک تہائی اور دوسری صورت میں نصف) کہاں تقسیم ہو گا؟ اس کا کیا مصرف ہے ؟ اس مصرف کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ ایک اور وحی آتی تھی۔
تیسری دلیل:
(۴۲؍الشوریٰ: ۵۱)
’’اورکسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے (۱) وحی کے ذریعے، (۲) پردے کے پیچھے سے یا (۳) وہ (اللہ) کسی فرشتے کو بھیجے پھر وہ اپنے حکم سے اس چیز کی جو وہ چاہے اس پر وحی کرے، بے شک اللہ بے حد بلند اور کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں کسی نبی اور رسول تک احکامِ الٰہی کے پہنچنے کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں:
۱: براہِ راست وحی کے ذریعے۔
۲: پردے کے پیچھے سے براہِ راست کلام۔
۳: اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نبی و رسول پر اترے اور اسے احکامِ الٰہی پہنچائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید ان تین قسموں میں سے کون سی وحی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۲۶؍الشعراء: ۱۹۲۔ ۱۹۴)
’’اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ اسے روح الامین لے کر نبی کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ ‘‘
مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن وحی کی تیسری قسم ہے۔ اب وحی کی دو قسمیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ کے حق میں ان کا استعمال ہوا ہے اور وہ حدیث ہی کے نزول کے بارے میں ہو سکتا ہے۔
منکرین حدیث کی طرف سے یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ قرآن کے ساتھ اگر حدیث کو بھی حجت شرعیہ مان لیا جائے تو اس سے شرک فی الحکم لازم آئے گا۔ یہ لوگ عام طور پر اپنے مؤقف کی تائید میں یہ آیتیں پیش کرتے ہیں:
۱: (۴۶؍الاحقاف: ۹)
’’میں تو اُسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے۔ ‘‘
۲: (۷؍الاعراف: ۳)
’’اس چیز کی اتباع کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے طرف نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دیگر سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ ‘‘
۳: (۱۸؍الکہف: ۲۶)
’’اور وہ اپنے فیصلے میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ‘‘
اعتراض کی وضاحت یہ ہے کہ نبی وحی کی ہی اتباع کرتا ہے اور تمام انسانوں کوبھی بشمول نبی کے یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی صرف وحی کی اتباع کریں۔ دوسروں کی اتباع نہ کریں۔ نیز اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کے علاوہ کسی اور کی بات بھی حجت شرعیہ ہے تو لازم آئے گا کہ حکم یعنی قانون سازی اور دستور سازی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کر لیا گیا اور یہی تو شرک فی الحکم ہے۔
یہ اعتراض اس وقت قابل قبول ہو سکتا تھا جب حدیث کو حجت شرعیہ ماننے والے یہ مانتے کہ نبی اکرمﷺ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے:
(۶۹؍الحاقۃ: ۴۴۔ ۴۶)
’’اور اگر وہ (نبیﷺ ) ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتے تو ضرور ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے پھر ضرور اُن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ ‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۵۳؍النجم۳۔ ۴)
’’اور نہ وہ (نبیﷺ ) اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ ‘‘
نطق رسولﷺ (رسولﷺ کی بات) تو وحی ہی ہے جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے۔
حدیث رسولﷺ کو حجت شرعیہ ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’’حکم‘‘ یعنی قانون اللہ تعالیٰ بناتا ہے کیونکہ اس نے فرمایا:
(۴۲؍الشوریٰ: ۱۳)
’’ یعنی دستور حیات اسی نے بنایا ہے۔ ‘‘
(۱۲؍یوسف: ۴۰) ’’ حکم صرف اللہ کا ہے۔ ‘‘
نبی اسی قانون الٰہی کی تبلیغ پر مامور ہوتا ہے کبھی اس قانون کی تبلیغ اللہ تعالیٰ کی زبان میں کرتا ہے وہ قرآن ہے اور کبھی اپنی زبان میں کرتا ہے وہ حدیث ہے۔ اس سے شرک فی الحکم کہاں لازم آیا؟ شرک فی الحکم تو اس وقت لازم آتا جب قانون سازی کا حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی دے دیا جاتا اور یہ عقیدہ رکھا جاتا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قانون بناتا ہے اسی طرح نبی بھی قانون بناتا ہے جبکہ نبی جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کرتا ہے۔
٭٭٭
تبیینِ رسولﷺ اور اس کی مثالیں
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اصل کلی ہے اور حدیث اس کا بیان ہے۔ اس بیان کے بغیر قرآن کے مضمرات اور اس کی مراد کا انکشاف دشوار ہے۔ قرآن کے الفاظ و معانی دونوں من جانب اللہ ہیں۔ نبی اکرمﷺ ان دونوں میں مدعی نہیں بلکہ ناقل اور امین ہیں۔ یعنی نزول الفاظ، جمع الفاظ حتیٰ کہ اقراء الفاظ اور شرح مطالب اور بیان معانی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ فرمایا گیا:
(۷۵؍القیمۃ: ۱۷۔ ۱۹)
’’بے شک اس (قرآن) کا جمع کرنا (سینوں میں اور سفینوں میں ) اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ ‘‘
ایک مقام پر یوں فرمایا گیا:
(۱۶؍النحل: ۴۴)
’’اور ہم نے آپ کی طرف اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا تاکہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں تاکہ وہ لوگ غور و فکر کریں۔ ‘‘
مذکورہ بالا آیت پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں کتاب نازل کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور اس کی تبیین کی نسبت نبیﷺ کی طرف کی ہے اور بیان کے ذریعہ متعین شدہ مرادا ور مفاہیم و معانی کے دائرہ میں محدود رہ کر قرآن کے مخاطبین اپنی فکر سے کام لیں۔ یہ قید در حقیقت قرآن مجید کو بازیچۂ اطفال بنانے سے باز رکھتی ہے اور کسی کج فکر کو یہ موقع نہیں دیتی کہ قرآن کی آیتوں کو جو معنی چاہے پہنائے۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۵؍المائدۃ: ۳۸)
’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ ‘‘
آیت مذکورہ پڑھنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری کا مال کتنی مقدار میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے ؟ نیز ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے ؟ اس کا جواب مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:
عن عائشۃ C عن النبی ﷺ قال: ((تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ فِیْ رُبُعِ دِیْنَارٍ)) (بخاری، الحدود، قول اللہ تعالیٰ: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ…}، ح: ۶۷۹۰)
’’حضرت عائشہ r سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: چور کا ہاتھ چوتھائی دینا رمیں کاٹا جائے گا۔ ‘‘
مطلق کی یہ تقیید الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۹؍التوبۃ: ۱۰۸)
’’ البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔ ‘‘
یہ کونسی مسجد ہے ؟ حدیث ذیل میں موجود ہے:
عن ابی سعید الخدری ان رجلا من بنی عمرو بن عوف ورجلا من بنی خدرۃ امتر یا فی المسجد الذی اُسس علی التقویٰ فقال العوفی: ہو مسجد قباء وقال الخدری: ہو مسجد رسول اللہV، فاتیا رسول اللہﷺ فسألاہ عن ذلک فقال: ((ھُوَ مَسْجِدِیْ ھٰذَا وَفِیْ ذٰلِکَ خَیْرٌ کَثِیْرٌ))
(مسند احمد۳؍۹۱)
’’حضرت ابو سعیدخدری سے روایت ہے کہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس مسجد کے بارے میں بنوخدرہ اور بنی عمرو بن عوف کے دو آدمیوں نے اختلاف کیا۔ عوفی نے کہا: اس مسجد سے مراد مسجد قباء ہے اور خدری نے فرمایا: اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے۔ دونوں نے آ کر نبیﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میری مسجد یعنی مسجد نبوی ہے، اور اس میں خیرِ کثیر ہے۔ ‘‘
یہاں مجمل کا بیان اصل میں بیان قرآن ہے، الگ سے کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۴؍النساء: ۱۱)
’’ اللہ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ ‘‘
اب سوال یہ ہے کہ لڑکا کافر اور باپ مسلم ہو یا اس کے برعکس تو کیا انھیں وراثت ملے گی؟قرآن اس بارے میں خاموش ہے۔ حدیثِ مندرجہ ذیل میں اس کا جواب ہے:
عن اسامۃ بن زید D ان النبیﷺ قال: ((لَایَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ))
(بخاری، الفرائض، لایرث المسلم الکافر…، ح: ۶۷۶۴)
’’اسامہ بن زیدw سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘
یہاں عام کی تخصیص الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۱۷؍بنی اسراء یل: ۷۸)
’’یقیناً فجر کے اندر قرآن پڑھنا مشہود ہے۔ ‘‘
آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ مشہود سے کیا مراد ہے ؟
عن ابی ھریرۃ B عن النبیﷺ قال: ((فَضْلُ صَلٰوۃِ الْجَمِیْعِ عَلیٰ صَلَاۃِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَ عِشْرُوْنَ دَرَجَۃً وَ تَجْتَمِعُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَ مَلَائِکَۃُ النّھََارِ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ))، یقول ابو ھریرۃ: اقرأوا ان شئتم))
(بخاری، تفسیر القراٰن، قولہ: {إِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ…}، ح: ۴۷۱۷)
’’ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جماعت سے نماز، تنہا نماز پر پچیس درجہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے صبح کی نماز میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: (۱۷؍بنی اسراء یل: ۷۸) (اور صبح کی نماز بھی (قائم کیجیے )بیشک صبح کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے۔‘‘
یہاں مبہم کی تعیین کی گئی کہ مشہود سے مراد یہ ہے کہ فجر کی نماز میں دن کے فرشتے اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں۔
یہاں مبہم کی یہ تعیین الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے۔ جب سورۃالبقرۃ کی آیت(۱۸۷)
( سحری) کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہو جائے )اتری تو عدی بن حاتم نے نبیﷺ سے پوچھا:
یا رسول اللہ ما الخیط الابیض من الخیط الاسود؟اھما الخیطان قال: ((اِنَّکَ لَعَرِیْضُ الْقَفَا اِنْ اَبْصَرْتَ الْخَیْطَیْنِ)) ثم قال: ((لَا بَلْ ھُوَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَ بَیَاضُ النَّہَارِ))
(بخاری، تفسیر القراٰن، {کلوا واشربوا…}، ح: ۴۵۱۰)
’’اللہ کے رسول !اس سے دو دھاگے (کالے اور سفید) مراد ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: تمھاری گدی بہت لمبی چوڑی ہو گی اگر تم نے ان دونوں دھاگوں کو دیکھ لیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اس سے مراد صبح کاذب اور صبح صادق ہیں۔ ‘‘
پتا چلا کہ جب اہل زبان ہوتے ہوئے بھی صحابہ کو مرادِ ربّانی سمجھنے میں غلطی ہو جاتی تھی اور انھیں اس کے صحیح مفہوم کو جاننے کے لیے نبی اکرمﷺ کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا تو ہم تو بدرجہ اولیٰ مرادِ ربانی کو سمجھنے کے لیے نبیﷺ کی احادیث کے محتاج ہیں۔
اگر آیت کے کسی اصول کلی سے حدیث نے کوئی جزئیہ مستنبط کیا تو حدیث کو بیان تفریع کہا جائے گا۔
اگر قرآن کے کسی جزیئے سے حدیث نے کوئی کلیہ اخذ کر کے نمایاں کیا تو حدیث کو بیان استخراج کہا جائے گا۔
قرآن کے لیے حدیث کسی نہ کسی آیت کے لیے بیان ہے اور یہ بیانات مختلف الانواع ہیں۔ اگر آیت و حدیث کا بعینہٖ ایک ہی مفہوم ہے تو حدیث کو بیان تاکید کہا جائے گا۔
اگر آیت کے مختلف محتملات میں سے کسی ایک احتمال کو حدیث نے متعین کیا تو حدیث بیان تعیین ہے۔
اگر آیت کا پیش کردہ حکم مقدار کے لحاظ سے مبہم ہے اور حدیث نے اسے مشخص کیا تو حدیث بیان تقریر ہے۔
اگر آیت کے کسی اجمال کو حدیث نے کھول دیا ہے اور پھیلا دیا تو حدیث بیان تفصیل ہے۔
اگر آیت کے کسی چھوڑے ہوئے مضمون مثلاً کسی قصے کے ٹکڑے کو یا دلیل کے کسی مقدمے کو حدیث نے اس کے ساتھ ملا دیا تو حدیث بیان الحاق ہے۔
اگر کسی آیت کے حکم کی وجہ حدیث نے ظاہر کی تو حدیث بیان توجیہ ہے۔
اگر آیت کے کسی کلیہ کا کوئی جزئیہ حدیث نے ذکر کیا تو حدیث بیان تمثیل ہے۔
اگر حکمِ آیت کی علت حدیث نے واضح کی تو حدیث بیان تعلیل ہے۔
اگر آیت کے حکم کے خواص حدیث نے کھولے ہیں تو حدیث بیان تاثیر ہے۔
اگر کسی آیت کے حکم کی حدود کو حدیث نے واضح کیا تو حدیث بیان تحدید ہے۔
اگر آیت کے کسی عام کا حدیث نے کوئی فرد مشخص کر دیا تو حدیث بیان تخصیص ہے۔
اگر آیت کے کسی جزئیے کے مشابہ کوئی جزئیہ کسی مشترک علت کی بنا پر حدیث نے پیش کیا تو حدیث کو بیان قیاس کہا جائے گا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم احادیث کو مانتے ہیں مگر ان احادیث کو نہیں مانتے جو عقل میں نہ آئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کس کی عقل کو معیار بنایا جائے ؟ محدثین کی عقل کو، فلاسفہ کی عقل کو، ایک ڈاکٹر، ایک سائنسدان کی عقل کویا ایک عام آدمی کی عقل کو؟
ایک حدیث ایک شخص کی عقل میں آتی ہے دوسرے کی عقل میں نہیں آتی، تو اب کس کی عقل کو معیار تسلیم کیا جائے ؟ کیا دین میں عقل معیار ہے یا نقل؟ اگر اس معیار پر ہم قرآن کو پرکھیں اور جو آیت ہماری عقل میں نہ آئے تو پھر اسے بھی تسلیم نہ کریں۔
سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۲۱؍الانبیاء: ۶۹)
’’ہم نے حکم دیا کہ اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور موجب سلامتی ہو جا۔ ‘‘
یہ بات عقل میں نہیں آتی… کہ آگ کا کام ہے جلانا… وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی کیسے بن سکتی ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو گی ہم اسے نہیں مانیں گے۔ اگر اس نظریے پر قرآن کوپرکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دو آیتیں بظاہر متعارض نظر آتی ہیں تو کیا ایک آیت کو تسلیم کر کے دوسری کو رد کر دیں گے یا دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو مانیں گے۔ ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کو مانیں گے تو یہ فارمولہ احادیث کے لیے کیوں استعمال نہ کیا جائے ؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۲۵؍الفرقان: ۳۲)
’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن کو ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتار دیا گیا۔ ‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۹۷؍القدر: ۱)
’’ہم نے اس( قرآن) کو لیلۃ القدر میں اتارا۔ ‘‘
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا بتدریج نازل ہوا ہے اور دوسری آیت سے پتا چلتا ہے کہ قرآن یکبارگی اتارا گیا ہے۔ ہم دونوں آیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو مانتے ہیں۔
یہ کہنا کہ قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے لہٰذا احادیث کو حجت شرعیہ ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۶۲؍الجمعۃ: ۹)
’’ مومنو! جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اس کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔ ‘‘
اب بتایا جائے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے ؟
کس نماز کے لیے پکارا جائے ؟
کن الفاظ سے پکارا جائے ؟
جس نماز کے لیے پکارا جا رہا ہے وہ کیسے پڑھی جائے ؟
بتائیں ! ان سارے سوالوں کا جواب اور اس کی تفصیل قرآن میں کس جگہ ہے ؟
اگر قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے تو بتائیں کہ مرغی حلال ہے یا حرام؟
کتا اور گدھا حلال ہیں یا حرام؟
میت کو غسل کیسے دیا جائے ؟
تجہیز و تکفین کا کیا طریقہ ہے ؟
نماز جنازہ کیسے پڑھی جائے ؟
نانی، دادی، پوتی، نواسی کی حرمت نص قرآنی سے ثابت نہیں تو کیا ان سب سے نکاح جائز ہے ؟ نیز منکوحہ کی موجودگی میں اس کی خالہ اور اس کی پھوپھی سے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن سے ثابت کریں۔
ہم (۱۶؍النحل: ۸۹)کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ قرآن میں جو بیان کیا گیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور حدیث میں احکام کی جو شرح کی گئی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس متنِ قرآن اور شرحِ قرآن (حدیث) دونوں میں ہر امر دینی کا تفصیلی بیان ہے۔
معیارِ تحقیق
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے سند میں چند اشخاص کو جوڑ دیا اور کہہ دیا کہ یہ رسول اللہﷺ کی حدیث ہے، اور اسے حدیث مان لیا جاتا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ حدیث کو جانچنے کے معیارات سو سے زائد ہیں اور ہر معیار پر مستقل تحریری مواد موجود ہے۔ جب کوئی حدیث ان تمام معیارات سے ٹھیک ٹھاک گزر جائے گی تب اس پر صحت کا حکم لگایا جائے گا۔
مثال کے طور پر علقمی نام کا ایک شخص کہتا ہے کہ یہ حدیث ہے اور سند اس طرح بیان کرتا ہے:
عن مالک عن نافع عن ابن عمر عن النبی ؒ…
جب علقمی اس حدیث کو مذکورہ سند کے ساتھ ذکر کرے گا تو ہر سننے والا سند میں اس کا نام ضرور ذکر کرے گا۔ علقمی سے آگے کی سند یقیناً معتبر ہے۔ لیکن حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے علقمی کی تحقیق ضروری ہو گی۔ اب اگر علقمی کے حالات نہیں ملتے تو روایت مجہول ہو گی اور اگر حالات مل گئے تو دیکھا جائے گا کہ وہ صادق تھا یا کاذب؟ اگر کاذب تھا تو حدیث موضوع ہو گی اور اگر صادق تھا تو اب دیکھا جائے گا کہ وہ حافظہ کی خرابی میں مبتلا تو نہیں ؟ اگر یہ عیب پایا گیا تو حدیث قابل قبول نہیں ہو گی۔ اگر اس جرح سے بچ گیا تو دیکھا جائے گا کہ امام مالکؒ کے دیگر شاگرد بھی وہ حدیث روایت کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر معلوم ہو گیا کہ دیگر شاگرد علقمی کے خلاف روایت کرتے ہیں تو علقمی کی روایت شاذ ہو جائے گی۔ مذکورہ مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی جھوٹے راوی کا محدثین کے معیار تحقیق سے بچنا کس قدر مشکل ہے۔ لہٰذا محدثین کسی حدیث کو صحیح کہیں تو وہ قطعی الصحت ہے۔
خبر واحد کی حجیت قرآن سے
(۲۸؍القصص: ۲۰)
’’اور ایک شخص شہر کے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا۔ ‘‘
غور کریں کہ حضرت موسیٰؑ اس ایک شخص کی خبر پر گھر چھوڑ کر مدین کی طرف نکل پڑتے ہیں۔
(۲۷؍النمل: ۲۲)
’’اور میں آپ کے پاس شہر سبا کی ایک تحقیقی خبر لایا ہوں۔ ‘‘
مذکورہ بالا آیت میں صرف ہدہد کی خبر کو قرآن نے یقینی خبر کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد اگر محتف بالقرائن ہو تو یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
خبر واحد کی حجیت حدیث سے
عن عبداللہ بن عمر ان رسول اللہﷺ قال: ((اِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّیٰ یُنَادِی ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ))
(بخاری، الاذان، الاذان بعد الفجر، ح: ۶۲۰)
’’عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ ‘‘
امام بخاریؒ کی فقاہت دیکھئے وہ اسی حدیث سے خبر واحد کی حجیت پر استدلال کرتے ہیں۔ استدلال کی وضاحت یہ ہے کہ نماز جو افضل العبادات ہے ایک آدمی کی اذان یعنی ایک آدمی کے بلاوے پر مسجد میں آنا لازم قرار دیا گیا تو دیگر معاملات میں ایک آدمی کی خبر کو حجت کیوں نہیں تسلیم کیا جا سکتا؟
٭٭٭
احادیث کی حفاظت کا عملی اہتمام
منکرینِ حدیث ایک اور اعتراض بڑے شدومد سے کرتے ہیں کہ اگر حدیث کا دین میں کوئی مقام ہوتا اور دینی معاملات میں اسے مستقل حجیت حاصل ہوتی تو پھر نبی اکرمﷺ اسی اہتمام کے ساتھ حدیث بھی لکھوالیا کرتے جس اہتمام سے آپﷺ قرآن کی ہر آیت و سورہ لکھوا لیا کرتے تھے۔ اب جس شئے کو قلم بند کر کے دوسروں تک پہچانے کا باقاعدہ التزام نہیں کیا گیا اسے ہمیشہ کے لیے ایک واجب الاتباع قانون کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے ؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کے موجب حجت و استناد اور لائقِ اتباع ہونے کے لیے اس کا مکتوب و محرر ہونا شرط لازم نہیں۔ آخر قرآن کی وحی بھی تو تحریری نہیں بلکہ زبانی ہی نازل ہوتی تھی، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے:
(۷۵؍القیامۃ: ۱۶)
’’آپ اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں کہ اسے جلدی حاصل کر لیں۔ ‘‘
یعنی جبریل امین آپﷺ کو پڑھ کر سناتے تھے اور رسول اللہﷺ کو فوراً یاد ہو جاتی تھی۔ پھر رسول اللہﷺ اپنے حافظے اور یادداشت ہی سے اسے املا کراتے تھے اور ظاہر ہے کہ نزول اور کتابت کے درمیان کچھ وقفہ ایسا ضرور گزرتا ہو گا جبکہ حفاظت وحی کا انحصار صرف حافظے اور قرأت پر ہوتا ہو گا۔
نیز حدیث نام ہے رسولﷺ کے قول و فعل و تقریر کا۔ رہا قول کا معاملہ تو اسے یاد کرنے کی ضرورت ہے اور صحابہ کی زبان عربی تھی اور ان کا حافظہ انتہائی قوی تھا۔ حدیثوں کو یاد رکھنا ان کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ رہا فعلِ رسولﷺ کا معاملہ تو اسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر عمل کرنا کافی تھا جیسے نماز کیسے پڑھی جائے۔ اس کی پوری ہیئت عمل سے ہی یاد ہو جاتی تھی۔
اب رہا تقریرِ رسولﷺ کا معاملہ، تو اسے بھی یاد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ واقعات ہیں جو آپﷺ کے سامنے پیش آئے اور آپﷺ خاموش رہے۔
نیز احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ صحابہ میں احادیث کی کتابت ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں مشہور کتابیں یہ ہیں:
صحیفہ علی۔ صحیفہ وائل بن حجر۔ صحیفہ سعد بن عبادہ۔ صحیفہ جابر بن عبداللہ۔ صحیفہ انس بن مالک۔ صحیفہ عبداللہ بن عباس۔ صحیفہ صادقہ (جو عبداللہ بن عمرو بن عاص نے مرتب کیا تھا۔ ) صحیفہ عمر بن خطاب۔ صحیفہ عثمان۔ صحیفہ عبداللہ بن مسعود۔ مسند ابو ہریرہ۔ روایات حضرت عائشہ۔ صحیفہ عمرو بن حزم۔ صحیفہ صحیحہ از ابو ہریرہ y۔ 1
خلاصہ یہ نکلا کہ حدیث کے حفاظت کے طریقے جو اختیار کئے گئے وہ تین تھے:
۱: کتابت( لکھنا)
۲: حفظ( زبانی یاد کرنا)
۳: تعامل (یعنی ہر شعبہ زندگی میں احادیث پر عمل کا اہتمام کرنا)
یہ تینوں طریقے عہدِ رسالت سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
زیادہ تر عمل میں آنے والی احادیث کی تعداد متن حدیث کے لحاظ سے تقریباً ایک لاکھ ہے اور اسانید و طرق کے لحاظ سے ان کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے اور حجۃ الوداع میں صحابہ کرام کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔ اس کے بعد نبیﷺ تین ماہ زندہ رہے، اتنے عرصے میں کتنے ہزار صحابہ کا اور اضافہ ہوا؟اس حساب سے تو ایک صحابی کے حصے میں ایک حدیث بھی نہیں آتی۔
_________________________________________
! صحیفہ صحیحہ کو ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد ہمام بن منبہ نے مرتب کیا تھا، جس میں تمام وہ احادیث ہیں جو اُنھوں نے ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیں۔ اس صحیفہ کو صحیفہ ہمام بن منبہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ۱۳۹ حدیثیں ہیں۔ اس مجموعے کا اردو ترجمہ اور شرح کئی اداروں نے شائع کی ہے۔ اس کی ایک شرح راقم الحروف بھی حوالۂ قرطاس کر رہا ہے جو ماہنامہ دعوۃالتوحید، اسلام آباد میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔ (شہبازحسن)
٭٭٭
عہد رسالت میں حدیث کی کتابت و حفظ کا ثبوت
عن عبداللہ بن عمرو قال: کنت اکتب کل شیء اسمعہ من رسول اللہ ﷺ ارید حفظہ فنھتنی قریش وقالوا: اتکتب کل شیء تسعمہ و رسول اللہ ﷺ بشر یتکلم فی الغضب والرضا، فامسکت عن الکتاب، فذکرتُ ذلک الی رسول اللہ ﷺ فاومأ باصبعہ الی فیہ فقال: ((اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ مَایَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ))
(ابوداؤد، العلم، فی کتاب العلم، ح: ۳۶۴۶)
’’عبداللہ بن عمرو w فرماتے ہیں کہ میں ہر چیز جو اللہ کے رسولﷺ سے سنتا لکھ لیا کرتا تھا تاکہ میں اسے زبانی یاد کر لوں تو قریش نے مجھے روکا اور کہا کہ تو نبیﷺ سے جو کچھ سنتا ہے لکھ لیتا ہے جبکہ نبیﷺ ایک انسان ہیں۔ کبھی غصے میں بولتے ہیں اور کبھی خوشی میں بولتے ہیں۔ تو میں لکھنے سے رک گیا اور رسول اللہﷺ سے ذکر کیا تو آپﷺ نے اپنے دہن کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھو۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس(زبان) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ‘‘
رہی یہ روایت: عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہﷺ قال: ((لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَالْقُرْاٰنِ فَلْیَمْحُہُ وَحَدِّثُوْا عَنِّیْ وَلَاحَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) (مسلم، الزھد، الثبت فی الحدیث…ح: ۳۰۰۴)
’’ابوسعیدخدری سے روایت کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مجھ سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ لکھا ہے وہ اسے مٹا دے اور مجھ سے بیان کرو کوئی حرج نہیں اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔ ‘‘
اس حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ مت لکھو۔ تو آپ کا یہ حکم عارضی تھا تا کہ قرآن و حدیث کے درمیان امتیاز رہے۔
((وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ)) حدیث کا یہ ٹکڑا ایسی اسرائیلی روایات پر محمول ہے جو مسکوت عنھا ہیں یعنی ایسی اسرائیلی روایات جن کی شریعت میں تصدیق کی گئی ہو نہ تکذیب۔ لیکن جو روایات شریعت سے متصادم ہیں وہ مردود ہیں۔
منکرین حدیث حدیثوں کو اس لئے نہیں مانتے کہ حدیثوں میں باہم اختلاف ہے۔ دیکھا جائے تو اس طرح کا اختلاف قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن میں ایک آیت ہے:
(۳۶؍یٰس: ۶۵)
’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے، اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔ ‘‘
ایک اور آیت میں ہے:
(۲۴؍النور: ۲۴)
’’جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں گواہی دیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں بھی ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے۔ ‘‘
پہلی آیت میں ہے کہ منہ پر مہر لگنے کی وجہ سے زبان بند ہو جائے گی اور دوسری آیت میں ہے کہ زبانیں گواہی دیں گی۔ ذرا سوچئے جب زبانیں بند ہو جائیں گی تو گواہی کس طرح دیں گی؟
تبیانا لکل شیء کا مفہوم
قرآن میں جب ہر شے کی وضاحت ہے تو حدیث کی ضرورت کیا ہے ؟ قرآن کی آیت کے اس ٹکڑے (۱۶؍النحل: ۸۹) کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن میں جو کچھ بیان ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور احادیث نبویہ میں جن احکام کی شرح کی گئی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس متن قرآن اور شرح قرآن (یعنی حدیث) دونوں میں ہر امرِ دینی کا تفصیلی بیان ہے۔
تفصیلا لکل شیء کا مفہوم
ایک اشکال یہ ہے کہ قرآن میں جب ہر مسئلے کی تفصیل ہے تو حدیث کی کیا ضرورت ہے ؟
آیت (۶؍الانعام: ۱۵۵) کے مذکورہ ٹکڑے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ قرآن نے دین کے بنیادی اصول اور مہمات شریعت بغیر کسی ایچ پیچ کے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے تاکہ اشتباہ و ابہام کا کوئی شائبہ نہ رہے۔ لفظ ’’کل‘‘ حقیقی استغراق یعنی ایسا عموم جو تمام افراد کو شامل ہو، کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ کل ایسا ہے جیسے سورۃالنمل کی اس آیت (۲۷؍النمل: ۲۳) ’’اسے ہر چیز دی گئی تھی۔ ‘‘1
ملکہ سبا کو ہر چیز دی گئی تھی یعنی سلطنت کے تعلق سے تمام لوازمات دیئے گئے تھے کیونکہ سلیمانؑ کے پاس لوازماتِ حکومت ملکہ سبا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے۔
! لفظ کل کے مزید قرآنی استعمالات کے لیے مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کیجیے: سورۃ البقرۃ: ۲۶۰۔ اٰل عمرٰن: ۹۳۔ یوسف: ۷۹۔ الرعد: ۱۶۔ النحل: ۶۹۔ الکہف: ۵۴، ۷۹۔ الحج: ۲۷۔ النمل: ۱۶۔ الزمر: ۶۲۔ حم السجدۃ: ۲۱۔ الاحقاف: ۲۵۔ (شہباز حسن)
٭٭٭
احادیث کے ضعیف و موضوع ہونے پر اعتراض
منکرین حدیث یہ اعتراض بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ بعض احادیث تو موضوع ہیں اور بعض ضعیف حالانکہ قرآن میں اس طرح کا اختلاف نہیں۔ اس کی کوئی آیت ضعیف یا موضوع نہیں کہی جا سکتی۔ اس لحاظ سے حدیث کا مواد غیر مکمل ہی نہیں بلکہ تحریف سے بھی پاک نہیں ہے۔ جبکہ جو چیز حجت شرعیہ اور ماخذ دین ہو، اس کا خالص اور ملاوٹ سے پاک ہونا ضروری ہے۔
جواب یہ ہے کہ بلا شبہہ حدیث کے مجموعوں میں مختلف اقسام کی احادیث درج ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے مابین امتیاز کرنا مشکل ہے۔ جس شخص کو حدیث اور فن حدیث سے معمولی سی بھی واقفیت ہے وہ یہ جانتا ہے کہ محدثین نے صحیح اور قابل اعتماد احادیث کا بڑا حصہ ضعاف اور موضوعات سے الگ کر دیا ہے اور انھوں نے حدیث کی نقد و جرح کے وہ تمام اصول و قوانین بھی بیان فرما دیے ہیں جن سے کام لے کر انھوں نے احادیث کو جانچا ہے۔ اس فنی تحقیق کی مثال دنیا میں کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی۔ اس کی روشنی میں ہر صاحب علم یہ جان سکتا ہے کہ احادیث کی قوت و ضعف کا فیصلہ کن وجوہ اور دلائل کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اگر محدثین کے اس محیرالعقول کارنامے کے بغیر احادیث کا ملا جلا ذخیرہ ہم تک پہنچتا اور ہمارے پاس صحیح کو غیر صحیح سے ممتاز کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا تو یہ امر بلا شبہہ باعثِ تشویش ہو سکتا تھا۔ لیکن موجودہ صورت میں پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر مزید موجبِ اطمینان امر یہ ہے کہ جن احادیث کی صحت یا ضعف پر امت کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ ان کی تعداد ان احادیث کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جن کی صحت و عدم صحت کا معاملہ مختلف فیہ ہے۔
اب اگر کوئی شخص تھوڑی سی مقدار کو مشتبہ سمجھ کر پورے ذخیرے کو ساقط الاعتبار قرار دے دے تو اس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہو گی جو اپنے خزانے کے چند سکوں کو کھوٹا دیکھ کر پورا خزانہ دریا برد کر دے، یا بازار میں چند جعلی نوٹوں کا چلن دیکھ کر پورے ملک کی کرنسی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کرے۔ کیا کوئی زیرک اور ہوش مندانسان ایسا عاقبت نا اندیشانہ اقدام کرنے کا تصور کر سکتا ہے ؟
امام بخاریؒ معصوم نہیں تھے
منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ معصوم نہیں تھے۔ لہٰذا ان سے خطا ممکن ہے!
اس کا جواب یہ ہے کہ امکان خطا اور وقوع خطا میں بڑا فرق ہے۔ امکان اور چیز ہے اور وقوع اور چیز۔ ممکن ہے آپ چور ہوں۔ مگر بغیر ثبوتِ شرعی ایسا کہنا غلط ہے۔ امام بخاریؒ نے خطا کہاں کی ہے اسے ثابت کیجیے۔
ذرا سوچئے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے ہاتھوں سے قرآن کو نہیں لکھا۔ لکھنے والے اور جمع کرنے والے صحابہ ہی تھے اور صحابہ بھی معصوم نہ تھے۔ لہٰذا ان سے بھی خطا کے صدور کا امکان تھا۔ فما ہو جوابکم فھو جوابنا۔
بخاری میں بدعتی راویوں کا اشکال
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ بخاری میں بدعتی راوی ہیں !لہٰذا بدعتی راویوں کی مرویات کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے !
اس کا جواب یہ ہے کہ بدعات ایک درجے کی نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۴۹؍الحجرات: ۶)
’’ ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو۔ ‘‘
غور کریں کہ فاسق کے فسق کی وجہ سے جو بے اعتباری پیدا ہو سکتی تھی وہ خبر کی تحقیق کے بعد دُور کی جا سکتی ہے۔
۱: اگر راوی کی بدعت اس طرح ہو کہ اسے اسلام سے نکال دے تو ایسے بدعتی کی روایت مقبول نہیں کیونکہ قبول روایت کے لیے اسلام شرط ہے۔
۲: اگر راوی دین و شریعت کے معاملے میں دشمنی کا اظہار کرے اور مسلمانوں سے عناد رکھے اور خواہشات کی پیروی میں اسراف کرے نیز حق کی دلیلوں سے اعراض کرے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ اس کے یہاں دینداری کم ہے۔ جیسے شراب نوشی، سود خوری وغیرہ تو ایسا راوی عادل نہیں، ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں، کیونکہ قبول روایت کے لیے عدالت شرط ہے۔
۳: اگر راوی جھوٹ کو حلال جانے تو یا تو کافر ہے یا فاسق اور اگر معذوری بھی سمجھ لیں تو قبول روایت کے لیے صدق (سچائی) شرط ہے اور یہاں سچائی ناپید ہے، اس لئے ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں۔
۴: ایسا بدعتی راوی کہ اہل علم کا اس کے سلسلے میں تردد موجود ہو، اہل علم کے نزدیک اسے کافر قرار دینا یا فاسق قرار دینا واضح نہ ہو سکے اور نہ اہل علم نے اسے عادل ہی قرار دیا ہو تو ایسے راوی کی روایت مردود ہے۔
۵: اگر بدعتی راوی اپنی بدعت کا داعی ہو اور اپنی بدعت کی نشر و اشاعت کرتا ہو اور اس کی دعوت کا تعلق ایسی بدعت سے ہو جس پر محدثین کا اتفاق ہو کہ وہ بدعت ہے تو ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں۔
رہا وہ بدعتی جو اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دیتا اس کی دو شکلیں ہیں ؛ اگر اس کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی۔ لیکن اگر اس کی عدالت (عادل ہونا) ثابت نہ ہو تو اس کی روایت مردود ہو گی۔ یہ چند شرائط معلمی کی التنکیل میں موجود ہیں۔
٭٭٭
صحیح بخاری کی بعض احادیث پر اعتراضات کے جوابات
۱: حدثنا عبداللہ بن محمد قال حدثنی عبدالصمد قال حدثنی شعبۃ قال حدثنی ابو بکر بن حفص قال سمعت اباسلمۃ یقول: دخلت انا واخو عائشۃ علی عائشۃ فسالھا اخوھا عن غسل النبیﷺ فدعت بانائٍ نحو من صاعٍ فاغتسلت و افاضت علی راسھا و بیننا و بینہا حجاب۔
(بخاری، الغسل، الغسل بالصاع…ح: ۲۵۱)
’’عبداللہ بن محمد بیان کرتے ہیں کہ انھیں عبدالصمد نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ابو سلمہ نے فرمایا کہ میں اور حضرت عائشہ کے بھائی، حضرت عائشہ کے پاس گئے۔ ان کے بھائی نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺ کس طرح غسل کیا کرتے تھے ؟حضرت عائشہ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن منگوایا جس سے آپ نے غسل کیا اور سرپر بھی پانی ڈالا، درمیان میں ایک پردہ لٹکایا ہوا تھا۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ آیا یہ دونوں حضرات اس پردے میں سے حضرت عائشہ r کو غسل کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے ؟ جواب نفی میں ہے۔ غسل کی کیفیت بتانے کے لیے حضرت عائشہ r نے غسل نہیں کیا بلکہ انھوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابو سلمہ اور دیگر نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے پانی سے کیسے نہایا جا سکتا ہے تو حضرت عائشہ r نے بتایا کہ یہ بالکل ممکن ہے اور دیکھو اب میں نہانے کے لیے جا رہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی اس کے بعد انھوں نے پردہ ڈالا اور غسل کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اتنے پانی سے نہانا ممکن ہے۔ اس مفہوم کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے مذکورہ حدیث پر ’’الغسل بالصاع و نحوہ‘‘ کا باب باندھا ہے۔
امام بخاریؒ کی تبویب منکرین حدیث کی اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے کافی ہے۔ نیز غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں ہوتے بلکہ غسل کا ایک مطلب ’’نہانے کا پانی‘‘ بھی ہوتا ہے۔
۲: عن عامر بن سعد عن ابیہ قال امر رسول اللہ ﷺ بقتل الوزغ وسماہ فویسقا۔
(ابوداؤد، الادب، فی قتل الاوزاغ، ح: ۵۲۶۲)
’’عامر اپنے حضرت سعد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے چھپکلی کے مارنے کا حکم دیا اور اسے فاسق کہا۔ ‘‘
چھپکلی کے قتل کا یہ سبب نہیں کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی آگ پر پھونک مار رہی تھی۔ مذکورہ بالا حدیث سے اس کا فویسق (زہریلا اور موذی) ہونا بتایا گیا ہے۔ نیز بعض جانور فطرتاً شریف ہوتے ہیں اور بعض فطرتاً بد طینت ہوتے ہیں۔ جیسے بچھو اور چھپکلی وغیرہ… تو ابراہیمؑ کی آگ میں پھونک مارنا اس کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ چھپکلی کیسے پھونک مار رہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بات ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ویسے بھی قرآن سے یہ ثابت ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن وہ تسبیح کیسے بیان کر رہی ہے ؟ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ چھپکلی ایک برے کام میں مدد کیوں کر رہی تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
۳: عن عائشۃ جأت سہلۃ بنت سہیل الی النبیﷺ فقالت یارسول اللہ! انّی اری فی وجہ ابی حذیفۃ من دخول سالم۔ وھو حلیفہ۔ فقال النبی ﷺ ((اِرْضِعِیْہِ)) قالت: وکیف اُرضعہ وھو رجل کبیر؟ فتبسم رسول اللہﷺ وقال ((قَدْ عَلِمْتُ اَنَّہُ رَجُلٌ کَبِیْرٌ۔ ))
(مسلم، الرضاع، رضاعۃ الکبیر، ح: ۱۴۵۳)
’’حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ سالم جب گھر میں داخل ہوتے ہیں تو میں ابو حذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھتی ہوں تو نبیﷺ نے فرمایا: تو سالم کو اپنا دودھ پلا دے۔ کہنے لگیں: میں انھیں کیسے دودھ پلا دوں ؟ وہ بچے نہیں ہیں بلکہ بڑی عمر کے آدمی ہیں تو نبیﷺ مسکرائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ جوان ہیں۔ ‘‘
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ابو حذیفہ کی بیوی سہلہ نے نوجوان سالم کو اپنا دودھ پلایا۔
جواب اس کا یہ ہے کہ اسلام میں حرجِ شدید کا لحاظ کیا گیا ہے جیسے کہ ایام ماہواری میں عورت کی نماز معاف ہے جبکہ نماز جنگ میں بھی معاف نہیں۔ سالم چونکہ بچپن سے ابو حذیفہ کے گھر آتے جاتے تھے اور سودا سلف بھی لے آتے تھے۔ گھر میں اور کوئی نہ تھا۔ لہٰذا مجبوری کی وجہ سے ایسا کیا گیا، یہ ان کے لیے خاص تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ پتا نہیں چلتا کہ سہلہ نے سالم کو اس طرح اپنا دودھ پلایا جیسے بچے کو پلایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی برتن میں دودھ نکال کر پلایا گیا ہو۔
عذابِ قبر
منکرین حدیث کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اگر عذاب قبر کو مان لیا جائے تو تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں جبکہ قرآن میں صرف دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۴۰؍المؤمن: ۱۱)
’’وہ کہیں گے: ہمارے رب!تُو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی۔ ‘‘
جواب یہ ہے کہ قرآن میں کئی واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مردے زندہ ہو گئے۔ جیسے کہ حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں باذن اللہ مردوں کا زندہ ہونا اور سورۃالبقرۃ میں حضرت عزیرؑ اور ان کے گدھے کا زندہ ہونا اور چار پرندوں کا زندہ ہونا…تو کیا یہ تیسری زندگی نہیں ہے ؟
ہاں یہ صحیح ہے کہ قرآن میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے سب لوگوں کو نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کوئی مسلمان اس کا عقیدہ رکھتا ہے۔ نیز اہل قبور کے لیے دنیا کی معروف زندگی اور موت کی معروف بے حسی کے درمیان کسی درجے کا احساسِ زندگی تسلیم کر لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟ 1
________________________________
1 غور طلب بات یہ بھی ہے کہ عذابِ قبر مردے کو ہوتا ہے زندہ انسان کو نہیں، کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان اس بات کا قائل نہیں کہ عذابِ قبر مردے کی بجائے زندہ انسان کو ہوتا ہے لہٰذا جب یہ کسی کا عقیدہ ہی نہیں کہ عذابِ قبر زندہ کو ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا ہی فضول ہے کہ عذابِ قبر سے تیسری زندگی لازم آتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی اس موضوع پر لکھی گئی کتب: عذابِ قبر، منکرین عذابِ قبر کے اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات؛ عذابِ قبر، قرآن کی روشنی میں ؛المسندفی عذاب القبر(محمد ارشد کمال)
ملحوظہ: … عذاب قبر نہ صرف یہ کہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ قرآن سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، عذابِ قبر کے قرآنی ثبوت کے لیے ان آیات کا مطالعہ کیجیے: سورۃ ابرھیم: ۲۷؛ طہ: ۱۲۴۔ ۱۲۶؛ الانعام: ۹۳؛ الانفال: ۵۰۔ ۵۱؛محمد: ۲۷؛المؤمن: ۴۵۔ ۴۶؛نوح: ۲۵؛التوبۃ: ۱۰۱؛التکاثر: ۱۔ ۴؛ الواقعۃ: ۸۳۔ ۹۶؛النحل: ۲۸۔ ۳۲(شہبازحسن)
ثبوت اس آیت میں ہے:
(۳۶؍یٰسٓ: ۵۲) ’’انھوں نے کہا: ہائے ! ہمیں ہمارے مرقد سے کس نے اٹھایا۔ ‘‘
رقود نیند کو اور مرقد خوابگاہ کو کہتے ہیں۔ پتا چلا کہ قبر میں مردے کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے سونے والے کی۔ اس میں زندگی کی پوری حسیت اور موت کی مکمل بے حسی طاری نہیں ہوتی بلکہ بین بین کی کیفیت ہوتی ہے۔
اس بحث میں ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ قیامت کے وقوع سے پہلے بدلہ دیا جانا انصاف کے خلاف ہے !
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قیامت سے پہلے کوئی بدلہ دیا جانا تسلیم نہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے دنیا میں قوموں کو ان کے برے اعمال کی سزا کیوں دی؟
حدیث ثلاث کذبات
منکرین حدیث کا اعتراض یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صدیق کہا ہے اور صحیح بخاری میں ( ح: ۵۰۸۴) ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے:
((لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذَبَاتٍ))
’’حضرت ابراہیم نے صرف تین جھوٹ بولے۔ ‘‘
در حقیقت اسے توریہ کہتے ہیں یعنی ایسا کلام جو مجازاً کذب(جھوٹ) ہوتا ہے مگر حقیقت میں سچ ہوتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو ابراہیمؑ کے ایسے جھوٹ کا تذکرہ خود قرآن میں بھی ہے:
(۳۷؍الصّٰفّٰت: ۸۹) ’’تو انھوں نے کہا: میں بیمار ہوں۔ ‘‘
ایک تو یہ کہ آپ بیمار نہیں تھے مگر آپ نے کہا کہ میں بیمار ہوں۔
دوسرایہ کہ آپ نے خود بتوں کو توڑ کر بڑے بت کا نام لے دیا۔
(۲۱؍الانبیاء: ۶۳)
’’آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے۔ ‘‘
تیسرایہ کہ آپ نے تارہ، چاند اور سورج کو دیکھ کر انھیں اپنا رب کہا۔
(۶؍الانعام: ۷۷۔ ۷۹)
کیا ابراہیمؑ کا انھیں رب کہنا سچ تھا یا جھوٹ؟
اب جو توجیہ منکرین حدیث ان آیات کی کریں وہی اسی قسم کی احادیث کی سمجھ لیں۔
در حقیقت حدیث میں حقیقی جھوٹ نہیں بلکہ مجازی جھوٹ کا تذکرہ ہے جسے توریہ کہا جاتا ہے۔ جس میں ظاہری کلام کی صورت کذب کی ہوتی ہے مگراس پر مواخذہ نہیں ہوتا لیکن بڑے لوگوں کو اس سے شرم آتی ہے۔
حدیث زنائے قردۃ
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں کتاب مناقب الانصار کے باب القسامۃ فی الجاہلیۃ(ح: ۳۸۴۹) میں اپنے استاد نعیم بن حمادؒ سے اس طرح روایت کیا ہے:
عن عمرو بن میمون قال رایت فی الجاھلیۃ قردۃ اجتمع علیھا قردۃ قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم۔
’’عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہو کر اسے سنگسار کیا، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا۔ ‘‘
منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے ؟
پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی۔ (دیکھیے الاحقاف: ۲۶)
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہو گئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کر سکتے۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے۔
اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کر سکتا ہے تو کیا انسان کے لیے یہ سزا نامناسب ہے ؟
تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاریؒ نے زیر بحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہچانا مقصود ہوتا ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب مقاصد تراجم ابو ابِ بخاری)
نبیﷺ پر جادو اور اس کی نوعیت
حدیث سحر النبیﷺ کی بابت معروض یہ ہے کہ یہ واقعہ صحیح بخاری میں منقول ہے۔ لہٰذا اِس کا انکار قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
(۱۰؍یونس: ۱۰۷)
’’اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو سوائے اس کے، کوئی اسے دُور کرنے والا نہیں ہے۔ ‘‘
آیت مذکورہ سے نبی اکرمﷺ پر ضرر کے طاری ہونے کا امکان ثابت ہوتا ہے اور سحر بھی ایک ضرر ہے۔ چنانچہ سحر کے ضرر ہونے کی دلیل خود قرآن میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۲؍البقرۃ: ۱۰۲)
’’اور یہ (جادوگر لوگ) اس (جادو) کے ذریعے ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے۔ ‘‘
آیت کے دونوں ٹکڑے بتا رہے ہیں کہ سحر ایک ضرر ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سحر کئی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو وہ جو عقل و تمیز اور قلب پر اثر کرتا ہے۔ دوسرا اُس کا اثر ظاہر اعضائے جسم پر ہوتا ہے پس نبی اکرمﷺ پر جو سحر ہوا وہ دوسری قسم کا تھا۔ چنانچہ قاضی عیاض نے فرمایا:
ان السحر انما تسلط علی ظاہرہ و جوارحہ لا علی قلبہ و اعتقادہ و عقلہ۔ (الشفا۲؍۱۸۷)
’’جادو کا اثر آپ(ﷺ ) کے ظاہر اعضائے بدن پر ہوا تھا۔ نہ کہ آپ کے دل، اعتقاد اور عقل پر۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ سحر ایک مرض تھا، جس طرح اور امراض میں نبی اکرمﷺ مبتلا ہوئے۔ سر میں درد ہوا، بخار آیا، زہر کا اثر ہوا، اسی طرح ایک بار مرضِ سحر میں بھی مبتلا ہوئے اور یہ سب لوازمات بشریہ میں سے ہیں۔
علامہ ابن القیمؒ زادالمعاد میں لکھتے ہیں:
قد انکر ھذا طائفۃ من الناس وقالوا: لایجوز ھذا علیہ وظنّوہ نقصا و عیبا ولیس الامر کما زعموا، بل ہو من جنس ما کان یعتریہ ﷺ من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض، واصابتہ بہ کاصابۃ بالسمِّ لافرق بینھما… قال القاضی عیاض: والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل یجوز علیہ ﷺ کانواع الامراض مما لاینکر ولا یقدح فی نبوتہ۔ (زادالمعاد۳؍۷۶۷)
’’لوگوں کی ایک جماعت نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ نبیﷺ پر جادو کا تسلیم کرنا جائز نہیں۔ اسے یہ لوگ نقص اور عیب سمجھتے ہیں۔ (جو ایک نبی کی شان سے بعید ہے ) حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا انھوں نے سمجھا ہے بلکہ وہ( سحر) ان امراض و بیماریوں اور تکلیفوں کی جنس سے ہے جو نبیﷺ کو پیش آئیں۔ جس طرح آپﷺ پر زہر کا اثر ہوا اسی طرح سحر کا بھی ہوا۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں … قاضی عیاض فرماتے ہیں: سحر ایک مرض ہے اور دیگر امراض کی طرح اس کا نبیﷺ پر اثر کرنا جائز ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے آپﷺ کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ‘‘
اور اس سحر کا مرض ہونا خود حدیث بخاری سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ دو فرشتوں میں سے ایک نے پوچھا:
((مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوْبٌ)) یعنی اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟
تو دوسرے نے کہا: ((مَطْبُوْبٌ)) (بخاری، الطب، السحر، ح: ۵۷۶۳)
’’ان پر جادو ہوا ہے۔ ‘‘
مختار الصحاح میں ہے:
الوجع المرض۔ طب لفظ لغات اضداد میں سے ہے، اس کے معنی داء اور دوا دونوں کے ہیں اور بمعنی جادو بھی آتا ہے۔ پس معنی ہوئے کہ انھیں سحر کی بیماری ہے۔ آخری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
(( اَمَّا اَنَا فَقَدْ شَفَانِی اللّٰہُ))
(بخاری، بدأ الخلق، صفۃ ابلیس، ح: ۳۲۶۸)
’’ اللہ نے مجھے شفا دے دی۔ ‘‘
اور ظاہر ہے کہ شفا مرض ہی سے ہوتی ہے کیونکہ مرض کی ضد شفا ہے۔ ظاہر ہے کہ مرض سے عصمت اور امور تبلیغی پر کوئی اثر، نقصان وغیرہ کا واقع نہیں ہوتا جیسے نیند یا بخار کی غفلت یا نسیان عارضی کا عصمت پر اور امور تبلیغی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح کا سحر بھی ہے۔
مسحور:
نبی اکرمﷺ کے حق میں جو مسحور کا لفظ اس آیت (۲۵؍الفرقان: ۸) (تم صرف ایک مسحور آدمی کی اتباع کر رہے ہو)میں آیا ہے۔ چونکہ نبی اکرمﷺ پر سحر تسلیم کرنے سے کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے۔
سوالِ اول کی دو شقیں ہیں:
۱: لفظ مسحور کی تحقیق جو قرآن میں وارد ہوا ہے۔
۲: حقیقت سحر النبی اور اس کا اثر۔
پس واضح ہو کہ قرآن مجید میں نبی اکرمﷺ کی بابت مقولہ کفار دو مقامات( بنی اسراء یل، الفرقان) پر منقول ہے۔
میری تحقیق اس مسئلہ کے متعلق یہ ہے کہ قرآن مجید عرب کے محاورے میں نازل ہوا ہے اور عرب العرباء کبھی اسم مفعول کے لیے اسم فاعل کا لفظ بولتے ہیں جیسا کہ خود قرآن میں ہے۔ عیشۃ راضیۃ بمعنی مرضیۃ۔ مائدۃ بمعنی ممدوء ۃ
اسی طرح کبھی اسم فاعل کے لیے اسم مفعول کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے ملک مرطوب (تری والا ملک) مکان مھول (خوف دلانے والی جگہ) جاریۃ مغنوجۃ (ناز کرنے والی لڑکی)
خود قرآن میں اس کی مثال (۱۷؍بنی اسراء یل: ۴۵) ہے:
قال الاخفش: المستور ھھنا بمعنی الساتر فان الفاعل قد تجیء بلفظ المفعول کما یقال انک لمشؤم علینا و میمون وانما ہو شائم و یامن۔
اخفش کہتے ہیں کہ مستور سے یہاں ساتر(ڈھانپنے والا)مراد ہے، اسم فاعل کبھی مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے مشؤم شائم (نحوست والا) کے معنی میں جبکہ میمون یأمن (برکت والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح ہر دو مقام پر مسحور بمعنی ساحر ہے اور اس پر چند دلیلیں ہیں:
۱: کفار مکہ عام طور سے نبی اکرمﷺ کو ساحر کہتے تھے نہ کہ مسحور، سورۃ یونس میں ان کا مقولہ نبی اکرمﷺ کی نسبت (آیت۲) منقول ہے اور سورۃص میں (آیت۴) ہے۔ پس بفحوائے تفسیر کلام اللہ اقرب الی الصواب (تفسیر کبیر جلد۳) دونوں جگہوں میں مسحور بمعنی ساحر ہے۔
۲: سورۃ بنی اسراء یل میں موسیٰؑ کی بابت بھی فرعون کا مقولہ یوں منقول ہے:
(آیت: ۱۰۱)
’’یقیناً میں تو تجھے اے موسیٰ!جادو زدہ سمجھتا ہوں۔ ‘‘
حالانکہ سارے قرآن میں فرعون اور اس کی قوم کا مقولہ جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ وہ موسیٰ کو ساحر کہتے تھے۔ سورۃالاعراف و سورۃالشعراء میں آیا ہے۔ (دیکھیے سورۃالاعراف: ۱۰۹؛الشعراء: ۳۴)
سورۃ المؤمن میں (آیت۲۴) آیا ہے۔
سورۃالذاریٰت میں (آیت۳۹) آیا ہے۔
سورۃ الزخرف میں (آیت۴۹)منقول ہے۔
سورۃ طہٰ میں (آیت۵۷) اور (آیت۶۳) آیا ہے۔
سورۃ طہٰ اور شعراء میں (طہ: ۷۱؛ الشعراء: ۴۹) وارد ہے۔
پس جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ موسیٰؑ کو ساحر کہتے تھے تو سورۃ بنی اسراء یل میں فرعون کے مقولہ منقولہ میں مسحور کو ساحر کے معنی میں لینا ہو گا۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ کی بابت کفار کا مقولہ جو (۱۷: ۴۵) ہے۔ یہاں بھی مسحور کو ساحر کے معنی میں ماننا پڑے گا۔ فراء نحوی کا بھی یہی موقف ہے کہ یہاں مسحور بمعنی ساحر ہے۔
تفسیر کبیر میں ہے کہ فراء کہتے ہیں:
ان المسحور بمعنی الساحر کالمشؤم و المیمون۔
’’ مسحور ساحر کے معنیٰ میں ہے جیسے مشؤم اور میمون کے الفاظ ہیں۔ ‘‘
پس جب مسحور بمعنی ساحر ہوا تو حدیث متفق علیہ (نبی اکرمﷺ پر جادو کیا گیا) اس آیت کے مخالف نہیں ہوئی اور نہ کوئی ظلم و کفر لازم آیا اور اگر کوئی صاحب محاورہ عرب سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ان تینوں دلیلوں کو ماننے پر آمادہ نہ ہوں تو کم سے کم انھیں اپنے فہمیدہ معنی کی اصلاح کر لینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مسحور کے معنی ان مقامات میں (جادو کیا گیا) نہیں ہے بلکہ ’’ جادو دیا گیا ‘‘یعنی کفار نے کہا کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرو گے جسے جادو کا علم دیا گیا ہے۔ یعنی وہ ساحر ہے۔ چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن جریر طبریؒ نے یہی معنی مراد لئے ہیں۔ ابن جریر طبری نے کہا:
معناہ اُعطیت علم السحر فھذہ العجائب التی تاتی بھا من ذلک السحر۔
’’ مسحور کے معنی یہ ہیں تو جادو دیا گیا ہے۔ پس یہ عجائبات (معجزات) اسی جادو کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘
۳: نیز کفار نے نبی اکرمﷺ کو بشر بھی کہا ہے:
(۱۷؍بنی اسراء یل: ۹۴)
’’انھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘
(۶۴؍التغابن: ۶)
’’تو اُنھوں نے کہا: کیا بشر ہماری راہنمائی کریں گے ! ‘‘
لہٰذا آیت (۱۸؍الکھف: ۱۱۰) (فرما دیجیے کہ مَیں تم جیسا ایک بشر ہی ہوں ) اور حدیث ((اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسیٰ کَمَا تَنْسَوْنَ)) (مسلم، المساجد، السھو فی الصلاۃ… ح: ۵۷۲ )(مَیں تو ایک بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں )سے آپﷺ کا بشر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا احادیث کے ساتھ ان آیات کو بھی نہیں ماننا چاہیے !
۴: کفار نے نبی اکرمﷺ کو رسول بھی کہا:
(۱۷؍بنی اسراء یل: ۹۴)
’’اُنھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘
(۲۵؍الفرقان: ۷)
’’اور اُنھوں نے کہا: اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے۔ ‘‘
آیت (۴۸؍الفتح: ۲۹) (محمد اللہ کے رسول ہیں )اور حدیث ((اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ)) (بخاری، الاذان، التشھد فی الاٰخرۃ … ح: ۸۳۱) (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)سے آپﷺ کا رسول ہونا ثابت ہوتا ہے، اس سے چونکہ کفار کے قول سے اتفاق ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اِس آیت اور حدیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا!
۵: کفار نے نبی اکرمﷺ کے بارے میں کہا کہ وہ کھانا کھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب با توں پر فرماتا ہے:
(۲۵؍الفرقان: ۹)
’’دیکھیے اُنھوں نے آپ کے لیے کیسی مثالیں بیان کی ہیں، تو وہ گمراہ ہو گئے، پس اب وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ ‘‘
لہٰذا آیت (۵؍المائدۃ: ۷۵) (وہ دونوں کھانا کھاتے تھے )اور حدیث عن ابی ایوب کان رسول اللہﷺ اذا اُتی بطعام اکل منہ (مسلم، الاشربۃ، اباحۃ اکل الثوم…ح: ۲۰۵۳)(ابوایوب سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ نے تناول کیا) سے آپﷺ کا کھانا کھانا ثابت ہے۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ضلالت قرار دیا ہے، لہٰذا یہ آیت اور حدیث ناقابل تسلیم ہیں ! ورنہ پھر تو الزامِ کفار کو غلط نہیں کہا جا سکے گا۔
٭٭٭
نبیﷺ پر جادو کو قرآن کے خلاف قرار دینے کی مغالطہ انگیزی (از شہباز حسن)
نبی اکرمﷺ پر جن احادیث میں جادو کیے جانے کا بیان ہے۔ انھیں منکرین حدیث خلافِ قرآن کہہ کر بہت اچھالتے ہیں۔ اس پر کبھی ’’اصل بات تو وہ ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں اور کبھی ’آپﷺ پر جادو ہونے کے سلسلے میں بخاری کی تفصیل اور قرآن کی تردید‘ کی سرخی جماتے ہیں۔ اور یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے مخالفین کو لاجواب کر دیا ہے لہٰذا وہ ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں جیسا کہ اس عنوان سے ظاہر ہے: قرآن کی بات اگر دلائل و براہین سے پیش کی جائے تو پھر وہ تو چپک جاتی ہے۔
(مطالب الفرقان فی دروس القرآن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۲)
(۱۷؍بنی اسراء یل: ۴۷) کی وضاحت میں اس بات پر منکرین حدیث بہت زور دیتے ہیں کہ ’’کفار کا قول ہے ‘‘ ’’قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کا قول تھا‘‘ ’’قرآن کی اس کی نفی کر رہا ہے یہاں یہ کفار کا قول بتا رہا ہے۔ ‘‘ کفار کا حضورﷺ کے خلاف یہ قول ہے کہ رجلاً مسہورا(۱۷؍بنی اسراء یل: ۴۷) ہے۔ ‘‘ وغیرہ۔ (ایضاً ص: ۲۳۲۔ ۲۳۳)
جس سے وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ قول کفار کے مطابق آپ رجل مسحور تھے جبکہ حدیث میں بھی آپ کو رجل مسحور بتایا گیا ہے تو اس طرح تو یہ کفار کے قول کی تصدیق یا موافقت ہوئی۔ غلام احمد پرویز لوگوں سے دریافت کرتے ہیں:
’’آپ کو معلوم ہے عزیزان! کہ آپ کے ہاں کا عقیدہ کیا ہے اور کہاں سے وہ آیا ہوا ہے۔ بخاری شریف میں حضورؐ کے متعلق یہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پر معاذ اللہ ایک یہودی نے جادو کر دیا تھا۔ آپ اس جادو کے اثر میں آ گئے تھے اور کیفیت یہ تھی کہ آپ کو یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے یا نہیں کیا۔ حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز بھی پڑھ لی یا نہیں۔ ’’اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے ‘‘ قرآن اس کی نفی کر رہا ہے۔ یہاں پہ کفار کا قول بتا رہا ہے۔ عزیزانِ من ! آپ کی معتبر ترین کتاب بخاری کی ہے۔ اس میں یہ چیز ہے کہ رسولﷺ کے اوپر کسی یہودی نے جادو کر دیا تھا اور بڑی لمبی تفصیل ہے کہ جادو کیسے کر دیا تھا، کس طرح سے آپ کی یہ کیفیت ہو گئی تھی آپ رجلاً مسہورا معاذ اللہ! بن گئے تھے۔ پھر کس طرح سے یہ پتا لگایا، کس طرح سے لوگوں کو وہاں بھیجا یہاں وہ تعویذ کالا جادو کیا ہوا کنویں میں سے نکالا، پھر اس کا اثر زائل ہوا۔ یہ ساری تفصیل دی ہوئی ہے۔ یہاں قرآن یہ کہتا ہے کہ کفار کا حضورﷺ کے خلاف یہ قول ہے کہ وہ رجلاً مسہورا ہے اور یہ کالا جادو لگائے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ ‘‘(ایضاً)
حضورﷺ پر جادو کیے جانے کے سلسلے میں پرویز کسی بھی قسم کی مفسرین کی پیش کردہ Justification ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں ! اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے:
’’اس سے اس لیے انکار ہے کہ اول تو بہر حال عقل و بصیرت کی بناء پر یہ چیز آ جاتی ہے۔ عقیدت و احترام کو تو چھوڑیے، عزیزانِ من! خالص اس بناء پر یہ لیجیے کہ جو شخص دنیا کے اندر اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، لاکھوں انسانوں کے دل کے اندر اور پھر باہر کی دنیا کے اندر بھی اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، اس کی کیفیت یہ ہے۔ جادو کا مارا ہوا اِنسان خود تو وہ کسی اور کے لیے یہ کچھ کرنا ایک طرف رہا، اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ جسے یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ میں نے نماز بھی پڑھ لی یا نہیں، وہ اتنی عظیم مملکت کا بھی انتظام کر لے گا؟ کتنے عظیم انسانوں کے قلب و نگاہ کی دنیا کو بدل کے رکھ دے گا۔ کیا وہ رجلاً مسہورا ہو گا؟ معاذ اللہ! نہیں، قطعاً نہیں۔ ‘‘(ایضاً ص: ۲۳۳)
’’دلائل و براہین‘‘ کی بات کرتے ہوئے پرویز صاحب گویا ہوئے:
میری تو سندیہ ہوتی ہے کہ کیا قرآن کریم یہ کچھ کہتا ہے یا یہ کفار مخالفین آپ کے خلاف آ کر اس قسم کی کفر کی باتیں کرتے تھے کہ یہ رجلاً مسہورا ہے ؟ یہ ان پہ جادو کر دیا؟ قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کا قول تھا۔ آپ ہم سے کہتے ہیں کہ مانیے کہ ہاں آپ رجلاً مسہورا تھے اس پر کوئی کیا کرے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ نہ کوئی دلیل ہے، نہ کوئی برہان ہے، نہ محفوظ بات کو رد کر سکتے ہیں۔ (مطالب الفرقان فی دروس القرآن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۳)
آگے چل کر پرویز پوچھتے ہیں: اس پر بخاری کی اس حدیث کو کوئی کیا کرے۔ (ایضاً ص: ۲۳۴)
احمد مصطفی مراغی بھی حضورﷺ پر سحر کے اثرات کی نفی اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو مشرکین کا قول (۱۷: ۴۷) درست ثابت ہوتا ہے۔ (تفسیر المراغی: جزء ۳۰ ص: ۲۶۸)
سید قطب نے اس سلسلے کی احادیث کو اِس لیے بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ھذہ الروایات تخالف اصل العصمۃ النبویۃ فی الفعل والتبلیغ ’’یہ روایات فعل وتبلیغ میں عصمت نبوت کے منافی ہیں۔ ‘‘(سید قطب: ۱۰؍ ۲۹۴، مطبعۃ عیسی البابی الحلبی، مصر)
حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ پر جادو کیے جانے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔ یہ احادیث صحیح بخاری، مسلم، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہیں۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث کئی مقامات پر آئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ r بیان کرتی ہیں:
رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبیﷺ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبیﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔
عائشہ r نے پوچھا: اللہ کے رسول ! وہ خواب کیا ہے ؟
فرمایا: میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا:
ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟
دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔
پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے ؟
جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔
پوچھا: وہ جادو کس چیز میں ہے ؟
جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔
پوچھا: وہ ہے کہاں ؟
کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔
عائشہ r نے بیان کیا کہ پھر نبیﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ r کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا:
واللہ! اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔
بیان کیا کہ پھر نبیﷺ تشریف لائے اور انھیں کنویں کے متعلق بتایا۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟
نبیﷺ نے فرمایا:
مجھے اللہ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ ( بخاری، الدعوات ۸۰، تکریر الدعاء۵۷، ح: ۶۳۹۱، نیز دیکھیے الطب ۷۶، السحر ۴۷، ح: ۵۷۶۳، ھل یستخرج السحر ۴۹، ح: ۵۷۶۵، ح: ۵۷۶۶، الادب ۷۸، ۵۶، ح: ۶۰۶۳، الجزیۃ و الموادعۃ ۵۸، ھل یعفی عن الذمی اذا سحر ۱۴، ح: ۳۱۷۵، مسند احمد ۶/۵۷، ۶۳۔ ۶۴، ۹۶)
اس روایت میں ’’آپ کو خیال گزرتا‘‘، ’’ ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ ‘‘ اور ’’اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ جادو سے صرف جسمانی تکلیف ہی محسوس کرتے تھے۔ یعنی جادو کا اثر صرف آپﷺ کی ذات تک ہی محدود تھا، نبوت ورسالت اس اثر سے محفوظ تھی۔ آپﷺ نے جادو کے اثر سے کوئی شرعی حکم یا عمل ترک نہیں کیا۔ پرویز نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے یہ کہا کہ آپ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ ’’حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں ‘‘ یہ وہی ’’علمی دیانت‘‘ ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر اپنی تالیفات میں کرتے رہتے ہیں۔ نبیﷺ پر جادو کے اثر کرنے کی بنیاد پر انھوں نے ’’جادو کا مارا ہوا اِنسان‘‘ کے الفاظ غلو و مبالغہ آرائی کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں۔ جو کہ علمی خیانت ہے۔
حالانکہ اس سلسلے کی بخاری کی کسی بھی حدیث میں اس بات کا تذکرہ موجود نہیں کہ آپ کو نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ اوپر بیان کردہ حدیث میں ’’آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے۔ ایک حدیث بخاری میں کان یخیل الیہ انہ صنع شیئا ولم یصنعہ (ح: ۳۱۷۵) کے الفاظ ہیں۔
بخاری کی باقی احادیث میں بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ آئے ہیں۔ ایک حدیث میں یخیل الیہ انہ یاتی اھلہ ولا یاتی (ح: ۶۰۶۳) کے الفاظ آئے ہیں۔ بخاری کی ایک اور حدیث میں حتی کان یری انہ یاتی النساء ولا یا تیہن (ح: ۵۷۶۵) کے الفاظ ہیں، لیخیل الیہ انہ یفعل الشیء وما فعلہ (ح: ۵۷۶۶) کے الفاظ ایک حدیث میں موجود ہیں۔
اس معنی و مفہوم کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ (مسند احمد ۶/۵۷، ۶۳، ۹۶)
ان حوالہ جات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپﷺ پر جادو کا اثر جسمانی حد تک تھا روحانیت اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کی دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آپﷺ پر جادو کیے جانے کے واقعہ سے واقف تک نہ تھے۔ امہات المؤمنین میں سے بعض اس سحر کے اثرات سے واقف تھیں۔ جب یہ اثرات جسم کی حد تک تھے تو سحر کے نبیﷺ پر اثر کر جانے کو عصمت نبوت کے منافی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ! پھر یہ بات قرآن کی نص قطعی سے ثابت ہے کہ وحی الٰہی میں کوئی شیطانی اثر نہیں ہو سکتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۲۲؍الحج: ۵۲)
’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ جب کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا تو جو شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے دُور کرتا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے۔ ‘‘
لہٰذا رسول پر جو بھی جسمانی عوارض طاری ہوں ان سے وحی الٰہی اور احکام ربانی کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں، مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ لکھتے ہیں:
’’یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ جادو شریعت کے احکام پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوا۔ بلکہ یہ اثر محض آپ کی ذاتی حیثیت تک محدود رہا۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت تک آدھے سے زیادہ قرآن نازل ہو چکا تھا۔ عرب کے لوگ اس وقت دو متوازی فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ جن میں ایک فرقہ یا تو مسلمان تھا یا مسلمانوں کا حلیف اور دوسرا فرقہ ان کے مخالف۔ اگر اس دوران آپﷺ پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا۔ یعنی کبھی آپ نماز ہی نہ پڑھاتے یا ایک کے بجائے دو پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کر کے یا غلط سلط پڑھتے یا کوئی اور کام شریعت منزل من اللہ کے خلاف سرزد ہوتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔ ‘‘(مولانا عبدالرحمن کیلانی: آئینہ پرویزیت، ص: ۷۲۷، ط: ۴، ۲۰۰۴ء، مکتبۃ السلام، وسن پورہ لاہور)
اگر جسم پر سحر کے اثر کی وجہ سے عصمت نبوت پر حرف آتا ہو تو موسیٰؑ پر جادو کا اثر نہ ہوتا جبکہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰؑ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۲۰؍طٰہٰ: ۶۶۔ ۶۸)
’’موسیٰ نے کہا: تم ہی ڈالو۔ ڈالتے ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں تو موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا، ہم نے کہا: خوف نہ کرو۔ ‘‘
معلوم ہوا موسیٰؑ کے جسم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا مگر جادو کی وجہ سے کفار ان پر غالب نہ آ سکے تھے۔ اسی طرح جادو کرنے سے یہودی آپﷺ پر غالب نہیں آ گئے تھے بلکہ مسلسل دشمنانِ پیغمبر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے۔
آیات مذکورہ میں موسیٰؑ کے لیےیخیل اِلیہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور بالکل یہی الفاظ اوپر بیان کردہ احادیث میں نبیﷺ کے لیے آئے ہیں۔ اگر جادو کے اثر ہونے سے موسیٰؑ کو رجل مسحور کہنا درست نہیں تو پیغمبرؑ کو بھی رجلاً مسہورا کہنا درست نہیں جیسا کہ پرویز باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موسیٰؑ کے لیے بھی فرعون نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا:
(۱۷؍الاسراء: ۱۰۱)
اور نبی اکرمﷺ کے لیے بھی انھوں نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا:
(۱۷؍الاسراء: ۴۷)
دوسری آیت میں یہ الفاظ ہیں:
(۲۵؍الفرقان: ۸)
فرق صرف اتنا باقی رہ جاتا ہے کہ موسیٰؑ پر جو جادو کا اثر (یخیل الیہ) ہوا تھا اس کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرمﷺ پر جو جادو کا اثر (یخیل الیہ) ہو گیا تھا، اس کا تذکرہ احادیث نبویہ میں ہے۔ مگر پرویز صاحب کہتے ہیں:
بخاری کی اس حدیث کو کوئی کیا کرے۔
(مطالب الفرقان فی دروس القراٰن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۴)
کیا انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ موسیٰﷺ کو مسحورا کہنے کا قول تو کفار کا تھا لہٰذا قرآن کی ان آیات کو کوئی کیا کرے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ موسیٰؑ کے جسم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا اور وہ ڈر گئے تھے ؟؟
عبداللہ بن علی نجدی قصیمی لکھتے ہیں:
فتغیر قدامہ الاشیاء ویظنھا علی غیرما ہی علیہ فالایٰۃ مثل الحدیث (عبداللہ بن علی النجدی القصیمی: مشکلات الاحادیث النبویۃ و بیانھا، ص: ۵۶، ط: ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۶ء، المجلس العلمی السلفی، لاہور)
’’موسیٰؑ کے سامنے چیزوں کی ماہیت بدل گئی پس آیت حدیث کی طرح ہے۔ ‘‘
پرویز نے جس انداز سے احادیث سحر کی تردید کی ہے، اس سے تو قرآن کی تردید کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ حدیث کی مخالفت میں ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے۔
حدیث بخاری کو قرآن کے خلاف قرار دینے سے پہلے اگر پرویز نے ’’خالی الذھن‘‘ ہو کر رجلا مسحورا اور اس جیسی دیگر آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا ہوتا تو اُن پر ان الفاظ کے کہنے کا مقصد واضح ہو جاتا ہے اور وقتی طور پر جسم پر جادو کے اثر کر جانے اور مسحور ہونے کا فرق بھی کھل جاتا ہے۔
کفار نے جو نبی اکرمﷺ یا دیگر انبیاء کو مسحور یا مسحّر کہا تو اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انبیاء کی نبوت کا دعویٰ جادو کے اثر کی وجہ سے ہے۔ وہ انبیاء و رسل ؑ کے پیش کردہ شرعی احکام یا معجزات کو جادو کا کرشمہ سمجھتے تھے۔ مثلاً جب تسع آیاتٍ بیّنات(نو واضح نشانیاں ) کے ساتھ موسیٰؑ مبعوث ہوئے تو فرعون نے آپ کو مسحورا (جادو زدہ) کہا تھا۔ (۱۷: ۱۰۱)
حضرت صالحؑ نے جب قوم کو دعوت توحید دی تو قوم نے رجلاً مسہورا (۲۶: ۱۵۳) کے الفاظ سے انہیں جادو زدہ قرار دیا۔ اور ان کی نبوت کو اِس لیے نہ مانا کہ (۲۶: ۱۵۴) ’’تم اور کچھ نہیں ہماری طرح کے آدمی ہو۔ ‘‘
اسی طرح کا جواب حضرت شعیبؑ کو اُن کی قوم نے دیا تھا۔ (۲۶: ۱۸۵۔ ۱۸۶)
نبی اکرمﷺ کے لیے بھی جہاں مسحورا کا لفظ آیا ہے وہاں یہی بات تھی کہ وہ لوگ آپ کو نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آپ کی تعلیمات کو جادو کا کرشمہ قرار دیتے تھے۔ توحید الٰہی کا بیان سن کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور سرگوشیاں کرتے تھے کہ تم تو مسحورا آدمی کی پیروی کرتے ہو لہٰذا وہ گمراہ ہو گئے۔ (دیکھیے الاسراء ۱۷: ۴۶، ۴۸)
دوسرے مقام پر تو اور بھی صراحت سے یہ بات بیان کی گئی کہ نبی اکرمﷺ کے لیے کفار جو طرح طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے تو ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسا شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۲۵؍الفرقان: ۷۔ ۹)
’’اور انھوں نے کہا یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا، یا اس کی طرف خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالموں نے کہا کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھو تو یہ تمھارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں کرتے ہیں سو گمراہ ہو گئے اور راستہ نہیں پا سکتے۔ ‘‘
تو کیا کفار کا نبی اکرمﷺ کا معاذ اللہ رجلاً مسہورا کہنا اور مسلمانوں کا معتبر احادیث کی روشنی میں نبی اکرمﷺ پر سحر کا جسمانی اور وقتی اثر تسلیم کرنا ایک جیسا ہے ؟ بینہما بعد ساشع
یہاں ایک اور چیز بھی قابل غور ہے۔ نبیﷺ کو سحر کی وجہ سے بعض چیزیں یاد نہیں رہتی تھیں یہ کیفیت چند ماہ میں کبھی کبھی ہو جاتی تھی جبکہ سحر کے بغیر بھی انبیاء ورسل علیہم السلام کا نسیان ثابت ہے۔ وحی خفی کے انکار کے وقت منکرین حدیث ایسے دلائل کے انبار جمع کر دیتے ہیں تاکہ اپنا مقصود حاصل کریں۔
موسیٰؑ نے اپنے لیے نَسِیْتُ (۱۸؍الکھف: ۶۳، ۷۳) ’’میں بھول گیا‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ موسیٰؑ اور ان کے ساتھی یوشع بن نون دونوں کے لیے نسیا (۱۸؍ الکھف: ۶۱) (وہ دونوں بھول گئے ) کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ آدمؑ کے لیے نَسِیَ (طٰہٰ ۲۰: ۱۱۵) ’’وہ بھول گیا‘‘ کا لفظ قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرمﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے واذکر ربک اذا نسیتَ (۱۸؍الکھف: ۲۴) اور {فَلَا تَنْسیٰ} (۸۷؍الاعلیٰ: ۶) فرما کر اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ کا استثناء کر کے نسیان کا اثبات کیا۔ مولانا عبداللہ بن علی القصیمی لکھتے ہیں:
فما کان جوابا لھم عن النسیان کان جوابا لنا عن السحر
(مشکلات الاحادیث النبویۃ و بیانہا، ص: ۵۳)
’’جو جواب ان کا نسیان کے بارے میں ہو گا وہی ہمارا جواب سحر کے بارے میں ہو گا۔ ‘‘
انبیاء ورسل o کے نسیان کے باوجود تبلیغ رسالت میں کوئی حرف نہیں آیا اور نہ کوئی خلل واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مسلسل راہنمائی اور حفاظت کرتا تھا۔ اس لیے اگر ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فوراً تصحیح کر دیتا۔
نبی اکرمﷺ بھی بعض دفعہ بھول جاتے تھے مگر اس نسیان کی وجہ سے کوئی شرعی حکم متاثر نہیں ہوا، بلکہ آپ کے نسیان میں بھی امت کے لیے مکمل اسوہ حسنہ بننے کی حکمت موجود ہوتی تھی کہ امت بھی کسی عمل کی ادائیگی بھول جائے تو اسی طرح کرے جیسے پیغمبرﷺ نے کیا تھا۔ بھولنے پر آپ کی کسی نہ کسی ذریعے سے یاد دہانی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح حالت سحر میں بھی آپ کا بھول جانا تبلیغ رسالت میں مخل نہیں ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری اپنے مقالے ’’رسول اکرمﷺ پر سحر کی حقیقت اور مفسرین‘‘ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مفسرین کرام نے عمل سحر کے اثرات کی مطلقاً نفی نہیں کی۔ ہاروت ماروت کا جادو سکھانے کا واقعہ اور ساحرین فرعون کے جادو کے اثرات اثبات سحر کی نقلی دلیل ہیں۔ عقل وقیاس بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اگر انبیاء کرام o کو زخم، بیماری اور بچھو کا کاٹنا تکلیف دے سکتا ہے تو جادو کے اثر سے جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنا بھی ایسا ہی عمل ہے۔ ساحرین فرعون کے عمل سحر سے دیگر لوگوں کی طرح حضرت موسیٰؑ پر بھی خوف طاری ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی اور کہا کہ تم جو تمھارے داہنے ہاتھ میں ہے اسے پھینکو، یہ سب کچھ نگل جائے گی۔
احمد مصطفی المراغی، سید قطب شہیدؒ اور امین احسن اصلاحی نے حضور اکرمﷺ پر جادو کو عصمت انبیاء کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں جو احادیث ہیں وہ عام طور پر خبر احاد ہیں۔ لیکن خود انہی بزرگوں نے کسی حد تک رسولِ اکرمﷺ پر جادو کے اثرات کو درست بھی تسلیم کیا ہے۔
سید قطبؒ حضور اکرمﷺ پر جادو کی روایات میں سے کچھ کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ تو اگر یہ متعدد روایات ہیں اور صحاح ستہ کی اکثر کتب میں مستند طور پر روایت کی گئی ہیں تو پھر ان کی صحت کو تسلیم کرنے سے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
محترم اصلاحی صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انبیاء کرام پر جادو کے اثرات عارضی طور پر ہو سکتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عام طور پر جو مفسرین کرام حضورﷺ سحر کی نفی کرتے ہیں۔ وہ اسے یکسر رد نہیں کرتے۔ ‘‘
احادیث کی حیثیت کے بارے میں ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں:
’’جہاں تک احادیث کے خبرِ احاد ہونے کا تعلق ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ خبر احاد کو محض اس لیے رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی حیثیت خبرِ واحد کی ہے۔ خبرِ واحد کو ان بزرگوں نے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ سب کی صحت پر اعتراض نہیں کیا۔ جہاں تک عصمتِ انبیاء o کا تعلق ہے، وہ اس سحر کے اثر سے متاثر نہیں ہوتی۔ حضور اکرمﷺ پر جادو کے اثرات جسمانی و ذاتی اور باطنی حد تک تھے۔ ان اثرات کو صرف حضور ہی محسوس کر رہے تھے۔ کسی اور پر ہر گز ظاہر نہ ہوتے تھے۔ البتہ جب آپﷺ نے بی بی عائشہ کے سامنے تفصیل بیان کی اور کنویں میں سے مواد سحر کو نکالا گیا۔ تب اکثر لوگوں کو پتا چلا۔
جب تک آپ پر جادو کا اثر رہا آپ جسمانی و ذہنی کرب و تکلیف محسوس فرماتے رہے لیکن کسی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی بیشی واقع نہ ہوئی۔ ‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری، رسول اکرمﷺ پر سحر کی حقیقت اور مفسرین، محدث (ماہنامہ) ص: ۶۱، فروری ۱۹۹۰ء)
اس ساری بحث سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ منکرین حدیث احادیث کو رد کرنے کے لیے جس طرح انھیں قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں اسی انداز کو اگر وہ قرآن میں جاری و ساری کریں تو بہت سی آیات متضاد قرار پا کر ان کے نزدیک کالعدم ہو جائیں۔ ہاں اگر محدثین کے اصول پر چلیں تو کوئی بھی صحیح حدیث انھیں قرآن سے متصادم نظر نہیں آئے گی، بلکہ اکثر احادیث تفسیر القرآن بالحدیث کے اصولِ تفسیر میں قدم قدم پر فہم قرآن میں مدد کریں گی، مگر منکرین حدیث اور غلام احمد پرویز کے نزدیک صرف وہی حدیث صحیح ہو سکتی ہے جو قرآن کے مطابق ہو۔ اس لیے تفسیر القرآن بالحدیث میں پرویز بعض احادیث بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ جو اُن کے فہمِ قرآن کی تائید کرتی ہیں یا جن سے (بزعم خویش) مخالفین کو لاجواب کرنا مقصود ہوتا ہے۔ تفسیر میں جو احادیث وہ بیان کرتے ہیں وہ صرف اپنے مطلب کی حد تک لیتے ہیں ورنہ اصول محدثین کے مطابق وہ کسی بھی حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ: عربی لغت سے استدلال۔ اردو تفسیری ادب کے رجحانات)
دجال
منکرین حدیث واقعہ دجال کو ایک فسانے سے تعبیر کرتے ہیں، جبکہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بہت سی احادیث میں اپنی امت کو مسیح دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ روئے زمین کا سب سے بڑا فتنہ ہو گا جس سے ہر ایک مسلمان دوچار ہو گا۔ مسیح کا مطلب ہے ممسوح العین کیونکہ اس کی ایک آنکھ نہ ہو گی۔ حضرت عیسیٰؑ کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے کیونکہ عربی میں کہا جاتا ہے:
مسَحَ اللّٰہ العِلَّۃَ عن العلیل ’’اللہ نے بیمار کو بیماری سے شفا دی۔ ‘‘
چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسیٰؑ مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے تو وہ اچھا ہو جاتا تھا۔ اور مسح فلانا بالسیف کا مطلب ہے قتل کرنا۔ چونکہ عیسیٰؑ دجال کو قتل کریں گے اسی وجہ سے انھیں مسیح کہا گیا ہے، اور عربی میں مسیح کانا کو بھی کہتے ہیں۔ چونکہ دجال کانا ہو گا۔ (بخاری، الفتن، ذکر الدجال، ح: ۷۱۳۱) اسی وجہ سے اسے مسیح کہا جاتا ہے۔
حضرت تمیم داری ؓ ایک کشتی پر سوار ہوئے۔ کشتی ایک جزیرے پر جا پہنچی۔ یہ جزیرہ قبرص (Cyprus) کے قریب تھا۔ اس جزیرے پر انھوں نے ایک جانور جساسہ دیکھا جس کا چہرہ انسان کا چہرہ تھا اور بدن پر بال بہت زیادہ تھے۔ مگر پتا نہ چلتا تھا کہ وہ مرد ہے یا عورت۔ اس کے بعد دجال کو دیکھا، جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔
(مسلم، الفتن، قصۃ الجساسۃ، ح: ۲۹۴۲)
دجال یہودیوں میں سے ہو گا۔ یہ ایران کے شہر خراسان سے نکلے گا، بعض کہتے ہیں کہ اصفہان سے نکلے گا۔ یہ بھی خراسان ہی کے قریب ہے اور ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہو جائیں گے جو دجال کا لشکر ہوں گے۔ ان کے جسموں پر طیالسہ یعنی طیلسانی (ہرے رنگ جیسے ) کپڑے ہوں گے۔ (مسلم، الفتن، فی بقیۃ من احادیث الدجال، ح: ۲۹۴۴)
دجال کے ہاتھوں بہت سی خرق عادت چیزوں کا ظہور ہو گا وہ ویران جگہ سے خزانہ نکال دے گا۔ مردے کو بظاہر زندہ کر دے گا۔ جنت و جہنم دکھائے گا مگر اس کی جنت جہنم ہو گی اور جہنم جنت ہو گی۔ جب یہ نکلے گا تو پہلے ایمان اور عمل صالح کی دعوت دے گا مگر بعد میں نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کافر) لکھا ہوا ہو گا جسے نہ صرف پڑھا لکھا ان پڑھ مسلمان بھی پڑھ لے گا البتہ کافر و منافق نہ پڑھ سکیں گے۔ ( اگرچہ وہ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں۔ )
پھر عیسیٰؑ کا نزول ہو گا، وہ دمشق (شام) میں منارۂ شرقیہ کے پاس اتریں گے۔ مہدی کا ظہور ہو گا جو نبی کے خاندان سے ہوں گے۔ وہ زمین کو عدل و سلامتی سے بھر دیں گے۔ عیسیٰؑ مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور مہدی شریعت محمدیہ کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے۔ پھر عیسیٰؑ دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے فلسطین کے ایک مقام باب لد کے پاس قتل کریں گے۔ (دیکھیے بخاری، الفتن، ذکر الدجال، ح: ۷۱۳۰، ۷۱۳۱؛ مسلم، الفتن، ذکر الدجال، ح: ۲۹۳۷)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دابۃ الارض اور یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا مگر دجال کا نام ذکر نہیں فرمایا!
جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اشارتاً اس کا ذکر فرمایا ہے:
(۶؍الانعام: ۱۵۸)
’’جس دن آپ کے رب کی کچھ نشانیاں ظاہر ہوں گی تو کسی کو اُس وقت ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ ‘‘
اس آیت کی تفسیر ایک حدیث اس طرح کرتی ہے:
ثلاث اذا خرجن یعنی تین چیزوں کا جب ظہور ہو گا تو کسی کو اُس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے۔ ایک ہے سورج کا مغرب سے نکلنا، دوسرا دابۃ الارض کا نکلنا، تیسرا دجال کا نکلنا۔
(ترمذی، التفسیر، و من سورۃ الانعام، ح: ۳۰۷۲)
نسخ
منکرین حدیث قرآن میں نسخ کے بھی قائل نہیں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۲؍البقرۃ: ۱۰۶)
’’جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں۔ ‘‘
قرآن میں نسخ کا بین ثبوت ہے۔
ملحوظہ: … نسخ شیعہ کے عقیدے ’’عقیدۂ بدا‘‘ کے خلاف ہے۔ بدا کا مطلب ہے کہ پہلے کوئی حکم دیا پھر اس حکم میں کسی غلطی یا نقصان کا علم ہوا تو اسے بدل دیا۔ بدا کے مفہوم میں غلطی اور خطا داخل ہے۔
نسخ کا مطلب ہے کہ ایک حکم کا زمانہ ختم ہو جائے اور دوسرے حکم کا زمانہ آ جائے تو پہلے حکم کو بحکمت بالغہ دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کی کتاب قرآن بھی حکمت والی کتاب ہے۔ ایک حکیم کسی مریض کے مرض کی تشخیص کے بعد جب اس کا علاج کرتا ہے تو مریض کی حالت جیسے جیسے بہتر ہوتی جاتی ہے وہ دوا بدلتا جاتا ہے۔ مرض کی ابتداء سے لے کر انتہا تک ایک ہی دوا دیتے جانا حکمت کے خلاف ہے۔
نسخ سابقہ شریعتوں میں بھی رہا ہے۔ جیسے بہن بھائیوں کی شادی شریعتِ آدمؑ میں جائز تھی، بعد میں حرام ہو گئی۔
اسی طرح شریعت یعقوبؑ میں دو سگی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح درست تھا بعد میں اسے حرام قرار دیا گیا۔
حضرت اسماعیلؑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ذبح کا حکم دیا پھر ذبح سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔
قانون الٰہی کے نسخ میں انسانوں کے لیے بہت سی مصلحتیں ہیں۔ کوئی قانون کسی سبب کے تحت کوئی حکم نافذ کرتا ہے مگر جب سبب زائل ہو جاتا ہے تو اس حکم کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ 1
نبی اکرمﷺ نے پہلے قربانیوں کے گوشت کے ادّخار (ذخیرہ کرنے ) سے منع فرمایا تھا مگر جب صحابہ میں معاشی خوشحالی آئی تو اس حکم کو منسوخ کر دیا۔ (دیکھیے مسلم، الاضاحی، بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی…، ح: ۱۹۶۹، ۱۹۷۰، ۱۹۷۱، ۱۹۷۲)
قرآن میں شراب کی حرمت کے نزول میں تدریج در حقیقت اسی حکمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
نسخ کبھی صریحی، کبھی ضمنی، کبھی کلی اور کبھی جزئی ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال کو ذہن میں رکھنا کافی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۲؍البقرۃ: ۱۸۰)
’’تم پر فرض کر دیا گیا، جب تم میں کسی کو موت آ پہنچے، اگر اس نے کوئی مال چھوڑا ہو، اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے، متقی لوگوں پر یہ لازم ہے۔ ‘‘
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ انسان مرتے وقت ماں باپ کے لیے ترکے میں وصیت کر سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث (۴؍النساء: ۱۱) میں یہ حکم منسوخ کر دیا۔ یہ آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے اور پہلا حکم منسوخ ہے، جمہور کی رائے یہی ہے۔
________________________
1 وحی بند ہونے کے بعد اگر کسی حکم کا سبب بالفرض زائل بھی ہو جائے تو وہ حکم باقی رہے گا، کیونکہ اسے ختم کرنے کا اختیار امت میں سے کسی کے پاس بھی نہیں، اور نہ اس کی جگہ پر کوئی نیا حکم دیا جا سکتا ہے، کیونکہ منسوخ کرنا اور ناسخ لانا وحی کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ جیسا سورۃالبقرۃ (آیت۱۰۶) میں واضح کیا گیا ہے۔ (شہبازحسن)
ظہور مہدی
ظہورِ مہدی اسلامی عقیدے کا ایک جزو ہے۔ اس کے بارے میں احادیث نبویہ تواتر کے درجے تک پہنچ چکی ہیں۔ حوت بیروتی، رشید رضا، فرید وجدی وغیرہ اور مشہورمستشرق گولڈ زیہر جیسے لوگوں نے ظہور مہدی کا انکار کیا ہے۔ انھوں نے بڑے شد و مد کے ساتھ اس کی تردید کرنے کی کوشش کی ہے۔
عیسائیوں کے نزدیک عیسیٰؑ ہی مہدی منتظر ہیں۔ جبکہ اسلامی عقیدے کی رُو سے میں وہ حضرت فاطمہ r کی ذریت اور حسن بن علیؓ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ ان کا نام محمد یا احمد بن عبداللہ ہو گا۔ وہ جب آئیں گے تو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور ظلم و جور کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ کوئی صدقہ لینے والا نہ ہو گا۔
مہدی کی پوری دنیا میں بطور خاص عرب پر سات سال حکومت رہے گی۔ مہدی کی وفات کے بعد زمام خلافت حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں میں ہو گی۔ اور انہی کے دور میں یاجوج و ماجوج کا ظہور ہو گا اور انہی کی دعا سے یاجوج و ماجوج ہلاک ہوں گے۔
امام شوکانیؒ نے فرمایا کہ مہدی منتظر کے متعلق احادیث کی تعداد پچاس ہے۔ جن میں کچھ صحیح، کچھ حسن درجہ کی اور کچھ ذرا ضعیف ہیں۔ مہدی کے متعلق روایت کرنے والے صحابہ کی مجموعی تعداد ۲۶ ہے۔ اور اس متعلق کم و بیش ۲۸ آثار بھی ہیں۔
مہدی کوئی ذاتی نام نہیں ہو گا، بلکہ لغوی معنی ’’ ہدایت یافتہ‘‘ کے ہوں گے۔ ان کے ظہور کی کسی حتمی تاریخ اور دن کی صراحت نہیں ملتی۔ ہاں اس وقت روئے زمین پر عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔ چاروں طرف ظلم و جور اور جبر و استبداد کا دَور دورہ ہو گا۔ اس وقت لوگ مہدی کے منتظر ہوں گے۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ان کی علامات دیکھ کر انھیں پہچان لیا جائے گا۔ اور پھر ان پر بیعت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔
اس وقت مسلم حکومت جس کا دارالخلافہ دمشق ہو گا اسے اپنے خلاف بغاوت سمجھ کر مہدی سے لڑنے کے لیے نکلے گی۔ اور مکہ سے پہلے ہی ایک مقام بیداء میں ایک آدمی کو چھوڑ کر سارا لشکر دھنس جائے گا۔ (مسلم، الفتن، الخسف بالجیش الذی…، ح: ۲۸۸۲۔ ۲۸۸۴) وہی آدمی واپس جا کر اس واقعہ کی صحیح اطلاع دے گا۔ پھر یہ خبر پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ اور سب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ حقیقت میں مہدی منتظر یہی ہیں۔ اور لوگ جوق در جوق چل کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ بیعت کی شروعات رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان سے ہو گی۔ مہدی کو خود علم نہ ہو گا کہ وہ مہدی ہیں، یہاں تک کہ لوگ خود اُن کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ وہ خود خلافت کے دعوے دار نہ ہوں گے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ مہدی میرے اہل بیت میں سے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی خلافت کا انتظام ایک ہی رات میں کر دے گا۔
(ابن ماجۃ، الفتن، خروج المھدی، ح: ۴۰۸۵)
ابو سعید خدری ؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ مہدی ہم میں سے ہوں گے جن کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم نماز پڑھیں گے۔ (ابو نعیم فی کتاب المہدی و ذکرہ المناوی فی فیض القدیر، وھو صحیح، اس سے ملتی جلتی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے، دیکھیے مسلم، الایمان، نزول عیسی بن مریم…ح: ۱۵۶)
اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ عیسیٰؑ نبیﷺ کی شریعت کے پابند بن کر اتریں گے۔ کوئی نیا دین لے کر نہیں آئیں گے نہ عیسائیت ہی کے مبلغ ہوں گے۔
سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے اور اسلام غالب آ جائے گا۔
٭٭٭